Pages

Thursday, 17 September 2015

شاہی بازار


شاہی بازار
ہر علاقے کی اپنی تہذیب ،ثقافت،رہن،سہن اورطز تعمیر ہوتی ہے۔اورانہی کے ملاپ وہم آہنگی سے شہر وجود میں آتے ہیں اہل دانش کہتے ہیں جس طرح ہر علاقے کی ثقافت جدا ہوتی ہے اسی طرح ہر شہر کی بہی پہچان الگ ہوتی ہے ۔
حیدرآباد مہران کادل ہے اور اس گنجان آباد والے علاقے کادل شاہی بازار ہے۔اس بازار کی یوں تو بہت سی خصوصیات ہیں مگرپہلے اس بازار کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں شاہی بازار قلعہ حیدرآباد کے سامنے سے شروع ہوتا ہے اور سینٹرل جیل پر اسکا اختتام ہوتا ہے شاہی بازارکے دونوں اطراف پورا حیدرآباد واقع ہے۔یہ بازار قلعے کے سامنے سے شروع ہوتا ہے یہ بازار ایک بلکل سیدھی سڑک کی طرح ہے اسکے دونوں اطراف دوکانیں ہیں یہ بازار کلہوڑوں اور تالپوروں نے بنایا تھا مگر ڈھائی سو سال گزرنے کے بعد بھی یہ بازار قائم ہے۔
شاہی بازار کی تاریخ:۔
۱۷۶۸ء ؁میں جب (غلام شاہ کلہوڑو)نے حیدآباد کو آباد کیا عام لوگوں کو قلعے کے باہر آباد کیا اور خود قرابت داروں،فوجی جرنیلوں ،اور اشرافیہ کے ساتھ قلعے میں رہنے لگے اور باہر انہوں نے پیشوں کے لحاظ سے بستیاں آباد کیں اور (خدا آباد) جو کہ کلھوڑوں کا دارلخلافہ تھا وہاں سے ہنر مندمزدور اور دوسرے لوگوں کو یہاں لاکر آباد کیا یہ شہر کلہوڑوں کے دور سے پہلے سرف قلعہ حیدرآباد تک محدود تھا اور اس وقت اسکا نام (نیرون کوٹ) تھا۔
تالپوروں نے جب ۱۷۸۳ء ؁میں (ہالانی) کی جنگ میں کلہوڑوں کو شکست دے کر قلعہ کو فتح کیا تو(میر فتح علی خان تالپور)نے قلعے کے دروازے کے بلکل سامنے شاہی رستوں پر تالپور بازار بنوایا جو کہ شاہی بازار کے نام سے اب تک جانا جاتا ہے ۔شاہی بازاربلکل سیدھا اور سائے دار بازار تھاایسے بازار کو انگریزی میں ا(آرکیڈ) کہتے ہیں اسکے دونوں اطراف آبادییاں وجود میں آئیں بازار کے مشرق میں زیادہ تر مسلم آبادیاں تھیں اور مغرب میں ہندو عامل،بھائی بند بڑی تعداد میں آباد تھے ،غلام شاہ کلہوڑو نے حیدرآباد کو آباد کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا کہ قلعہ کے صدر دروازے کے سامنے محلے آباد کیے جائیں بعد میں میران تالپور نے ایک لمبے بازار کا اضافہ کیا جو بعد میں شاہی بازار کہلایا اور تقریباَایک میل لمبا ہے۔
شاہی بازار:
بازار وہ جگہ ہوتی ہیں جہاں انسان کو ضرورت کی ہر اشیاء بہ آسانی ملتی ہے،کارخانوں ،فیکڑیوں اور دوسرے علاقوں میں تیار ہونے والا سامان بازاروں میں لایا جاتاہے جہاں سے لوگ انہیں خرید کر اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں۔
شاہی بازار بھی ایک ایسا ہی بازار ہے جہاں ایک ہی بازار میںآپکو دنیاکی تمام چیزیں میسر ملیں گیں یہ بازار ایشیاء کا سب سے بڑا بازار ہے حیدرآباد کا شاہی بازار سب سے پرانا بازار ہے بلکہ اگر یوں کہیں کہ حیدرآباد بعد میں وجود میں آیا تو غلط نہیں ہوگا۔
اس بازارمیں (۲۵۰۰) کے لگ بھگ دوکانیں ہیں جب اس بازارر میں داخل ہونگے تو سب سے پہلے حاجی ربڑی وا لے کی دوکان آتی ہے جو کہ تقسیم کہ بعد کی سب سے پرانی دوکان ہے پاکستان کی تقسیم سے پہلے بھی یہاںیہ بازار اسی حالت میں تھا بس فرق اتنا پڑا کہ پہلے ان دوکانوں کے مالک ہندو تاجر تھے اور اب مسلمان ہیں ۔جب حاجی ربڑی سے تھوڑا آگے چلیں گے تو سنار بازاریا صرافہ بازار شروع ہوجائے گا جہاں پر سونے کی تجارت ہوتی ہے اس بازار میں تقریباَ(۲۵۰)دوکانیں ہیں اس سے بڑا سونار بازار حیدرآباد میں کہیں اور واقع نہیں ہے.سونار بازار سے آگے چلیں تو مختلف اشیاء کی دوکانیں آپکو نظر آئیں گیں۔اس بازار میں آپکو ہوزی کاسامان ،پیپر ڈیکوریشن،گھڑیاں،جوتے،چپل،شیشے،کپڑا،بتاشے،سندھی ٹوپی،رومال،دھاگے،گرم بستر غرضکہ ہر چیز ایک ہی بازار میں مہیا ملیں گیں۔
بتاشہ گلی:۔
یہ گلی کھنبانی گھٹی ریشم گلی کہ سامنے ہے اس گلی میں بتاشے،ریوڑیاں،گزک اوردوسرا کھانے کا سامان ملتا ہے اسی وجہ سے اسے بتاشہ گلی کہتے ہیں۔
مکھ کی کھٹی یامکتی گلی:۔
یہ گلی فقیر کے پڑ اور سرور قبی لین کے درمیان واقع ہے یہاں کسی زمانے میں مکھی گوبندرام کے آباواجداد رہا کرتے تھے اسلئے اسکا نام مکھین کی گھٹی پڑا لوگ کہتے ہیں کہ دیوان شوتی رام جو کہ ہندو پنچائیت کا مکھ تھا اس گلی میں رہتا تھا اسی وجہ سے اسکا نام مکھ کی گھٹی پڑا ۔اب اس گلی کا نام مکتی گلی ہے اور اب اس گلی میں بچوں کے کہلونے ملتے ہیں یہاں پر کھلونے ہول سیل کے حساب سے ملتے ہیں اور دوسرے علاقوں کے دوکاندار یہاں سے کھلونے خریدتے ہیں ۔
یتیم شاہ گھٹی:۔
یہ گلی آگے جاکرجمن شاہ کے پڑ کیطرف نکلتی ہے اور اس گلی میں یتیم شاہ کا مزار بھی ہے۔
آڈوانی گھٹی:۔
آڈوانی گھٹی یہ گھٹی چھوٹی گھٹی سے شروع ہو کر شاہی بازار میں ختم ہوتی ہے اس گلی میں دوائیوں کی دوکانیں ہیں انڈیا کے سابق وزیراعظم(ایل کے ایڈوانی)بھی اس گلی میں رہا کرتے تھے
چھوڈکی گھٹی یاچھوٹی گھٹی:۔
یہ گلی جو کہ اب چھوٹی گھٹی کے نام سے مشہور ہے کبھی چھوڈ(چھال)اور چمڑے کے کاروبار کیوجہ سے چھوڈکی گھٹی کہلاتی تھی اسلئے کہ سندھی میں پیڑ کی چھال کو چھوڈکہتے ہیں جو چمڑا رنگنے کے کام آتی ہے چھوڈ سے پہلے اسکا نام سمی چاڑی تھا۔
شوداسانی گھٹی:۔
یہ گلی شاہی بازار کے بائیں جانب آخری گلی ہے جو آگے جا کے تلک چاڑی پر نکلتی ہے اداکار گوپ کا تعلق اسی گلی سے تھا گوپ کا پورا نام ہری گوپ شوداسانی تھا
معاشی حلات:۔
معاشرے کی ترقی کی بنیاد اسکے معاشی حلات پر منحصر ہوتی ہے بلاشبہ شاہی بازارسب سے پرانابازار ہے اور اس بازار کی رونق پورے ہند سندھ میں ہے شاہی بازار پورے حیدرآباد بلکہ پورے اندرونے سندھ کا معاشی حب ہوا کرتا تھا مگر اب حالات یکسر بدل چکے ہیں مقامی دوکاندار وں کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کے معاشی حالات بہتر ہونے کہ بجائے پستی کیطرف جارہے ہیں۔
انجمن شاہی بازارکے جنرل سیکریڑی(عباس چندریگر)کے مطابق کچھ سالوں پہلے تک شاہی بازارصبح ۹ بجے کھلا کرتا تھا اور صبح سویرے اندورون سندھ کے لوگ یہاں سے خریداری کرتے تھے اندورون سندھ کے لوگ یہاں سے اپنا مال خریدکر ٹرانسپورٹ پر بک کرواتے تھے اور یہ سلسلہ دوپہر تک چلتا تھا دور دراز کے وہ لوگ جنکی اپنے علاقوں میں دوکانیں تھیں وہ اپنی دوکانوں کیلئے مال لیا کرتے تھے اور دوپہر کے بعد شہری لوگ خریداری کیلئے آیا کرتے تھے اور رات ۹ بجے تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا ۔
انجمن کے صدر (اقبال بھولو)کے مطابق پہلے اس بازارمیں اتنا کام تھا کہ سارا دن بیٹھنے کی فرست نہیں ملتی تھی۔
بعض دوسرے دوکانداروں کے مطابق اب سارا دن گاہکوں کی راہ تکتے گزر جاتی ہے اور ہم یوں ہی بیٹھ کرچلے جاتے ہیں دوکانداروں کا مزید کہنا تھاکہ اب دوکانداروں کا کرایہ نکالنا اور خرچ نکالنا بھی مشکل ہو جاتا ہے حلانکہ شاہی بازار میں آج بھی دوسرے علاقوں کی مارکیٹوں کے مقابلہ سامان سستا ملتا ہے
اس بازار میں دوکانوں کی قطار در قطار یں ہیں اگر کوئی گھڑی کی دوکان ہے تو آمنے سامنے گھڑی والے ہی بیٹھے ہیں اگر کپڑے والے ہیں تو انکا بھی یہی حال ہے ہوزری،چپل، ٹوپی،جوتے۔پیپرڈیکوریشن غرض کہ قطار در قطار ایک ہی آئیٹم کی دوکانیں آپکو نظر آئیں گیں۔
معاشی حالات کی پستی کے سبب:۔
معاشی حالات کی پستی کا سب سے بڑا سبب مہنگائی ہے جس نے لوگوں کی قوت خرید ختم کردی ہے اور شاہی بازار کے علاوہ شہر میں دوسری مارکٹیں بہت بنگئیں ہیں انکی وجہ سے سفید پوش لوگوں نے ان مارکیٹوں کا رخ کرلیا ہے اور شاہی بازار کو بھلا بیٹھے ہیں اب صرف غریب لوگ ہی شاہی بازار کا رخ کرتے ہیں اگر اندرون سندھ کی بات کیجائے تو وہاں پر مقامی مارکٹیں تعمیر ہو گئی ہیں اور وہ لوگ اب حیدرآباد کے شاہی بازارکا رخ کم کرتے ہیں مقامی دوکانداروں کے مطابق اندورون سندھ میں اتنی بڑی مارکٹیں اور تاجر بیٹھے ہیں جو براہ راست کمپینوں اور کارخانوں سے مال اٹھالیتے ہیں جس کے سبب اندورن کا گاہک کم ہوگیا ہے گاہکوں کی کمی کی ایک وجہ موبائل فون بھی ہے اب لوگ فقظ چند منت کی گفتگو کر کے اپنا مال بک کرالیتے ہیں آنے کی بھی زحمت نہیں ہوتی اور بڑھتا ہوا رش بھی ایک وجہ ہے کہ لوگ یہاں کا رخ کرنے سے کتراتے ہیں ۔شاہی بازارمیں چلنا پھرنا بہت مشکل کام ہے شاہی بازارجتنا طویل ہے اس میں اتنی ہی گلیاں ہیں ان سینکڑوں گلیوں میں ہزاروں مکانات ہیں اور ان مکانات میں لاکھوں لوگ رہتے ہیں جنکی گزر گاہ یہ شاہی بازار ہی ہے ان تمام تر وجوہات کی وجہ سے یہاں کے معاشی حالات بہت متاثر ہوئے ہیںیہ تمام وجوہات مل کر شاہی بازار میں گاہکوں کا راستہ روکتے ہیں جسکا براہ راست نقصان دوکانداروں کو ہوتا ہے یہاں کتنے ہی دوکاندار ایسے ہیں جو تقسیم کے بعد سے یہاں بیٹھے ہیں مگر انکو اپنا ماضی روشن نظر آتا تھا جبکہ مستقبل انہیں تاریک نظر آتا ہے۔
شاہی بازار کے مسائل:۔
شاہی بازار کے ۳ بڑے مسلئے ہیں؛
۱)صفائی۔صفائی ستھرائی کا مسلۂ بہت اہم ہے کسی زامانے میں شاہی بازارآئینہ کی طرحچمکتا تھا یہاں پر باقاعدہ جمادارآیا کرتے تھے اورصاف صفائی ہوا کرتی تھی مگر آج یہ عالم ہے کہ مٹی تلے دبے بازار کا فرش نظر نہیں آتااور ہر چند قدم بعد آپکوکچرے کا ڈھیر نظر آئے گاجسکی وجہ سے دوکاندار اور گاہک دونوں ہی پریشان ہیں۔انکی حکومت سے درخواست ہے کہ صفائی کا کام کرا کر اس بازار کی رونقیں واپس لوٹائی جائیں۔
۲)تجاوزات۔اس بازار کے درمیان کا فاصلہ تقریباَکوئی (۱۵ )فٹ ہے جو کہ سمٹ کر (۷) فٹ رہ گیا ہے اور یہ بھی کہ ایک بڑی وجہ ہے رش کی ۔دوکانداروں نے ایک دوسرے کی دیکھم دیکھ ۲ سے ۳ فٹ جگہ روک رکھی ہے اور پھر دوکانوں کے آگے لوگ اپنی موٹر سائیکل پارک کر ک چلے جاتے ہیں جسکی وجہ سے پیدل چلنے والوں کو خاصی پریشانی ہوتی ہے حکومت کو چاہیے کہ موٹر سائیکلوں اور دوسری گاڑیوں پر پابندی لگائے اور تجاوزات بھی ختم کرائے اور لوگ بس پیدل ہی اس بازار میں خریداری کریں ۔
۳)امن و امان کی صورت حال ۔امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے بھی اس بازار کی رونق میں کافی کمی واقع ہوئی ہے دوکاندارصبج جلدی دوکان نہیں کھولتے بلکہ ایک دوسرے کو مشورہ دیتے ہیں کہ صبح دوکان جلدی نہ کھولو اگر کوئی دوکاندار صبح جلدی دوکان کھول لیتا ہے تو اکژوہ لوٹ لیا جاتا ہے صرافہ بازار میں تو دن دھاڑے بھی چھینا جھپٹی ہوتی رہتی ہے اسی وجہ سے تمام دوکانداروں نے اپنے ذاتی محافظ رکھے ہوئے ہیں۔
یہ تمام وجوہات اس بازارکی رونقوں کو ماند کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں حکومت کو ٹھوس اقدامات کر کے اس بازار کی رونقوں کو بحال کرنا چاہیے کیونکہ یہ بازار ہمارا ثاثہ ہیں۔

حیدرآباد ی مٹھائیاں انیقہ فاروق


حیدرآباد ی مٹھائیاں انیقہ فاروق
لب مہران کے مختلف شہروں کی اپنی روایات ہیں۔یہاں کی تہذیب و ثقافت اور سوغاتیں بھی ملک وبیرون ممالک بڑی شہرت کی حامل ہیں جس طرح ہالا کاشی کے کام اور نہایت ہی اعلیٰ قسم کی دستکاری کی وجہ سے مشہور ہے تو بالکل اسی طرح خوشگوار اور دلفریب شاموں سے معروف شہر حیدرآباد اپنی خوش ذائقہ،لذیز اور منفرد مٹھائیوں اورحلوہ جات کی وجہ سے پورے علاقے میں ایک خاص اہمیت کاحامل ہے ۔
حافظ سوئیٹس:اسی شہر کی حافظ سوئیٹس اپنی کوش ذائقہ ربڑی،گلاب جامن اور ماوے کی وجہ سے سندھ بھر میں مشہور ہے۔یہاں کی ربڑی بڑی خوش ذائقہ اور لذیذ ہوتی ہے اور حیدرآباد کے رہائشی اپنے مہمانوں و دوست احباب کو بطور تحفہ بھیجتے رہتے ہیں اور اکثر بے تکلف دوست و احباب تو اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے باقاعدہ فرمائش کرکے ربڑی منگواتے ہیں اور یہ فرمائشیں نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک سے بھی آتی رہتی ہیں۔
حافظ سوئیٹس کو ربڑی بنات ہوئے تقریباً چالیس سال ہوگئے ہیں اور دکان کے مالک محمد عارف نے بتایا کہ یہ کام ان کے دادا جان نے شروع کیا تھا اور ربری اور دیگر مٹھائیوں کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ کرنا بالکل آسان ہے کہ یہ دکان انشاء اللہ آئندہ کئی صدیاں اسی طرح عوام الناس کو قدرت کی ان بے مثال نعمتوں کو جوہری کی طرح قدیم اور جدید امتزاج کے ساتھ نت نیت ذائقوں میں پیش کرتے رہیں گے۔
حافظ سوئیٹس کے ربڑی،گلاب جامن کے علاوہ بھی بڑے مشہور زعفرانی آئٹم ہیں جن میں کاجو،برفی،زعفرانی کٹلس،اور انڈین مٹھائیں بھی اپنے ذائقے اور لذت کی وجہ سے خاص مقام رکھتی ہیں۔یہ مٹھائیاں دیسی گھی سے تیار کی جاتی ہیں۔اپنی ربڑی اور خاص مٹھائیوں کی وجہ سے حیدرآباد اور ملک بھر سے دلچسپی اور مانگ کی وجہ سے حیدرآباد صدر،پنڈی اور اسلام آباد میں بھی ایک ایک برانچ کھول دی ہے جس کی وجہ سے عوام باآسانی اپنے علاقوں میں اپنے من پسند ذائقے حاصل کرسکتے ہیں۔حافظ سوئیٹس نے اپنے کرم فرماؤں کو مٹھاس کے ساتھ اپنے لذیذ سموسوں اور صبح کے ناشتے سے بھی نمکین ذائقہ فراہم کیا ہے۔
سوغات شیریں: اس کے علاوہ اگر ہم حیدرآباد میں مٹھائی کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو یہ بڑی ناانصافی ہوگی کہ اگر ہم سوغات شیریں سوئیٹ شاپ کا ذکر نہ کریں کیونکہ یہ دکان اپنے نام کے مطابق مختلف حلوہ جات کی سوغات تیار کرنے میں اپنی مثال آپ ہے ان کا ذائقہ دل موہ لینے والا ہے۔سوغات شیریں اس کے علاوہ مختلف انواع و اقسام کی لذیذ وخوش ذائقہ مٹھائیاں بنا کر عوام الناس کولذیذ اور صحت بخش ماحول فراہم کررہے ہیں۔
موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی سوغات شیریں کی مشہور سوغاتیں لوکی کا حلوہ،پستہ حلوہ،گاجر کا حلوہ اور زعفرانی حلوے کی مانگ میں بہت اضافہ ہوجاتا ہے کیونکہ خشک میوہ جات ور دیسی گھی میں تیار کردہ یہ حلوہ جات موسم سرما میں کھانے سے جسم کو حرارت اور تونائی فراہم کرتے ہیں اور عوام بڑے ذوق وشوق سے یہ حلوہ جات اپنے اہل خانہ،رشتہ داروں اور دوست و احباب کو کھلاتے ہیں۔سوغات شیریں کے حلوہ جات اپنے منفرد ذائقے کی وجہ سے ہر طبقہ فکر میں بہت پسند کئے جاتے ہیں اس کے علاوہ عوام الناس اپنی پسند کی کوئی خاص مٹھائی بھی آرڈر دیکر کثیر تعداد میں بنوا سکتے ہیں۔
اپنی سوغات کی بے پناہ مقبولیت کے باعث انتظامیہ سوغات شیریں نے عوام الناس کی آسانی کے لئے راولپنڈی میں بھی ایک برانچ قائم کردی ہے۔
پاک سوئیٹس: حیدرآباد کی مٹھائیوں کی ایک اورپہچان پاک سوئٹ ہاؤس بھی ہے جو کہ مختلف قسم کے تیس آئٹم تیار کرتا ہے جو کہ منفرد اور لذیذ ذائقوں کی وجہ سے بہت مشہور ہیں۔یہ سوئٹ شاپ تقریباً45سال سے عوام الناس کو منفرد ذائقے دار مٹھائیاں پیش کررہا ہے۔
پاک سوئیٹس کی پنجیری،گوندے کے لڈو اور گاجر کا حلوہ بہت ہی عمدہ اور لذیذ ہوتا ہے لوگ شوق سے کھاتے ہیں اور دوست واحباب کو تھٖے کے طور پر دیتے ہیں۔

Wednesday, 16 September 2015

Journalism in Bhan Sayedabad

History of Bhan Sayedabad 

 Shirya Veer

Bhan sayedabad is the oldest town of Sindh which is the located near district dadu and division sehwan shareef. At first it was considered in district dadu, but now it is being considered in district Jamshoro. In starting it was nothing just a simple village where there was no facility for the villagers. But with the passage of time changes take place and gradually it becomes well situated town. 

It was the minister Abdullah shah who worked for the betterment of bhan from 1990. He supported every community to make this village a good place to live luxurious life. He placed a bank, a hospital and also a community center where every problem of this city could be solved. He also gives aid to the Hindus for the temple and did many other works for the progress of this town. Now Mr. Roshan burro is handling all these works and now bhan can be listed in civilized cities of the Sindh. 

History of  press club
A press club is a place from every news can be given or collected . it’s the main center where every channel get the news information. Every area has its own press club by which any news of that city could be given forward. It could be called the basic place orf gathering a news information there are two press clubs in Bhan Sayedabad.  The main is press club Bhan Sayedabad another is National Press club Bhan is the extension of the press club bhan.
Due to some problems this group was made by new repoters. The press club  in bhan Sayedabad was started in 1982. In other the journalisim in bhan Sayedabad was started when this press club was bult in 1982. Its located near the doctor abdul nabi’s center. the pioneer of this press club was (late) Abdul Ghani Memon and the starter was Muhammad Ishaq Memon.

Members / Reporters of the press club from 1982- 1994
Ø Muhammad Ishhaq Memon
Ø Abdul Ghani Memon
Ø Muhammad Usman Channa
Ø Siddiq Memon
Ø Dadan Ali Bhand

News papers from 1982-1994
Ø Ibrat
Ø Sindhu
Ø Jaago
Ø Hilal Pakistan

Mr Siddiq Memon was Handling Sindhu newspaper, Muhammad Usman channa was handling Halal Pakistan, Abdul Ghani Memon was Handling Jaago and Dadan Ali Bhand was handling Ibrat and after him Mr: Muhammad Ishhaq was handling it.

After 1993 from 1994 the age of T.V channels were emerged in Bhan Sayedabad. Now T.V channels are available for watching the whole news story. New reporters were working for it and also the newspaper and old reporters were working for the press club.

News Channels From 1994 to 2014:-
Ø Mehran T.V
Ø Dharti T.V
Ø Ab tak T.V

New reporters from 1994 to 2014
Ø Akram Ali Memon
Ø Adam Mengal

Akram Ali Memon was the reporter of the Mehran T.V and Adam Mengal was the reporter of Dharti T.V and still they are working on it. But there is no particular reporter for the Ab Tak T.V in Bhan Sayedabad.

The national press club bhan Sayedabad was built in 2013. The pioneer was Pardeep Kumar and starter was the Asif Ali memon. The channel of this press club were the part of main press club and also the reporters were working in it from 2006, but from the year of 2013 some of channels and reporters started to working separately from that press club.

T.V Channels of this press Club. From 2006-2014
Ø KTN NEWS
Ø SINDH TV
Ø AWAZ TV
Ø ARY NEWS
Reporters from  2006-2014
Ø Perdeep Kumar
Ø Asif Ali Memon
Ø Abdul Wahid Memon
Ø Khokhar Zulfiqar

Perdeep Kumar is working for the KTN news. Asif Ali Memon is reporter of ARY News and Abdul Wahid Memon Reporter of Sindh TV and Khokhar Zulfiqar is working for AWAZ TV.

Magzines read in Bhan Sayedabad.
Ø Soobh Magzines
Ø Jahan Sunday
Ø Jahan Jag Mag
Ø Jahan Andaz
Ø Aetraf
Ø Sindho Magzine

Newspapers at evening time in bhan Sayedabad.
Ø Sham (daily newspaper)
There is only one newspaper at evening time. Which is read in bhan Sayedabad.

Newspapers in bhan Sayedabad from 1994-2014.
Ø Ibrat ( Daily)
Ø Awami Awaz ( Daily)
Ø Sindhu ( Daily)
Ø Sindh Express ( Daily)
Ø Sukkar ( Daily)
Ø Razani Jeejal ( Daily)
Ø Pak ( Daily)
Ø Sindh ( Daily)
Ø Mehran ( Daily)
Ø Sindh Glob ( Daily)
Ø Halchal ( Daily)
Ø Apeal ( Daily)
Ø Jahan Pakistan ( Daily)
Ø Sobh ( Daily)
Ø Regional Timer (English Daily)
Ø Sham ( Daily)
Ø Kawish ( Daily)
Ø Hilal Pakistan ( Daily)

These news paper, magazine are not published or printed in Bhan Sayedabad.
There is no printing press. These comes from others cities but Pardeep Kumar Intends to Publish a news Paper from Bhan Sayedabad in Future, Named. Bhan Times

Problems and Issues of Bhan Sayedabad Highlighted by Media.
Like every city bhan has also some problem to be solved. Problem like Health, sweeping system, Sewerage, Education, Security and many others. But the main problem of this city is load shading . there is a lot of shortage of light at least there is 15 to 18 hours load shading in summer time and also the responsibility of this is not taking properly by workers. And when any transformer became use less than the take a month to repair it. For this the citizens protest all the time. 
The reporter of this cities always high lights this main issue and try to grab attention of government to this issue. Security is second most importance issue of this town which is high lighted by media. There is a lot of robbery based comredic system. The police is not taking any action against it so the media is working for it to forward it to the government.  



Problems with the Media Persons in Bhan Sayedabad

Bhan Sayedabad is a well mannered city but still there are some problems which media and media persons are facing every time. When there is any serious issue the reporters do not have any facility to reach at the site, they there selves manage it. They have not the facility of Machinery or any technical instruments which can be use at the time of reporting or in the press club to make a good edited report or coverage any issue. There is no printing press, the News papers came from other cities. 

The media persons are not paid properly for their work, they should be paid according to their done job in their field. The media persons are not treated as a important or special person of a media channel. If there is any problem and they cover it, the people and the police do not respect them, they avoid them and also misbehave with them. It’s the problem which is happening in whole Pakistan with the media persons.

The researcher was student of BS-III second semester in 2014
 This research work was done under supervisioon of Sir Sohail Sangi

Thursday, 8 May 2014

نيوسعيد آباد جي صحافت: Habibur Rehman Jamali

نيوسعيد آباد جي صحافت جي تاريخ


نيو سعيد آباد پريس ڪلب جو بنياد 1980ع ۾ پيو ۽ ان جو بنياد اڪرم قائمخاني ۽ امتياز ميمڻ رکيو.
نيو سعيد آباد مان سنڌ سرهاڻ(15 روزا) پبلش ٿيندو هو. جيڪو 95ع  کان 2000ع  تائين هليو ۽ نيو سعيد آباد مئگزين سلسلي وار نيو سعيد آباد مان نڪرندو آهي.

گل حسن سمون:
تاريخ پيدائش 1956ع
صحافت جي شروعات:75-74ع
85ع ۾ صحافت ڇڏي ڏني
 گل حسن سمون نيو سعيد آباد جو  هڪ ارڏو ۽ ڪڏهن به آڻ نه مڃيندڙ صحافي هو. هن صحافت جي دوران پنهنجي فرضن ۾ ڪڏهن به غفلت نه ڪئي هڪ ٻهراڙي جو علائقو هجڻ ۽ 75- 74 وارو دور هجڻ سب نيو سعيد آباد ۾ کيس ڪابه اهڙي سهولت ميسر نه هئي، جو هن کي پنهنجي پيشوراڻي ذميواري نڀائڻ ۾ آساني ٿئي، پر ان باوجود گل حسن سمون وڏي ديده دليري سان حالتن سان مقابلو ڪري پنهنجي ذميواري پوري ڪرڻ ۾ ڪابه ڪسر باقي نه ڇڏي. گل سمون ٻڌائي ٿو ته هونئن ته صحافين کي ڪيترائي مسئلا درپيش هئا پر ان سان گڏ اخبارن جي مالڪن جي خود غرضي به خود هڪ  خطرناڪ مسئلو بڻيل هو، پوليس جي خوف  سبب اخبارون سندن خلاف ڪنهن به قسم جون خبرون نه هلائيندا هئا ۽ صحافين کي 5-5 سال گذرڻ کانپوءِ به پريس ڪارڊ جاري نه ڪندا هئا، ان وقت نيو سعيد آباد ۾ اردو اخبارن جي تصور به نه هئي.
گل حسن سمون امن ۽ مساوات کان صحافت جي شرعات ڪئي هن ٻڌايو ته اداري 8 ڏينهن ۾  ڪارڊ جاري ڪري وڏي حوصلا افزائي ڪئي.
هن ٻڌايو ته ان زماني ۾ پوليس تشدد ڪري هڪ  شماڻهو کي ماري ڇڏيو هو مون ان واقعي جي  مون رپورٽنگ ڪئي ته پوليس گردي عروج تي هجڻ سبب مون کي تمام گهڻو پريشر ائيز ڪيو ويو ته مان ان جي ترديد ڪريان. مون اداري سان رابطو ڪري مسئلو ٻڌايو ته اداري منهنجي مالڪي ڪئي ۽ مون کي پوليس طرفان ملندڙ ڌمڪين خلاف  ڊبل ڪالم ۾ خبر هلائي ڇڏي، ان  خبر کانپوءِ پوليس ضد تان لٿي ۽ مون کان معافي ورتي وئي. (ايم آر ڊي) جي تحريڪ ۾ اڻ سڌي طرح تحريڪ هلائي ،گهڻيون خبرون اهڙيون به هيون جن کي اخبارون ڇاپنديون ن هيون پوءِnews desk VOS بي بي سي ، گارجين ۽ فرانس جي نيو ايجنسيز کي خبرون موڪلڻ شروع ڪيون.
24 ڪلاڪ روپوش هوندا هئاسين پوليس جي خوف سبب ۽ هالا کي به ڪور ڪندا هئاسين.
گل حسن سمون ٻڌايو ته (ايم آر ڊي) جي تحريڪ سبب سڄي ميڊيا هالا ۾ لٿل هئي. ڊي ايس پي مولا بخش انصاري، بي بي سي جي نمائندي اين هور کي لاڪپ ڪري ڇڏيو. اسان پڇڻ وياسين ته هن ٻڌايو پوليس بند ڪري ڇڏيو آهي. بلاول کوسو ۽ معروف ڀنڀرو ۾ آرمي ويٺل هئي. بعد ۾ اين هور آزاد ٿيو ، 
خليل الزمان وٽ هڪ اهم گڏجاڻي ٿي، ان وقت بي بي سي  ٻڌڻ به ڏوهه هو. ماڻهو  لڪي بي بي سي ٻڌندا هئا. ان وقت هڪ وڏو واقعو ٿيو لاکاٽ ۾ آرمي تي حملو ڪيو ويو  بدلي ۾ لاکاٽ ڳوٺ کي آرمي  وارن فضائيه مان باهه ڏئي ڇڏي.
وڏو واقعو:
گل حسن سمون ٻڌايو ته سندس صحافتي دور ۾ وڏو اوقعو 80 ۾ ٿيو.
 پوري پاڪستان مان اغوا ٿيل 32 ڇوڪرا خارڪارن کان ASP راهو خان بروهي ڇاپو هڻي بازياب ڪرايا هئا، نور ڪيٽي ٻيلي مان،
اها خبر اخبارن جي مين سرخي بڻجي وئي، سڄي ملڪ مان ماڻهو پنهنجي جگر جي ٽڪرن جي ملڻ جي اميد ڪري پهچي ويا. پر پٺاڻ خارڪارن جا ڌڻي تمام گهڻا بااثر هئا، هنن بازياب ٿيل ڇوڪرا پوليس کان وري واپس ڪرايا. ان بيواجبي ۽ ناانصافي جي  مون رپورٽنگ ڪئي. خبرون ميڊيا ۾ اچڻ بعد وڏو هنگامو ٿيو. ان وقت ڪرنل خبر هلائڻ عيوض مون کي  سنگين نتيجا ڀوڳڻ جون ڌمڪيون ڏنيون. مجبور ٿي ڪرنل جو موقف هلائڻو پيو  جنهن ۾ هن چيو ته ڇوڪرا  پٺاڻن جا ئي هئا جيڪي انهن کي واپس ڪيا ويا آهن ۽ ائين تاريخ جي وڏي ڏوهه بابت اسان چاهيندي به ڪجهه نه ڪري سگهياسين ۽ سڄي ملڪ مان پنهنجي پيارن کي ڳولهڻ لاءِ پهتل ماڻهو مايوس ٿي واپس روانا ٿي ويا.
صحافي گل حسن سمون  صحافت ڇڏڻ جا سبب ٻڌائيندي چوي ٿو ته:
آزاد ڪشمير جو وزير اعظم صدر ضياءُ الحق جو پيغام کڻي مخدوم طالب الموليٰ وٽ آيو هو، پر مخدوم طالب الموليٰ ڪنهن به قسم جي مفاهمت کان ٺپ جواب ڏئي ڇڏيو. ان خفيه ميٽنگ جي خبر  جنگ جي حيدرآباد جي نمائندي رپورٽ ڪئي. خبر لڳڻ بعد مون کي اداري طرفان نوٽيس موڪليو ويو ته خبر  ڇو رپورٽ نه ڪئي؟. مون پنهنجي ذريعن کان معلوم ڪري جواب موڪليو ته مير خليل الرحمان جاپان جي دوري تي ويل آهي. جتي صدر ضياءُ الحق کيس عرض ڪيو ته تون خبر هلاءِ ته جئين ذوالفقار علي ڀٽو جو مورال ڪري،،.
مون شوڪاز  جو اهو جواب ڏئي چيو ته مان هاڻي  اوهان وٽ ڪم نه ڪندس.جواب ۾ هنن چيو ته تو کي اهو سڀ ڪيئن معلوم ٿيو؟   ، تون خطرناڪ ماڻهو آهين تو جهڙي ماڻهو جي ضرورت ناهي   . ان کانپوءِ دلشڪني ٿي صحافت ڇڏي ڏني. صحافت جي پويان پنهنجو دڪان به تباهه ڪيو.
گل حسن سمون هيٺين اخبارن ۾ رپورٽنگ ڪئي:
مساوات     امن     سنڌ نيوز   عبرت     هلال پاڪستان    ۽    جنگ



عبدالحميد لاکو
تاريخ پئدائش 1934ع نيو سعيد آباد
صحافت جي شروعات: 1960ع کان پوءِ
عبدالحميد لاکو 1947ع ۾ فائنل  (7 درجا) پاس ڪري  تعليم ڇڏي ڏني.
هيٺين اخبارن ۾ رپورٽنگ ڪئي: عبرت،  آفتاب، مهراڻ، خادم وطن ، هلال پاڪستان، الوحيد
آفتاب اخبار جو ايڊيٽر علي محمد شيخ هو.
عبدالحميد لاکو نيو سعيد آباد جو اهو صحافي آهي، جنهن سڀ کان اول نيو سعيد آباد اسٽيشن تان صحافت جي ميدان ۾ پير پاتو، هن نيو سعيد آباد ۾ سڀ کان پهرين الوحيد اخبار جو رپورٽر ٿي نيو سعيد آباد ۾ صحافت  کي متعارف ڪرايو. هن صحافت تمام احتياط ۽ درمياني نموني سان ڪئي.
هن ٻڌايو ته 1970ع ۾ ان وقت جي لحاظ کان صحافت تمام ڏکي به هوندي هئي ته ان جي تمام گهڻي عزت به هوندي هئي. هن ٻڌايو ته انور هالائي، گل هالاڻي، وڪيل سمون، علي نواز سمون، مجاهد، ذوالقرنين شاهه سان گڏجي اسان هالا ۾ پريس ڪلب جو بنياد رکيو، جنرل سيڪريٽري انور هالائي، صدر جهامراءِ نٿراڻي ۽ آئون عبدالحميد لاکو نائب صدر هئاسين.
 ان وقت به ڀٽائي جي ميلي تي دعوت ناما ڏيندا هئا. اسان شريڪ ٿي رپورٽنگ ڪندا هئاسين گورنر محمد  موسيٰ بهترين رپورٽنگ ڪرڻ تي اسان کي داد ڏيندو هو.
هن ٻڌايو ته واڻين جي لڏي وڃڻ جي ڪري  سنڌ کي معاشي ۽ تعليمي ميدان تي  تمام وڏو ڌڪ رسيو،  واڻين جي لڏي وڃڻ کانپوءِ 60 سيڪڙو اسڪول ڦٽي ويا، جنهن جي نتيجي ۾ غريبن جا ٻار تعليم جي زيور  کان محروم ٿي رلي ويا، جڏهن ته اميرن خرچ ڪري پنهنجن ٻارن کي پڙهايو. هن ٻڌايو ته صحافت ڪندي وقت تمام سٺو گذريو. باقي ذريعا نه هجڻ سبب خبرون موڪلڻ ۾ تمام گهڻي تڪليف ٿيندي هئي.
هن ٻڌايو ته نيو سعيد آباد جي محمدي پارڪ ۾ 35 سالن کان ٿيندڙ جمعيت اهل حديث ڪانفرنس جو بنياد بديع الدين شاهه راشدي جي سرپرستي ۾ مون ۽ دودو رند رکيو. ان وقت ماڻهو اهو چئي اعتراض ڪيو ته اوهان نئون دين کڻي آيا آهيو.

گل حسن خاصخيلي:


تاريخ پيدائش 24-2-1980ع
گل حسن خاصخيلي 2004ع  ۾ نيو سعيد آباد کان 14 ڪلوميٽرن جي مفاصلي تي اتر طرف واقع هڪ ننڍڙي اسٽاپ بکر جمالي اسٽيشن تان عوامي آواز جو رپورٽر ٿي صحافت جي شروعات ڪئي. سنڌو ۾ به رپورٽر رهي چڪو ۽ هاڻ آواز ٽي وي  جو بکر جمالي اسٽيشن مان رپورٽر آهي. گل حسن خاصخيلي اهڙن حساس مسئلن جي به رپوٽنگ ڪئي جن تي ڪير بحث ڪرڻ لاءِ به تيار نه هو. هن وڏيرن جي باشاهت ۾ مظلومن جي آواز کي  ايوان اقتدار تائين پهچائڻ لاءِ ڪا ڪسر نه ڇڏي. ڪيترائي دفعا بکر جمالي مان نيڪالي ڏني وئي پر هن انهن سڀني چئلينجن جو مقابلو ڪيو، گل حسن ٻڌايو ته آئون فخر ٿو ڪريان ته بکر جمالي ۾ صحافت ڪرڻ ٻارن جي راند نه هئي، هڪ ٻهراڙي جو علائقو ٻيو وري وڏيرن جي بادشاهت ۽ ٽيون وري سهولتون نه هئڻ برابر، پر پوءِ به مون بنا ڪنهن خوف جي اهو ڪم سر انجام ڏنو ۽ مون کي ان ڳالهه تي فخر آهي ته مون جيڪا محنت ڪئي ان رنگ لاتو ۽ اڄ بکر جمالي ۾ آئون اڪيلو نه پر درجن کن صحافي ڪم ڪري رهيا آهن. گل حسن علائقي جي هر ننڍي توڙي وڏي مسئلي تي دليري سان  لکندو ٿو اچي.

زاهد ڪاڪا:
تاريخ پيدائش 18- 5 -1982ع
صحافت جي شروعات 2004ع کان پنهنجي ڳوٺ ڀليڏنو ڪاڪا اسٽيشن تان  عوامي آواز جو رپورٽر ٿي ڪئي.
زاهد ڪاڪا هيٺين اخبارن ۾ رپورٽنگ ڪئي: سڪار: تعلقي رپورٽر, سوڀ: تعلقي رپورٽر  ڪاوش: تعلقي رپورٽر
فيصلو: ضلعي رپورٽر
ان کان علاوه پريس ڪلب نيو سعيد آباد جو جنرل سيڪريٽري ۽ سنڌ صحافي سنگت جو مرڪزي سيڪريٽري رڪارڊ واقعات آهي.
تعليم: ايم اي سوشالاجي ۽ ايم اي سنڌي




نيو سعيد آباد جا رپورٽر                                         اخبار                                                  اسٽيشن
------------------------------------------------------------------------------------------------
حسن سمون                                                     جنگ                                           نيو سعيد آباد
اطهر  جيلاني                                                   جنگ                                                                
اڪرم الله قائمخاني                                                جنگ
غلام الله رند
حبيب الله عمراڻي                                                 
غلام حسين ميمڻ                                                   عبرت
امتياز ميمڻ                                                          ڪاوش
قاسم قمبراڻي                                                        آواز
اڪرم قائمخاني   
محمد دين بلوچ                                                      ڪوشش
امداد الله رند
ممتاز ٻلال                                                        سنڌ ٽي وي
عبدالواحد عمراڻي                                               نيو سعيد آباد مئگزين
ڪرم الله ميمڻ
اسد الله ميمڻ
رائو طاهر
رائو سعيد الزمان
زاهد ڪاڪا                                                        سوڀ
آصف عمراڻي
امداد ميمڻ
حسين ميمڻ                                                          عبرت                                                    بکر جمالي
صحبت سهيل                                                       خبرون
غلام نبي سولنگي
نظير ملاح
وحيد ٻلال
محفوظ راجپوت
حزب الله سمون
عبدالرزاق ساهر
گل حسين خاصخيلي                                             آواز ٽي وي                                                بکر جمالي
علي حسن ڪاڪا                                                 ڪوشش                                                 بکر جمالي
خير محمد جمالي                                                   سوڀ                                                     بکر جمالي



 ------------------------------------------------------------------------------------------------


   Under supervision of Sir Sohail Sangi

ASSIGNMENT: HISTORY OF JOURNALISM 

 HABIB U RAHMAN


CLASS: M A {PREVIOUS}

DEPT: MASS COMMUNICATION




Monday, 23 September 2013

Science exhibition waleed Ahmed

سائنس اےکزےبےشن
آخر وہ کونسی جہد تھی جس کی بدولت ابن الہےشم نے ہزار سال پہلے دنیا کا سب سے پہلا کےمرا بناےا ےا پھر بو علی سےنا کو پہلی بار انسانی آپریشن کے دوران انیستھسیا کے استعمال پر آمادہ کیا انہےں دنےا کا سب سے بڑا ماہر طبےعات بنایا اور وہ کےا وجہ تھی کہ اےڈےسن کو دنےا کا سب سے بڑا موجد مانا جاتا ہے ان سب عظےم انسانوں کے کارناموں کا راز ان کی جہد مسلسل اور عملی کوششوں مےں پنہا ں ہے ۔
آج ہماری نئی نسل مےں انہی عملی سرگرمیوں کا فقدان ہے۔جس کی وجہ سے ہمارا ملک وہ ترقی نہ کر سکا جس ک ہم مجاز تھے۔اس لئے طالب علموں میں عملی شعور بیدار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئز پروگرام ،سیمینار اور مختلف ایکزبیشن کا انعقاد کیا جائے۔تاکہ طالب علموں کو تعلیمی میدان کے ساتھ ساتھ عملی میدان میں بھی ترقی حاصل کرنے کا موقع مےسر ہواور وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں علمی و عملی میدان میں صرف کریں جس سے نہ صرف ان کی انکی معلومات میں اضافہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی نشوو نما بھی ہواور ان کو دیکھ کر دوسرے طالب علموںمیں بھی نصابی و غیر نصابی عملی میدان میں حصہ لینے کا شوق و جزبہ پیدا ہو۔
پاکستان میں بلخصوص سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں طالب علموں کے لئے ایسے نصابی و غیر نصابی اقدامات بہت کم کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ذہنی نشو ونما اورمعلومات میں اضافہ نہیں ہوتا لیکن جب بھی ان کے لئے ایسے عملی اقدامات کئے جاتے ہےں تو اس مےں طاب علموں کی بڑی تعداد بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے 
حےدرآباد کے شہر کے طلباءو طالبات کی زہنی نشوو نما و معلومات میں اضافے کے لئے ہےرآباد کے گورنمنٹ گرلز پاپائلٹ ہائی اسکول میں سائنس ایکزیبشن کا انعقاد کیا گیا جو تین دن تک جاری رہا جس میں حیدرآبادشہر کے مختلف اسکول و کالجز کے طالبعلموں نے نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیابلکہ اےسے پروجےکٹس پےش کیے جس کو دےکھ کر تعرےف کرے بنا نہ رہا جا سکا۔ اس اےکزےبےشن مےںطلبہ کی جانب سے پےش کیے گئے ماڈلز مےں اےک گرڈ اسٹےشن کا ماڈل تھا جس میں انہوں نے گرڈ اسٹےشن سے بجلی گھروں تک منتقل کرنے کا طرےقہ کار دکھاےا ۔اےک اسکول کی جانب سے دوائےاں بنانے کی فےکٹری کا منظر پےش کیا گےا کے دوائےاں کس طرح بنائی جاتی ہیںاور انھےں کس طرح بوتلوں مےں محفوظ کےا جاتا ہے اسی طرح اےک دوسرے اسکول کی جانب سے سےمنٹ بنانے کی فےکٹری کا ماڈل پےش کےاگےا اورمختلف اسکول و کالجز کے طلباءو طالبات نے آلو اور تانبے کی مدد سے توانائی پیداکر کے چلنے والا کےلکوٹر ،برقی گھنٹی،شمسی توانائی سے چلنے والی گھڑی اور نظام شمسی کے علاوہ مختلف لاجواب پروجےکٹس پےش کر کےااےگزےبےشن میںچار چاند لگادےئے ۔اس اےگزےبےشن میں دوسرے طالب علموں میں بھی عملی مےدان میںنت نئی کوششیں کرنے کا ارادہ کےا اوراس بات کا عزم کےا کہ وہ اپنی عقل و کوششوں سے دنےا کے عظےم سائنسدانوں کی طرح سائنسی دنےا میں مختلف کارنامے پیش کر کے اپنا اور ملک و قوم کا نام روشن کریں گے۔
اس سائنسی اےگزےبےشن کو عوامی اور سماجی حلقوں میں خاصی پذےرائی حاصل ہوئی اور طالبعلموں کی بھی بہت حوصلہ افزائی ہوئی ۔عوامی اور سماجی حلقوں نے اس بات کی امےد ظاہر کی کہ اس طرح کے نصابی اور غےر نصابیاقدامات وقتاًفوقتاً ہونا چاہئے تاکہ طالبعلموں کو اچھی و بہتر معلوماتی سرگرمےاں مےسررہیں اور اور اپنے تعلےم و ہنر میں مزےد نکھار پےدا کرسکیں۔

پروفائل :ڈاکٹر لطیف شیخ

پروفائل : ڈاکٹر لطیف شیخ 
کوشش ومحنت کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی بھی لازم ہے          
تحریر : ولید احمد خان
  کسی بھی انسان کو ترقی ورثے میں نہیں ملتی ترقی حاصل کرنے کے لئے انتھک محنت و جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے کسی بھی شخص کو آج تک ترقی با آسانی حاصل نہیں ہوئی۔ترقی و شہرت حاصل کرنے کے لئے دن رات ایک کرنا پڑتا ہے جب جا کر وہ شخص ترقی و شہرت کی منزل کی جانب بڑھتا ہے اس کی جیتی جاگتی مثال حیدرآباد کے مایہءناز اسکن اسپیشلسٹ ڈاکٹر لطیف شیخ ہیں ۔جنھوں نے متوسط گھرانے میں آنکھ کھو لی لیکن کبھی کوشش و محنت کا دا ©من نہیں چھوڑا 
اور اسی کوشش و محنت کے باعث وہ اس بلند و بالا مقام پر ہیں ۔

ڈاکٹر لطیف شیخ نے اس شعبے میں آنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ  ”بچپن ہی سے مجھے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا
 کیونکہ میں نے ہمیشہ دیکھا تھا کہ جب بھی کوئی بیمار شخص ڈاکٹر کے پاس جاتا تو وہ واپس صحتیاب ہو کر لوٹتا تھا اسی وجہ سے میرے دل میں تمنا جاگی کہ میں  بھی بڑا ہو کر ڈاکٹر بنوں او مریضوں کی بیماریاں دور کروں “۔

ڈاکٹر صاحب25اگست 1960کو ہالا میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام محمد شفیع اور
 ان کا کپڑوں کا کاروبار تھا ۔انھوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اردوپرائمری اسکول ہالا سے حاصل کی اور میٹرک ایم ۔جی گورنمنٹ ہائی اسکول ہالا سے کی اور ایس۔ آئی گورنمنٹ کالج ہالا سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیااس کے بعد لیاقت میڈیکل یونیورسٹی آف میڈیکل ہیلتھ سائنسز ((L.U.M.H.Sمیں 1982 میں داخلہ لیا اس دوران انتہائی مالی مشکلات کا شکار ہونے کے باوجود بھی انھوں نے کبھی بھی اپنی مالی پریشانیوں کو حصول تعلیم میں رکاوٹ بننے نہیں دیا اور ٹیوشن پڑہا کر اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کیا۔1985 میں دوران تعلیم شادی ہوگئی جس کے باعث حصول تعلیم میں کافی مشکلات در پیش ہوئیںپر ان کی اہلیہ نے ان کی بہت حوصلہ افزائی کی اور حصول تعلیم میں حائل نہیں ہوئی۔ انھوں نے 1987میں اپنی MBBS کی ڈگری حاصل کی۔
1990میں حیدرآباد منتقل ہوئے ا ور اپنا زاتی کلینک حیدرآباد کے شہر سرفراز کالونی میں قائم کیا جس میں اوسط درجے کے مریضوں کو خصوصی رعایتیں دی گئیں ۔ڈاکٹر لطیف شیخ1سالہ اسکن پوسٹ گریجویشن کے لئے آسٹریا گئے اور1996میں واپس آئے دوران پریکٹس ڈاکٹر فریدالدین نے بہت راہنمائی کی ڈاکٹر صاحب اپنے تجربے کو مزید وسیع کرنے کے لئے جرمنی ،پیرس،ہالینڈ کے علاوہ دوسرے مملک میں بھی گئے۔ ہالا ، ٹنڈوآدم، شہداد پور، ٹنڈوجام،اور حیدرآباد میں ڈاکٹر صاحب نے متعدد بار انفرادی طبی کیمپ لگائے اس کے علاوہ مختلف این۔جی۔اوز اور میڈیکل کیمپسز کے بھی طبی کیمپوں میں بھی اپنی خدمات پیش کیں ۔ڈاکٹر صاحب اس وقت حیدرآباد شہر کے مشہور ہسپتالوں میں اپنی کدمات انجام دے رہے ہےں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ متوسط طبقے کےلئے بھی بہت سے اقدامات کرتے ہیں ڈاکٹر لطیف شیخ ایک اچھے اخلاق اور شہرت کے حامل ہیں کیونکہ انہوں نے ہمیشہ کوشش و محنت کو اولیں ترجیح دی ہے اور وہ اس کی اہمیت کو بخوبی جانتے ہیں کہ ترقی حاصل کرنے کے لئے کوشش و محنت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ پر بھروسہ کرنا لازم ہے تاکہ ترقی کی راہ میں آنے والی تمام مشکلات کو با آسانی حل کیا جا سکے۔
تحریر : ولید احمد خان Issue:09
رول نمبر:91