شاہی بازار
ہر علاقے کی اپنی تہذیب ،ثقافت،رہن،سہن اورطز تعمیر ہوتی ہے۔اورانہی کے ملاپ وہم آہنگی سے شہر وجود میں آتے ہیں اہل دانش کہتے ہیں جس طرح ہر علاقے کی ثقافت جدا ہوتی ہے اسی طرح ہر شہر کی بہی پہچان الگ ہوتی ہے ۔
حیدرآباد مہران کادل ہے اور اس گنجان آباد والے علاقے کادل شاہی بازار ہے۔اس بازار کی یوں تو بہت سی خصوصیات ہیں مگرپہلے اس بازار کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں شاہی بازار قلعہ حیدرآباد کے سامنے سے شروع ہوتا ہے اور سینٹرل جیل پر اسکا اختتام ہوتا ہے شاہی بازارکے دونوں اطراف پورا حیدرآباد واقع ہے۔یہ بازار قلعے کے سامنے سے شروع ہوتا ہے یہ بازار ایک بلکل سیدھی سڑک کی طرح ہے اسکے دونوں اطراف دوکانیں ہیں یہ بازار کلہوڑوں اور تالپوروں نے بنایا تھا مگر ڈھائی سو سال گزرنے کے بعد بھی یہ بازار قائم ہے۔
شاہی بازار کی تاریخ:۔
۱۷۶۸ء میں جب (غلام شاہ کلہوڑو)نے حیدآباد کو آباد کیا عام لوگوں کو قلعے کے باہر آباد کیا اور خود قرابت داروں،فوجی جرنیلوں ،اور اشرافیہ کے ساتھ قلعے میں رہنے لگے اور باہر انہوں نے پیشوں کے لحاظ سے بستیاں آباد کیں اور (خدا آباد) جو کہ کلھوڑوں کا دارلخلافہ تھا وہاں سے ہنر مندمزدور اور دوسرے لوگوں کو یہاں لاکر آباد کیا یہ شہر کلہوڑوں کے دور سے پہلے سرف قلعہ حیدرآباد تک محدود تھا اور اس وقت اسکا نام (نیرون کوٹ) تھا۔
تالپوروں نے جب ۱۷۸۳ء میں (ہالانی) کی جنگ میں کلہوڑوں کو شکست دے کر قلعہ کو فتح کیا تو(میر فتح علی خان تالپور)نے قلعے کے دروازے کے بلکل سامنے شاہی رستوں پر تالپور بازار بنوایا جو کہ شاہی بازار کے نام سے اب تک جانا جاتا ہے ۔شاہی بازاربلکل سیدھا اور سائے دار بازار تھاایسے بازار کو انگریزی میں ا(آرکیڈ) کہتے ہیں اسکے دونوں اطراف آبادییاں وجود میں آئیں بازار کے مشرق میں زیادہ تر مسلم آبادیاں تھیں اور مغرب میں ہندو عامل،بھائی بند بڑی تعداد میں آباد تھے ،غلام شاہ کلہوڑو نے حیدرآباد کو آباد کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا کہ قلعہ کے صدر دروازے کے سامنے محلے آباد کیے جائیں بعد میں میران تالپور نے ایک لمبے بازار کا اضافہ کیا جو بعد میں شاہی بازار کہلایا اور تقریباَایک میل لمبا ہے۔
شاہی بازار:
بازار وہ جگہ ہوتی ہیں جہاں انسان کو ضرورت کی ہر اشیاء بہ آسانی ملتی ہے،کارخانوں ،فیکڑیوں اور دوسرے علاقوں میں تیار ہونے والا سامان بازاروں میں لایا جاتاہے جہاں سے لوگ انہیں خرید کر اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں۔
شاہی بازار بھی ایک ایسا ہی بازار ہے جہاں ایک ہی بازار میںآپکو دنیاکی تمام چیزیں میسر ملیں گیں یہ بازار ایشیاء کا سب سے بڑا بازار ہے حیدرآباد کا شاہی بازار سب سے پرانا بازار ہے بلکہ اگر یوں کہیں کہ حیدرآباد بعد میں وجود میں آیا تو غلط نہیں ہوگا۔
اس بازارمیں (۲۵۰۰) کے لگ بھگ دوکانیں ہیں جب اس بازارر میں داخل ہونگے تو سب سے پہلے حاجی ربڑی وا لے کی دوکان آتی ہے جو کہ تقسیم کہ بعد کی سب سے پرانی دوکان ہے پاکستان کی تقسیم سے پہلے بھی یہاںیہ بازار اسی حالت میں تھا بس فرق اتنا پڑا کہ پہلے ان دوکانوں کے مالک ہندو تاجر تھے اور اب مسلمان ہیں ۔جب حاجی ربڑی سے تھوڑا آگے چلیں گے تو سنار بازاریا صرافہ بازار شروع ہوجائے گا جہاں پر سونے کی تجارت ہوتی ہے اس بازار میں تقریباَ(۲۵۰)دوکانیں ہیں اس سے بڑا سونار بازار حیدرآباد میں کہیں اور واقع نہیں ہے.سونار بازار سے آگے چلیں تو مختلف اشیاء کی دوکانیں آپکو نظر آئیں گیں۔اس بازار میں آپکو ہوزی کاسامان ،پیپر ڈیکوریشن،گھڑیاں،جوتے،چپل،شیشے،کپڑا،بتاشے،سندھی ٹوپی،رومال،دھاگے،گرم بستر غرضکہ ہر چیز ایک ہی بازار میں مہیا ملیں گیں۔
بتاشہ گلی:۔
یہ گلی کھنبانی گھٹی ریشم گلی کہ سامنے ہے اس گلی میں بتاشے،ریوڑیاں،گزک اوردوسرا کھانے کا سامان ملتا ہے اسی وجہ سے اسے بتاشہ گلی کہتے ہیں۔
مکھ کی کھٹی یامکتی گلی:۔
یہ گلی فقیر کے پڑ اور سرور قبی لین کے درمیان واقع ہے یہاں کسی زمانے میں مکھی گوبندرام کے آباواجداد رہا کرتے تھے اسلئے اسکا نام مکھین کی گھٹی پڑا لوگ کہتے ہیں کہ دیوان شوتی رام جو کہ ہندو پنچائیت کا مکھ تھا اس گلی میں رہتا تھا اسی وجہ سے اسکا نام مکھ کی گھٹی پڑا ۔اب اس گلی کا نام مکتی گلی ہے اور اب اس گلی میں بچوں کے کہلونے ملتے ہیں یہاں پر کھلونے ہول سیل کے حساب سے ملتے ہیں اور دوسرے علاقوں کے دوکاندار یہاں سے کھلونے خریدتے ہیں ۔
یتیم شاہ گھٹی:۔
یہ گلی آگے جاکرجمن شاہ کے پڑ کیطرف نکلتی ہے اور اس گلی میں یتیم شاہ کا مزار بھی ہے۔
آڈوانی گھٹی:۔
آڈوانی گھٹی یہ گھٹی چھوٹی گھٹی سے شروع ہو کر شاہی بازار میں ختم ہوتی ہے اس گلی میں دوائیوں کی دوکانیں ہیں انڈیا کے سابق وزیراعظم(ایل کے ایڈوانی)بھی اس گلی میں رہا کرتے تھے
چھوڈکی گھٹی یاچھوٹی گھٹی:۔
یہ گلی جو کہ اب چھوٹی گھٹی کے نام سے مشہور ہے کبھی چھوڈ(چھال)اور چمڑے کے کاروبار کیوجہ سے چھوڈکی گھٹی کہلاتی تھی اسلئے کہ سندھی میں پیڑ کی چھال کو چھوڈکہتے ہیں جو چمڑا رنگنے کے کام آتی ہے چھوڈ سے پہلے اسکا نام سمی چاڑی تھا۔
شوداسانی گھٹی:۔
یہ گلی شاہی بازار کے بائیں جانب آخری گلی ہے جو آگے جا کے تلک چاڑی پر نکلتی ہے اداکار گوپ کا تعلق اسی گلی سے تھا گوپ کا پورا نام ہری گوپ شوداسانی تھا
معاشی حلات:۔
معاشرے کی ترقی کی بنیاد اسکے معاشی حلات پر منحصر ہوتی ہے بلاشبہ شاہی بازارسب سے پرانابازار ہے اور اس بازار کی رونق پورے ہند سندھ میں ہے شاہی بازار پورے حیدرآباد بلکہ پورے اندرونے سندھ کا معاشی حب ہوا کرتا تھا مگر اب حالات یکسر بدل چکے ہیں مقامی دوکاندار وں کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کے معاشی حالات بہتر ہونے کہ بجائے پستی کیطرف جارہے ہیں۔
انجمن شاہی بازارکے جنرل سیکریڑی(عباس چندریگر)کے مطابق کچھ سالوں پہلے تک شاہی بازارصبح ۹ بجے کھلا کرتا تھا اور صبح سویرے اندورون سندھ کے لوگ یہاں سے خریداری کرتے تھے اندورون سندھ کے لوگ یہاں سے اپنا مال خریدکر ٹرانسپورٹ پر بک کرواتے تھے اور یہ سلسلہ دوپہر تک چلتا تھا دور دراز کے وہ لوگ جنکی اپنے علاقوں میں دوکانیں تھیں وہ اپنی دوکانوں کیلئے مال لیا کرتے تھے اور دوپہر کے بعد شہری لوگ خریداری کیلئے آیا کرتے تھے اور رات ۹ بجے تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا ۔
انجمن کے صدر (اقبال بھولو)کے مطابق پہلے اس بازارمیں اتنا کام تھا کہ سارا دن بیٹھنے کی فرست نہیں ملتی تھی۔
بعض دوسرے دوکانداروں کے مطابق اب سارا دن گاہکوں کی راہ تکتے گزر جاتی ہے اور ہم یوں ہی بیٹھ کرچلے جاتے ہیں دوکانداروں کا مزید کہنا تھاکہ اب دوکانداروں کا کرایہ نکالنا اور خرچ نکالنا بھی مشکل ہو جاتا ہے حلانکہ شاہی بازار میں آج بھی دوسرے علاقوں کی مارکیٹوں کے مقابلہ سامان سستا ملتا ہے
اس بازار میں دوکانوں کی قطار در قطار یں ہیں اگر کوئی گھڑی کی دوکان ہے تو آمنے سامنے گھڑی والے ہی بیٹھے ہیں اگر کپڑے والے ہیں تو انکا بھی یہی حال ہے ہوزری،چپل، ٹوپی،جوتے۔پیپرڈیکوریشن غرض کہ قطار در قطار ایک ہی آئیٹم کی دوکانیں آپکو نظر آئیں گیں۔
معاشی حالات کی پستی کے سبب:۔
معاشی حالات کی پستی کا سب سے بڑا سبب مہنگائی ہے جس نے لوگوں کی قوت خرید ختم کردی ہے اور شاہی بازار کے علاوہ شہر میں دوسری مارکٹیں بہت بنگئیں ہیں انکی وجہ سے سفید پوش لوگوں نے ان مارکیٹوں کا رخ کرلیا ہے اور شاہی بازار کو بھلا بیٹھے ہیں اب صرف غریب لوگ ہی شاہی بازار کا رخ کرتے ہیں اگر اندرون سندھ کی بات کیجائے تو وہاں پر مقامی مارکٹیں تعمیر ہو گئی ہیں اور وہ لوگ اب حیدرآباد کے شاہی بازارکا رخ کم کرتے ہیں مقامی دوکانداروں کے مطابق اندورون سندھ میں اتنی بڑی مارکٹیں اور تاجر بیٹھے ہیں جو براہ راست کمپینوں اور کارخانوں سے مال اٹھالیتے ہیں جس کے سبب اندورن کا گاہک کم ہوگیا ہے گاہکوں کی کمی کی ایک وجہ موبائل فون بھی ہے اب لوگ فقظ چند منت کی گفتگو کر کے اپنا مال بک کرالیتے ہیں آنے کی بھی زحمت نہیں ہوتی اور بڑھتا ہوا رش بھی ایک وجہ ہے کہ لوگ یہاں کا رخ کرنے سے کتراتے ہیں ۔شاہی بازارمیں چلنا پھرنا بہت مشکل کام ہے شاہی بازارجتنا طویل ہے اس میں اتنی ہی گلیاں ہیں ان سینکڑوں گلیوں میں ہزاروں مکانات ہیں اور ان مکانات میں لاکھوں لوگ رہتے ہیں جنکی گزر گاہ یہ شاہی بازار ہی ہے ان تمام تر وجوہات کی وجہ سے یہاں کے معاشی حالات بہت متاثر ہوئے ہیںیہ تمام وجوہات مل کر شاہی بازار میں گاہکوں کا راستہ روکتے ہیں جسکا براہ راست نقصان دوکانداروں کو ہوتا ہے یہاں کتنے ہی دوکاندار ایسے ہیں جو تقسیم کے بعد سے یہاں بیٹھے ہیں مگر انکو اپنا ماضی روشن نظر آتا تھا جبکہ مستقبل انہیں تاریک نظر آتا ہے۔
شاہی بازار کے مسائل:۔
شاہی بازار کے ۳ بڑے مسلئے ہیں؛
۱)صفائی۔صفائی ستھرائی کا مسلۂ بہت اہم ہے کسی زامانے میں شاہی بازارآئینہ کی طرحچمکتا تھا یہاں پر باقاعدہ جمادارآیا کرتے تھے اورصاف صفائی ہوا کرتی تھی مگر آج یہ عالم ہے کہ مٹی تلے دبے بازار کا فرش نظر نہیں آتااور ہر چند قدم بعد آپکوکچرے کا ڈھیر نظر آئے گاجسکی وجہ سے دوکاندار اور گاہک دونوں ہی پریشان ہیں۔انکی حکومت سے درخواست ہے کہ صفائی کا کام کرا کر اس بازار کی رونقیں واپس لوٹائی جائیں۔
۲)تجاوزات۔اس بازار کے درمیان کا فاصلہ تقریباَکوئی (۱۵ )فٹ ہے جو کہ سمٹ کر (۷) فٹ رہ گیا ہے اور یہ بھی کہ ایک بڑی وجہ ہے رش کی ۔دوکانداروں نے ایک دوسرے کی دیکھم دیکھ ۲ سے ۳ فٹ جگہ روک رکھی ہے اور پھر دوکانوں کے آگے لوگ اپنی موٹر سائیکل پارک کر ک چلے جاتے ہیں جسکی وجہ سے پیدل چلنے والوں کو خاصی پریشانی ہوتی ہے حکومت کو چاہیے کہ موٹر سائیکلوں اور دوسری گاڑیوں پر پابندی لگائے اور تجاوزات بھی ختم کرائے اور لوگ بس پیدل ہی اس بازار میں خریداری کریں ۔
۳)امن و امان کی صورت حال ۔امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے بھی اس بازار کی رونق میں کافی کمی واقع ہوئی ہے دوکاندارصبج جلدی دوکان نہیں کھولتے بلکہ ایک دوسرے کو مشورہ دیتے ہیں کہ صبح دوکان جلدی نہ کھولو اگر کوئی دوکاندار صبح جلدی دوکان کھول لیتا ہے تو اکژوہ لوٹ لیا جاتا ہے صرافہ بازار میں تو دن دھاڑے بھی چھینا جھپٹی ہوتی رہتی ہے اسی وجہ سے تمام دوکانداروں نے اپنے ذاتی محافظ رکھے ہوئے ہیں۔
یہ تمام وجوہات اس بازارکی رونقوں کو ماند کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں حکومت کو ٹھوس اقدامات کر کے اس بازار کی رونقوں کو بحال کرنا چاہیے کیونکہ یہ بازار ہمارا ثاثہ ہیں۔