Pages

Thursday, 17 September 2015

شاہی بازار


شاہی بازار
ہر علاقے کی اپنی تہذیب ،ثقافت،رہن،سہن اورطز تعمیر ہوتی ہے۔اورانہی کے ملاپ وہم آہنگی سے شہر وجود میں آتے ہیں اہل دانش کہتے ہیں جس طرح ہر علاقے کی ثقافت جدا ہوتی ہے اسی طرح ہر شہر کی بہی پہچان الگ ہوتی ہے ۔
حیدرآباد مہران کادل ہے اور اس گنجان آباد والے علاقے کادل شاہی بازار ہے۔اس بازار کی یوں تو بہت سی خصوصیات ہیں مگرپہلے اس بازار کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں شاہی بازار قلعہ حیدرآباد کے سامنے سے شروع ہوتا ہے اور سینٹرل جیل پر اسکا اختتام ہوتا ہے شاہی بازارکے دونوں اطراف پورا حیدرآباد واقع ہے۔یہ بازار قلعے کے سامنے سے شروع ہوتا ہے یہ بازار ایک بلکل سیدھی سڑک کی طرح ہے اسکے دونوں اطراف دوکانیں ہیں یہ بازار کلہوڑوں اور تالپوروں نے بنایا تھا مگر ڈھائی سو سال گزرنے کے بعد بھی یہ بازار قائم ہے۔
شاہی بازار کی تاریخ:۔
۱۷۶۸ء ؁میں جب (غلام شاہ کلہوڑو)نے حیدآباد کو آباد کیا عام لوگوں کو قلعے کے باہر آباد کیا اور خود قرابت داروں،فوجی جرنیلوں ،اور اشرافیہ کے ساتھ قلعے میں رہنے لگے اور باہر انہوں نے پیشوں کے لحاظ سے بستیاں آباد کیں اور (خدا آباد) جو کہ کلھوڑوں کا دارلخلافہ تھا وہاں سے ہنر مندمزدور اور دوسرے لوگوں کو یہاں لاکر آباد کیا یہ شہر کلہوڑوں کے دور سے پہلے سرف قلعہ حیدرآباد تک محدود تھا اور اس وقت اسکا نام (نیرون کوٹ) تھا۔
تالپوروں نے جب ۱۷۸۳ء ؁میں (ہالانی) کی جنگ میں کلہوڑوں کو شکست دے کر قلعہ کو فتح کیا تو(میر فتح علی خان تالپور)نے قلعے کے دروازے کے بلکل سامنے شاہی رستوں پر تالپور بازار بنوایا جو کہ شاہی بازار کے نام سے اب تک جانا جاتا ہے ۔شاہی بازاربلکل سیدھا اور سائے دار بازار تھاایسے بازار کو انگریزی میں ا(آرکیڈ) کہتے ہیں اسکے دونوں اطراف آبادییاں وجود میں آئیں بازار کے مشرق میں زیادہ تر مسلم آبادیاں تھیں اور مغرب میں ہندو عامل،بھائی بند بڑی تعداد میں آباد تھے ،غلام شاہ کلہوڑو نے حیدرآباد کو آباد کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا کہ قلعہ کے صدر دروازے کے سامنے محلے آباد کیے جائیں بعد میں میران تالپور نے ایک لمبے بازار کا اضافہ کیا جو بعد میں شاہی بازار کہلایا اور تقریباَایک میل لمبا ہے۔
شاہی بازار:
بازار وہ جگہ ہوتی ہیں جہاں انسان کو ضرورت کی ہر اشیاء بہ آسانی ملتی ہے،کارخانوں ،فیکڑیوں اور دوسرے علاقوں میں تیار ہونے والا سامان بازاروں میں لایا جاتاہے جہاں سے لوگ انہیں خرید کر اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں۔
شاہی بازار بھی ایک ایسا ہی بازار ہے جہاں ایک ہی بازار میںآپکو دنیاکی تمام چیزیں میسر ملیں گیں یہ بازار ایشیاء کا سب سے بڑا بازار ہے حیدرآباد کا شاہی بازار سب سے پرانا بازار ہے بلکہ اگر یوں کہیں کہ حیدرآباد بعد میں وجود میں آیا تو غلط نہیں ہوگا۔
اس بازارمیں (۲۵۰۰) کے لگ بھگ دوکانیں ہیں جب اس بازارر میں داخل ہونگے تو سب سے پہلے حاجی ربڑی وا لے کی دوکان آتی ہے جو کہ تقسیم کہ بعد کی سب سے پرانی دوکان ہے پاکستان کی تقسیم سے پہلے بھی یہاںیہ بازار اسی حالت میں تھا بس فرق اتنا پڑا کہ پہلے ان دوکانوں کے مالک ہندو تاجر تھے اور اب مسلمان ہیں ۔جب حاجی ربڑی سے تھوڑا آگے چلیں گے تو سنار بازاریا صرافہ بازار شروع ہوجائے گا جہاں پر سونے کی تجارت ہوتی ہے اس بازار میں تقریباَ(۲۵۰)دوکانیں ہیں اس سے بڑا سونار بازار حیدرآباد میں کہیں اور واقع نہیں ہے.سونار بازار سے آگے چلیں تو مختلف اشیاء کی دوکانیں آپکو نظر آئیں گیں۔اس بازار میں آپکو ہوزی کاسامان ،پیپر ڈیکوریشن،گھڑیاں،جوتے،چپل،شیشے،کپڑا،بتاشے،سندھی ٹوپی،رومال،دھاگے،گرم بستر غرضکہ ہر چیز ایک ہی بازار میں مہیا ملیں گیں۔
بتاشہ گلی:۔
یہ گلی کھنبانی گھٹی ریشم گلی کہ سامنے ہے اس گلی میں بتاشے،ریوڑیاں،گزک اوردوسرا کھانے کا سامان ملتا ہے اسی وجہ سے اسے بتاشہ گلی کہتے ہیں۔
مکھ کی کھٹی یامکتی گلی:۔
یہ گلی فقیر کے پڑ اور سرور قبی لین کے درمیان واقع ہے یہاں کسی زمانے میں مکھی گوبندرام کے آباواجداد رہا کرتے تھے اسلئے اسکا نام مکھین کی گھٹی پڑا لوگ کہتے ہیں کہ دیوان شوتی رام جو کہ ہندو پنچائیت کا مکھ تھا اس گلی میں رہتا تھا اسی وجہ سے اسکا نام مکھ کی گھٹی پڑا ۔اب اس گلی کا نام مکتی گلی ہے اور اب اس گلی میں بچوں کے کہلونے ملتے ہیں یہاں پر کھلونے ہول سیل کے حساب سے ملتے ہیں اور دوسرے علاقوں کے دوکاندار یہاں سے کھلونے خریدتے ہیں ۔
یتیم شاہ گھٹی:۔
یہ گلی آگے جاکرجمن شاہ کے پڑ کیطرف نکلتی ہے اور اس گلی میں یتیم شاہ کا مزار بھی ہے۔
آڈوانی گھٹی:۔
آڈوانی گھٹی یہ گھٹی چھوٹی گھٹی سے شروع ہو کر شاہی بازار میں ختم ہوتی ہے اس گلی میں دوائیوں کی دوکانیں ہیں انڈیا کے سابق وزیراعظم(ایل کے ایڈوانی)بھی اس گلی میں رہا کرتے تھے
چھوڈکی گھٹی یاچھوٹی گھٹی:۔
یہ گلی جو کہ اب چھوٹی گھٹی کے نام سے مشہور ہے کبھی چھوڈ(چھال)اور چمڑے کے کاروبار کیوجہ سے چھوڈکی گھٹی کہلاتی تھی اسلئے کہ سندھی میں پیڑ کی چھال کو چھوڈکہتے ہیں جو چمڑا رنگنے کے کام آتی ہے چھوڈ سے پہلے اسکا نام سمی چاڑی تھا۔
شوداسانی گھٹی:۔
یہ گلی شاہی بازار کے بائیں جانب آخری گلی ہے جو آگے جا کے تلک چاڑی پر نکلتی ہے اداکار گوپ کا تعلق اسی گلی سے تھا گوپ کا پورا نام ہری گوپ شوداسانی تھا
معاشی حلات:۔
معاشرے کی ترقی کی بنیاد اسکے معاشی حلات پر منحصر ہوتی ہے بلاشبہ شاہی بازارسب سے پرانابازار ہے اور اس بازار کی رونق پورے ہند سندھ میں ہے شاہی بازار پورے حیدرآباد بلکہ پورے اندرونے سندھ کا معاشی حب ہوا کرتا تھا مگر اب حالات یکسر بدل چکے ہیں مقامی دوکاندار وں کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کے معاشی حالات بہتر ہونے کہ بجائے پستی کیطرف جارہے ہیں۔
انجمن شاہی بازارکے جنرل سیکریڑی(عباس چندریگر)کے مطابق کچھ سالوں پہلے تک شاہی بازارصبح ۹ بجے کھلا کرتا تھا اور صبح سویرے اندورون سندھ کے لوگ یہاں سے خریداری کرتے تھے اندورون سندھ کے لوگ یہاں سے اپنا مال خریدکر ٹرانسپورٹ پر بک کرواتے تھے اور یہ سلسلہ دوپہر تک چلتا تھا دور دراز کے وہ لوگ جنکی اپنے علاقوں میں دوکانیں تھیں وہ اپنی دوکانوں کیلئے مال لیا کرتے تھے اور دوپہر کے بعد شہری لوگ خریداری کیلئے آیا کرتے تھے اور رات ۹ بجے تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا ۔
انجمن کے صدر (اقبال بھولو)کے مطابق پہلے اس بازارمیں اتنا کام تھا کہ سارا دن بیٹھنے کی فرست نہیں ملتی تھی۔
بعض دوسرے دوکانداروں کے مطابق اب سارا دن گاہکوں کی راہ تکتے گزر جاتی ہے اور ہم یوں ہی بیٹھ کرچلے جاتے ہیں دوکانداروں کا مزید کہنا تھاکہ اب دوکانداروں کا کرایہ نکالنا اور خرچ نکالنا بھی مشکل ہو جاتا ہے حلانکہ شاہی بازار میں آج بھی دوسرے علاقوں کی مارکیٹوں کے مقابلہ سامان سستا ملتا ہے
اس بازار میں دوکانوں کی قطار در قطار یں ہیں اگر کوئی گھڑی کی دوکان ہے تو آمنے سامنے گھڑی والے ہی بیٹھے ہیں اگر کپڑے والے ہیں تو انکا بھی یہی حال ہے ہوزری،چپل، ٹوپی،جوتے۔پیپرڈیکوریشن غرض کہ قطار در قطار ایک ہی آئیٹم کی دوکانیں آپکو نظر آئیں گیں۔
معاشی حالات کی پستی کے سبب:۔
معاشی حالات کی پستی کا سب سے بڑا سبب مہنگائی ہے جس نے لوگوں کی قوت خرید ختم کردی ہے اور شاہی بازار کے علاوہ شہر میں دوسری مارکٹیں بہت بنگئیں ہیں انکی وجہ سے سفید پوش لوگوں نے ان مارکیٹوں کا رخ کرلیا ہے اور شاہی بازار کو بھلا بیٹھے ہیں اب صرف غریب لوگ ہی شاہی بازار کا رخ کرتے ہیں اگر اندرون سندھ کی بات کیجائے تو وہاں پر مقامی مارکٹیں تعمیر ہو گئی ہیں اور وہ لوگ اب حیدرآباد کے شاہی بازارکا رخ کم کرتے ہیں مقامی دوکانداروں کے مطابق اندورون سندھ میں اتنی بڑی مارکٹیں اور تاجر بیٹھے ہیں جو براہ راست کمپینوں اور کارخانوں سے مال اٹھالیتے ہیں جس کے سبب اندورن کا گاہک کم ہوگیا ہے گاہکوں کی کمی کی ایک وجہ موبائل فون بھی ہے اب لوگ فقظ چند منت کی گفتگو کر کے اپنا مال بک کرالیتے ہیں آنے کی بھی زحمت نہیں ہوتی اور بڑھتا ہوا رش بھی ایک وجہ ہے کہ لوگ یہاں کا رخ کرنے سے کتراتے ہیں ۔شاہی بازارمیں چلنا پھرنا بہت مشکل کام ہے شاہی بازارجتنا طویل ہے اس میں اتنی ہی گلیاں ہیں ان سینکڑوں گلیوں میں ہزاروں مکانات ہیں اور ان مکانات میں لاکھوں لوگ رہتے ہیں جنکی گزر گاہ یہ شاہی بازار ہی ہے ان تمام تر وجوہات کی وجہ سے یہاں کے معاشی حالات بہت متاثر ہوئے ہیںیہ تمام وجوہات مل کر شاہی بازار میں گاہکوں کا راستہ روکتے ہیں جسکا براہ راست نقصان دوکانداروں کو ہوتا ہے یہاں کتنے ہی دوکاندار ایسے ہیں جو تقسیم کے بعد سے یہاں بیٹھے ہیں مگر انکو اپنا ماضی روشن نظر آتا تھا جبکہ مستقبل انہیں تاریک نظر آتا ہے۔
شاہی بازار کے مسائل:۔
شاہی بازار کے ۳ بڑے مسلئے ہیں؛
۱)صفائی۔صفائی ستھرائی کا مسلۂ بہت اہم ہے کسی زامانے میں شاہی بازارآئینہ کی طرحچمکتا تھا یہاں پر باقاعدہ جمادارآیا کرتے تھے اورصاف صفائی ہوا کرتی تھی مگر آج یہ عالم ہے کہ مٹی تلے دبے بازار کا فرش نظر نہیں آتااور ہر چند قدم بعد آپکوکچرے کا ڈھیر نظر آئے گاجسکی وجہ سے دوکاندار اور گاہک دونوں ہی پریشان ہیں۔انکی حکومت سے درخواست ہے کہ صفائی کا کام کرا کر اس بازار کی رونقیں واپس لوٹائی جائیں۔
۲)تجاوزات۔اس بازار کے درمیان کا فاصلہ تقریباَکوئی (۱۵ )فٹ ہے جو کہ سمٹ کر (۷) فٹ رہ گیا ہے اور یہ بھی کہ ایک بڑی وجہ ہے رش کی ۔دوکانداروں نے ایک دوسرے کی دیکھم دیکھ ۲ سے ۳ فٹ جگہ روک رکھی ہے اور پھر دوکانوں کے آگے لوگ اپنی موٹر سائیکل پارک کر ک چلے جاتے ہیں جسکی وجہ سے پیدل چلنے والوں کو خاصی پریشانی ہوتی ہے حکومت کو چاہیے کہ موٹر سائیکلوں اور دوسری گاڑیوں پر پابندی لگائے اور تجاوزات بھی ختم کرائے اور لوگ بس پیدل ہی اس بازار میں خریداری کریں ۔
۳)امن و امان کی صورت حال ۔امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے بھی اس بازار کی رونق میں کافی کمی واقع ہوئی ہے دوکاندارصبج جلدی دوکان نہیں کھولتے بلکہ ایک دوسرے کو مشورہ دیتے ہیں کہ صبح دوکان جلدی نہ کھولو اگر کوئی دوکاندار صبح جلدی دوکان کھول لیتا ہے تو اکژوہ لوٹ لیا جاتا ہے صرافہ بازار میں تو دن دھاڑے بھی چھینا جھپٹی ہوتی رہتی ہے اسی وجہ سے تمام دوکانداروں نے اپنے ذاتی محافظ رکھے ہوئے ہیں۔
یہ تمام وجوہات اس بازارکی رونقوں کو ماند کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں حکومت کو ٹھوس اقدامات کر کے اس بازار کی رونقوں کو بحال کرنا چاہیے کیونکہ یہ بازار ہمارا ثاثہ ہیں۔

حیدرآباد ی مٹھائیاں انیقہ فاروق


حیدرآباد ی مٹھائیاں انیقہ فاروق
لب مہران کے مختلف شہروں کی اپنی روایات ہیں۔یہاں کی تہذیب و ثقافت اور سوغاتیں بھی ملک وبیرون ممالک بڑی شہرت کی حامل ہیں جس طرح ہالا کاشی کے کام اور نہایت ہی اعلیٰ قسم کی دستکاری کی وجہ سے مشہور ہے تو بالکل اسی طرح خوشگوار اور دلفریب شاموں سے معروف شہر حیدرآباد اپنی خوش ذائقہ،لذیز اور منفرد مٹھائیوں اورحلوہ جات کی وجہ سے پورے علاقے میں ایک خاص اہمیت کاحامل ہے ۔
حافظ سوئیٹس:اسی شہر کی حافظ سوئیٹس اپنی کوش ذائقہ ربڑی،گلاب جامن اور ماوے کی وجہ سے سندھ بھر میں مشہور ہے۔یہاں کی ربڑی بڑی خوش ذائقہ اور لذیذ ہوتی ہے اور حیدرآباد کے رہائشی اپنے مہمانوں و دوست احباب کو بطور تحفہ بھیجتے رہتے ہیں اور اکثر بے تکلف دوست و احباب تو اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے باقاعدہ فرمائش کرکے ربڑی منگواتے ہیں اور یہ فرمائشیں نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک سے بھی آتی رہتی ہیں۔
حافظ سوئیٹس کو ربڑی بنات ہوئے تقریباً چالیس سال ہوگئے ہیں اور دکان کے مالک محمد عارف نے بتایا کہ یہ کام ان کے دادا جان نے شروع کیا تھا اور ربری اور دیگر مٹھائیوں کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ کرنا بالکل آسان ہے کہ یہ دکان انشاء اللہ آئندہ کئی صدیاں اسی طرح عوام الناس کو قدرت کی ان بے مثال نعمتوں کو جوہری کی طرح قدیم اور جدید امتزاج کے ساتھ نت نیت ذائقوں میں پیش کرتے رہیں گے۔
حافظ سوئیٹس کے ربڑی،گلاب جامن کے علاوہ بھی بڑے مشہور زعفرانی آئٹم ہیں جن میں کاجو،برفی،زعفرانی کٹلس،اور انڈین مٹھائیں بھی اپنے ذائقے اور لذت کی وجہ سے خاص مقام رکھتی ہیں۔یہ مٹھائیاں دیسی گھی سے تیار کی جاتی ہیں۔اپنی ربڑی اور خاص مٹھائیوں کی وجہ سے حیدرآباد اور ملک بھر سے دلچسپی اور مانگ کی وجہ سے حیدرآباد صدر،پنڈی اور اسلام آباد میں بھی ایک ایک برانچ کھول دی ہے جس کی وجہ سے عوام باآسانی اپنے علاقوں میں اپنے من پسند ذائقے حاصل کرسکتے ہیں۔حافظ سوئیٹس نے اپنے کرم فرماؤں کو مٹھاس کے ساتھ اپنے لذیذ سموسوں اور صبح کے ناشتے سے بھی نمکین ذائقہ فراہم کیا ہے۔
سوغات شیریں: اس کے علاوہ اگر ہم حیدرآباد میں مٹھائی کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو یہ بڑی ناانصافی ہوگی کہ اگر ہم سوغات شیریں سوئیٹ شاپ کا ذکر نہ کریں کیونکہ یہ دکان اپنے نام کے مطابق مختلف حلوہ جات کی سوغات تیار کرنے میں اپنی مثال آپ ہے ان کا ذائقہ دل موہ لینے والا ہے۔سوغات شیریں اس کے علاوہ مختلف انواع و اقسام کی لذیذ وخوش ذائقہ مٹھائیاں بنا کر عوام الناس کولذیذ اور صحت بخش ماحول فراہم کررہے ہیں۔
موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی سوغات شیریں کی مشہور سوغاتیں لوکی کا حلوہ،پستہ حلوہ،گاجر کا حلوہ اور زعفرانی حلوے کی مانگ میں بہت اضافہ ہوجاتا ہے کیونکہ خشک میوہ جات ور دیسی گھی میں تیار کردہ یہ حلوہ جات موسم سرما میں کھانے سے جسم کو حرارت اور تونائی فراہم کرتے ہیں اور عوام بڑے ذوق وشوق سے یہ حلوہ جات اپنے اہل خانہ،رشتہ داروں اور دوست و احباب کو کھلاتے ہیں۔سوغات شیریں کے حلوہ جات اپنے منفرد ذائقے کی وجہ سے ہر طبقہ فکر میں بہت پسند کئے جاتے ہیں اس کے علاوہ عوام الناس اپنی پسند کی کوئی خاص مٹھائی بھی آرڈر دیکر کثیر تعداد میں بنوا سکتے ہیں۔
اپنی سوغات کی بے پناہ مقبولیت کے باعث انتظامیہ سوغات شیریں نے عوام الناس کی آسانی کے لئے راولپنڈی میں بھی ایک برانچ قائم کردی ہے۔
پاک سوئیٹس: حیدرآباد کی مٹھائیوں کی ایک اورپہچان پاک سوئٹ ہاؤس بھی ہے جو کہ مختلف قسم کے تیس آئٹم تیار کرتا ہے جو کہ منفرد اور لذیذ ذائقوں کی وجہ سے بہت مشہور ہیں۔یہ سوئٹ شاپ تقریباً45سال سے عوام الناس کو منفرد ذائقے دار مٹھائیاں پیش کررہا ہے۔
پاک سوئیٹس کی پنجیری،گوندے کے لڈو اور گاجر کا حلوہ بہت ہی عمدہ اور لذیذ ہوتا ہے لوگ شوق سے کھاتے ہیں اور دوست واحباب کو تھٖے کے طور پر دیتے ہیں۔

Wednesday, 16 September 2015

Journalism in Bhan Sayedabad

History of Bhan Sayedabad 

 Shirya Veer

Bhan sayedabad is the oldest town of Sindh which is the located near district dadu and division sehwan shareef. At first it was considered in district dadu, but now it is being considered in district Jamshoro. In starting it was nothing just a simple village where there was no facility for the villagers. But with the passage of time changes take place and gradually it becomes well situated town. 

It was the minister Abdullah shah who worked for the betterment of bhan from 1990. He supported every community to make this village a good place to live luxurious life. He placed a bank, a hospital and also a community center where every problem of this city could be solved. He also gives aid to the Hindus for the temple and did many other works for the progress of this town. Now Mr. Roshan burro is handling all these works and now bhan can be listed in civilized cities of the Sindh. 

History of  press club
A press club is a place from every news can be given or collected . it’s the main center where every channel get the news information. Every area has its own press club by which any news of that city could be given forward. It could be called the basic place orf gathering a news information there are two press clubs in Bhan Sayedabad.  The main is press club Bhan Sayedabad another is National Press club Bhan is the extension of the press club bhan.
Due to some problems this group was made by new repoters. The press club  in bhan Sayedabad was started in 1982. In other the journalisim in bhan Sayedabad was started when this press club was bult in 1982. Its located near the doctor abdul nabi’s center. the pioneer of this press club was (late) Abdul Ghani Memon and the starter was Muhammad Ishaq Memon.

Members / Reporters of the press club from 1982- 1994
Ø Muhammad Ishhaq Memon
Ø Abdul Ghani Memon
Ø Muhammad Usman Channa
Ø Siddiq Memon
Ø Dadan Ali Bhand

News papers from 1982-1994
Ø Ibrat
Ø Sindhu
Ø Jaago
Ø Hilal Pakistan

Mr Siddiq Memon was Handling Sindhu newspaper, Muhammad Usman channa was handling Halal Pakistan, Abdul Ghani Memon was Handling Jaago and Dadan Ali Bhand was handling Ibrat and after him Mr: Muhammad Ishhaq was handling it.

After 1993 from 1994 the age of T.V channels were emerged in Bhan Sayedabad. Now T.V channels are available for watching the whole news story. New reporters were working for it and also the newspaper and old reporters were working for the press club.

News Channels From 1994 to 2014:-
Ø Mehran T.V
Ø Dharti T.V
Ø Ab tak T.V

New reporters from 1994 to 2014
Ø Akram Ali Memon
Ø Adam Mengal

Akram Ali Memon was the reporter of the Mehran T.V and Adam Mengal was the reporter of Dharti T.V and still they are working on it. But there is no particular reporter for the Ab Tak T.V in Bhan Sayedabad.

The national press club bhan Sayedabad was built in 2013. The pioneer was Pardeep Kumar and starter was the Asif Ali memon. The channel of this press club were the part of main press club and also the reporters were working in it from 2006, but from the year of 2013 some of channels and reporters started to working separately from that press club.

T.V Channels of this press Club. From 2006-2014
Ø KTN NEWS
Ø SINDH TV
Ø AWAZ TV
Ø ARY NEWS
Reporters from  2006-2014
Ø Perdeep Kumar
Ø Asif Ali Memon
Ø Abdul Wahid Memon
Ø Khokhar Zulfiqar

Perdeep Kumar is working for the KTN news. Asif Ali Memon is reporter of ARY News and Abdul Wahid Memon Reporter of Sindh TV and Khokhar Zulfiqar is working for AWAZ TV.

Magzines read in Bhan Sayedabad.
Ø Soobh Magzines
Ø Jahan Sunday
Ø Jahan Jag Mag
Ø Jahan Andaz
Ø Aetraf
Ø Sindho Magzine

Newspapers at evening time in bhan Sayedabad.
Ø Sham (daily newspaper)
There is only one newspaper at evening time. Which is read in bhan Sayedabad.

Newspapers in bhan Sayedabad from 1994-2014.
Ø Ibrat ( Daily)
Ø Awami Awaz ( Daily)
Ø Sindhu ( Daily)
Ø Sindh Express ( Daily)
Ø Sukkar ( Daily)
Ø Razani Jeejal ( Daily)
Ø Pak ( Daily)
Ø Sindh ( Daily)
Ø Mehran ( Daily)
Ø Sindh Glob ( Daily)
Ø Halchal ( Daily)
Ø Apeal ( Daily)
Ø Jahan Pakistan ( Daily)
Ø Sobh ( Daily)
Ø Regional Timer (English Daily)
Ø Sham ( Daily)
Ø Kawish ( Daily)
Ø Hilal Pakistan ( Daily)

These news paper, magazine are not published or printed in Bhan Sayedabad.
There is no printing press. These comes from others cities but Pardeep Kumar Intends to Publish a news Paper from Bhan Sayedabad in Future, Named. Bhan Times

Problems and Issues of Bhan Sayedabad Highlighted by Media.
Like every city bhan has also some problem to be solved. Problem like Health, sweeping system, Sewerage, Education, Security and many others. But the main problem of this city is load shading . there is a lot of shortage of light at least there is 15 to 18 hours load shading in summer time and also the responsibility of this is not taking properly by workers. And when any transformer became use less than the take a month to repair it. For this the citizens protest all the time. 
The reporter of this cities always high lights this main issue and try to grab attention of government to this issue. Security is second most importance issue of this town which is high lighted by media. There is a lot of robbery based comredic system. The police is not taking any action against it so the media is working for it to forward it to the government.  



Problems with the Media Persons in Bhan Sayedabad

Bhan Sayedabad is a well mannered city but still there are some problems which media and media persons are facing every time. When there is any serious issue the reporters do not have any facility to reach at the site, they there selves manage it. They have not the facility of Machinery or any technical instruments which can be use at the time of reporting or in the press club to make a good edited report or coverage any issue. There is no printing press, the News papers came from other cities. 

The media persons are not paid properly for their work, they should be paid according to their done job in their field. The media persons are not treated as a important or special person of a media channel. If there is any problem and they cover it, the people and the police do not respect them, they avoid them and also misbehave with them. It’s the problem which is happening in whole Pakistan with the media persons.

The researcher was student of BS-III second semester in 2014
 This research work was done under supervisioon of Sir Sohail Sangi