Pages

Showing posts with label انٹرویو. Show all posts
Showing posts with label انٹرویو. Show all posts

Monday, 23 September 2013

یُمنٰی ریاض۔ انٹرویو

یُمنٰی ریاض۔ بی ایس پارٹ 3۔ رول نمبر: 95
انٹرویو
مس نگہت زیبا نے ضلع سانگھڑ کے شہر شہدادپور سے اپنے ابتدائی ادبی و تعلیمی کیریئر کا آغاز کیا اور شہر کے ادبی حلقوں میں اپنی شناخت کروائی۔کئی رسوالوں و اخبارات میں اب تک آپکی بے شمار تحریریں شائع ہو چکی ہیں۔ اردو کی پروفیسر کی حیثیت سے کئی اسکول و کالجز میں پڑھا چکی ہیں۔ 2003 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ ”دھوپ کے پار“ کے نام سے بھی شائع ہو چکا ہے۔ آپ سندھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے Board of Studies کی رکن بھی ہیں۔ زبیدہ کالج کی پرنسپل و ہاسٹل نگران بھی رہ چکی ہیں۔ آج کل”گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج ہالا“ میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہیں۔
سوال: اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیے۔ گھر کے ماحول نے آپ کی کیسے تربیت کی اور آپ پہ کیا اثر ڈالا؟
جواب:میری تعلیم کی ابتداءمیرے والد صاحب سے ہوئی جو میرے سب سے اچھے استاد ہیں جن پہ مجھے آج تک فخر ہے۔ وہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ سات زبانوں کے ماہر تھے۔ مجھے قرآن شریف بمعہ ترجمے کے انہوںنے ہی پڑھایا۔میں نے شاعری و مضمون نگاری بھی اُن ہی سے سیکھی۔ اس کے علاوہ میں نے بہت چھوٹی عمر سے ہی اخبار پڑھنا اور اشعار کی تشریح کرنا سیکھ لیا تھا۔ اس کے بعد کی اپنی تمام ابتدائی تعلیم شہدادپور سے ہی حاصل کی ۔ بعدمیں بھی مجھے قدم قدم پر مہربان، شفیق اساتذہ کی رہنمائی ملتی رہی جنہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ اسی باعث میں سیلف میڈ ہونے پر یقین نہیں رکھتی ہوں کیونکہ میرے خیال سے رہنمائی کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ میں شروع میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی لیکن والد صاحب کی خواہش تھی کہ میں اردو کی پوفیسر بنوں۔ اس خواہش کو وپورا کرنے کی خاطر میں نے ایم اے اردو کا انتخاب کیا۔ میری تربیت اور تعلیم میں گھر کے اس ادبی ماحول کا ہی ہاتھ ہے اگر مجھے وہ ماحول میسر نہ ہوتا توآج میں شاید اس مقام تک نہ پہنچ پاتی۔ 
سوال: ہالا گرلز کالج کا قیام کب اور کن ضروریات کے تحت عمل میں لایا گیا؟
جواب: انٹیریئر میں کالج ویسے بھی بہت کم ہوتے ہیں اسی لئے ہالا میں بھی گرلز کالج بنانے کی ضرورت پیش آئی کیوں کہ ہالا کی بچیوں کو کوئی بھی گرلز کالج بہت دور پڑتا تھا۔ مٹیاری سمیت اُس وقت قریب میں کہیں بھی کوئی گرلز کالج نہیں تھا۔ ہالا سے بچیاں سکرنڈ ہی جا سکتی تھیں، شہدادپور جانے کا ان دنوں تصور ہی نہ تھا۔ کچھ لڑکیاں بوائز کالج میں داخلہ تو لے لیتی تھیں لیکن ریگولر کلاسز نہیں لے سکتی تھیں کیوں کہ ہالا کا ماحول ایسا نہیں ہے۔ ان حالات کی بناءپر ہالا میں گرلز کالج بنانے کی ضرورت پیش آئی اور یوں 1986میں گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج ہالا قائم ہوا۔
سوال:بطورگرلز کالج پرنسپل کے کسی پہ کیا فرائض و ذمہ داریاںعائد ہوتی ہیں؟
جواب: کسی بھی ادارے کو چلانے کے لئے ایڈمنسٹریشن کا سینس ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ آپ کا اپنی پیشے سے مخلص ہونا بہت ہی اہمیت رکھتا ہے۔ کالج میں ادبی سرگرمیوں کا انعقاد ہونا چاہئے کہ اس سے بچوں کو آگے آنے کا موقع ملتا ہے۔ ادارہ چاہے اسکول ہو یا کالج اس کو خلوص سے چلانا چاہئے اور اس مین ایسی صحت مند سرگرمیاں ہونی چاہئیں جس سے طالب علموں کو آگے آنے کا موقع ملے۔ اسٹاف کی تکلیفوں کا بھی احساس کرنا چاہئے۔ نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں پہ ضرور توجہ دینی چاہئے۔ صفائی اور پینے کے پانی کا مناسب انتظام ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ یہ سب ذمہ داریاں کسی بھی ادارے کے پرنسپل پر لاگو ہوتی ہیں۔
سوال: آپ مشاعروں میں باقاعدہ حجاب کے ساتھ شریک ہوتی رہی ہیں، وہاں آپ کو سب کی جانب سے کیسا رسپانس ملا؟کیا واقعی حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟
جواب: یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ یہ خود عورت پہ منحصر کرتا ہے کہ وہ خود کو نمایاں کرے یا حجاب کرے۔ بہت سی شاعرات ایسی بھی ہوتی ہیں جو ماڈل بن کر آتی ہیں انکو بھی لوگ سنتے ہیں اور حجاب، اسکارف والیوں کو بھی سنا جاتا ہے۔ میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ لوگ کلام پہ تعریف کرتے ہیں اور بے باکی پر ہوٹنگ کرتے ہیں۔بلکہ مجھے اس کا بہت فائدہ رہا کہ کبھی بھی لوگ مجھ سے ناجائز فری نہیں ہوتے، نہ ہی کبھی مجھ پہ ہوٹنگ کی گئی۔ ابھی بھی میری بے شمار سوشل، ویلفیئر اور ادبی سرگرمیاں ہوتی ہیں اور ہر جگہ میں نقاب و حجاب مین ہی ہوتی ہوں لیکن میں نے اپنا حجاب کبھی بھی نہیں چھوڑا۔ نہ ہی کبھی مجھے اس پہ شرم ےا ہچکچاہٹ محسوس ہوئی اور نہ ہی کسی کے اعتراض کا سامنا کرنا پڑا۔ بلکہ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ اسکی بدولت لوگ آپ کی زیادہ عزت کرتے ہیں۔
سوال:آپ کے خیال سے کیا لڑکیوں کے لئے علیحدہ تعلیمی ادارے ہونا ضروری ہیں؟
جواب: میں سمجھتی ہوں کہ اگر مخلوط تعلیم ہو تو اس میں مقابلے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ ہاںلیکن میٹرک تک تعلیم مخلوط نہیں ہونی چاہئے کہ وہ عمر اور ہوتی ہے۔ اس کے بعد جب بچہ شعور کی عمر میں داخل ہوتا ہے تو مخلوط تعلیم میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے لڑکیوں میں زیادہ اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ انہیں معاشرے میں چلنے کاسلیقہ آتا ہے اور وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ لوگوں میں اٹھ بیٹھ سکتی ہیں۔ لیکن یہ کہ عورت حجاب اور اپنی حدود میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کرے تو نہ تو کوئی اس کا بے جا مذاق اڑائے گا اور نہ ہی ناجائز فری ہونے کی کوشش کرے گا۔ اس کے علاوہ تمام تعلیمی ادرے، انکا ماحول، نصاب اور ان کا سلیبسس سب ایک ہی ہونا چاہئے۔
سوال:طالب علموں کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
جواب: بدقسمتی سے آج کل طالب علموں کا رجحان کھیل تماشوں کی طرف زیادہ ہے۔ ان سے میںیہ کہنا چاہوں گی کہ وہ پندرہ سال سے پینتیس سال تک عمر کے جو بیس سال ہیں اس عرصے کو ضائع نہ کریں اور ان سالوں میں ہی اپنا کیریئر بنا لیں تاکہ آپ معاشرے کے ایک مفید اور ذمہ دار شہری بن سکیں۔ بے جا مشغلوں کے بجائے سنجیدہ رویہ اختیار کریں کیونکہ یہ ہی وہ عمر ہے جس میں آپ اپنی قوتوں اور طاقتوں کا صحیح استعمال کر کے اپنے بڑھاپے کو بھی سنوار سکتے ہیں۔ 

Thursday, 19 September 2013

انٹرویو: فیصل غوری سنگر

انٹرویو: فیصل غوری سنگر
یمنی مصطفائی
فیصل غوری کا شمار حیدر آباد کے جانے مانے سنگرز میں ہوتا ہے۔ فیصل غوری گزشتہ ۰۲ سال سے اس فیلڈ میں کام کر رہے ہیں، سنگر کے علاوہ آب ایک بینکر بھی ہیں ، فیصل غوری نا صرف ملکی سطح پر بلکہ غیر ملکی سطح پر بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ انہیں پاکستان میوزک کونسل کی طرف سے میوزیکل ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔
سوال:گلوکاری کا شوق کیسے پیدا ہوا اور کب سے اس فیلڈ میں ہیں؟
جواب: بچپن ہی سے گلوکاری کے جراثیم مجھ میں موجود تھے، لیکن اصل میں جو مجھے شوق پیدا ہوا، وہ ہمارے گھر پر ایک رشتہ دار نے کنسرٹ منعقد کیا تھا بس تب ہی سے کچھ میوزک کی خوشبو میرے ذہن میں بیٹھ گئی اور پھر1992 سے میں نے اس فیلڈ کو پروفیشنلی اپنا لیا۔
سوال:کیا آپ کسی میوزیکل بینڈ سے منسلک ہیں یا پھر آپ کا اپنا بھی کوئی بینڈ ہے؟
جواب: باقاعدہ بینڈ کے ساتھ میں تقریباً6,5 سال lead vocalist رہا، کچھ عرصے قبل میں نے اپنا ایک بینڈthe signature کے نام سے متعارف کرایا ہے، اس سے پہلے میں نے aks بینڈ بنایا تھا، اب اسکا نام تبدیل کر کے اس میں vocalist ہوں، میرا بینڈ لائیو شوز میں بھی پرفارم کرتا ہے۔

سوال:آپکو خود کو کس قسم کے گانے پسند ہیں اور آجکل کے گلوکار اور گلوکاری کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے؟
جواب:مجھے پوپ روک میوزک پسند ہے، دیکھیں گلوکار تو کل کے بھی اچھے تھے اور آجکے بھی، لیکن آجکے گلوکاروں میں جو تھوڑی سی کمی موجود ہے وہ یہ کہ وہ پچھلے میوزک کی تقلید کرنے کی کوشش کرتے ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر نیا میوزک تخلیق کیا جائے اور نئے طریقے سے کام کیا جائے تو پھر بہت ساری اچھی چیزیں سامنے آئیں گی۔ آجکل کی گلوکاری دیکھیں تو عاطف اسلم، فاخر اور علی عظمت ہیں جو کہ آجکل بہت مشہور ہیں، جو محنت کرتا ہے وہ سامنے بھی آتا ہے، عاطف اسلم جیسے کہ ملکی و غیر ملکی سطح پر ہمارے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں، یہ ہمارے لئے اعزاز کی بات ہے۔

سوال؛گلوکاری میں کس سے متاثر ہیں، آپکے اپنے پسندیدہ گلوکار اور گلوکارہ کون ہیں؟
جواب:میرے پسندیدہ گلوکار سونو نگم ہیں، میں ان سے بہت متا ثر ہوں ، وہ ایک ہندوستانی گلوکار ہیں لیکن فن میں کوئی ہندو یا پاکستانی نہیں ہوتا، یہ ہی وجہ ہے کہ میں اپنے کنسرٹس میں انہیں کے گانے زیادہ گاتا ہوںاسکے علاوہ گلوکاراوں میں مجھے ہدیقہ کیانی پسند ہیں تھوڑا سا انکو گانے کی بھی کوشش کرتا ہوں، وہ مجھے ایک سنگر اور سوشل ورکر دونوں کی حیثیت سے پسند ہیں۔

سوال؛اگر کوئی اس فیلڈ میں آنا چاہے یا پھر کوئی بینڈ جوائن کرنا چاہے تو اسکے لئے کیا کیا عوامل لازمی ہیں؟
جواب: اس فیلڈ میں آنے کیلئے جزبہ ہونا ضروری ہے اگر جزبہ اور لگن ہوگی تو آپ بہت اچھہ گلوکاری سیکھ جائیں گے، سچااور اچھا کام بہت جلدی آگے جاتا ہے، جا بھی کام کریں دل سے کریں بس یہی وہ عوامل ہیں جو آپ کو اس فیلڈ میں نمایاں حیثیت دلائیں گے، چا ہیں آپ کسی بینڈ سے منسلک ہوں یا نہ ہوں۔

سوال:آپ کو اب تک آپکے کام کی کتنی پذیرائی ملی، جب لوگ آپ کے فن کو سراہتے ہیں تو کیسا لگتا ہے؟
جواب: اس سوال پر میں آپ کو ایک قصہ سنانا چاہوں گا کہ کراچی میں کچھ عرصے قبل ہم لوگ ایک کنسرٹ کرنے گئے تھے، جب میرا بینڈ the signature وہاں پرفارم کرنے لگا تو میرا ایک گانا ہے’ بھائی لوگ‘ جو کہ مجھے بھی بہت پسند ہے اور عوام میں بھی بہت مقبول ہوا، تو جب ہم نے یہ گانا وہاں گایا تو مجھے بہت حیرت ہوئی کہ کراچی جیسے شہر میں جہاں بے پناہ گلوکار موجود ہیں وہاں میرے ساتھ اس گانے کو اوڈینس نے بھی گایا، آپ یقین کریں وہ لمحہ میرے لئے ایسا تھا کہ خوشی سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔اسی طرح ایک مرتبہ نواب شاہ پیپلز میڈیکل کالج میں بہت بڑا کنسرٹ تھا اور وہاں کراچی کے ایک جانے مانے سنگر بھی آئے ہوئے تھے، بس اس نا چیز کو اللہ نے وہاں بہت عزت دی، میں وہاں واحد سنگر تھا جسے تین مرتبہ اسٹیج پر گانے کیلئے بلایا گیا، وہ بھی ایک یاد گار کنسرٹ ہے۔

انٹرویو: حیات علی شاہ بخاری

عائشہ انعم
انٹرویو: حیات علی شاہ بخاری
تعارف:حیا ت علی شاہ نے صحا فت کے میدان میں ۷۶۹۱ءریڈیو پاکستان سے آغاز کیا اسکے بعد کراچی خیرپور میں کام کیا پھر سندھی فلموں کا دور آیا ،فلمیں بن رہی تھی کہ کراچی چلے گئے چند فلمیں اسسٹ کیں محبوب ،مٹھا، چنچل ماں ، جیسی فلمیںبھی اسسٹ کی اور پھر لاہور چلے گئے اوروہاں عنایت بھٹی سے ملے جو بڑے فلم ساز اور گلو کار تھے لاہور میں بھی آپ نے بڑی کاسٹ کی فلمیں کیں ۔
س:صحافت کے شعبے میں دلچسپی کےسے پیدا ہوئی؟
ج:ابتدا میں فلم انڈسٹری سے تعلق کی بناءپر صحافت میں دلچسپی پیدا ہوئی۔بعد میں پاکستانی فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہو نے لگی تو یہ شعبہ چھو ڑ کر پوری محنت اور لگن سے محنت سے صحافت کے میدان میںقدم رکھا اور بڑی جدوجہد کے بعد اپنا مقام بنایا۔
س:صحافی کی اصل ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں ؟آپکی نظر میں ؟
ج:صحا فی اصل ذمہ داری عوام کوصرف باخبر کرنا نہیں بلکہ لوگوں کی سوچ کو تبدیل کرنا بھی ہے مگر خیال رہے یہ تبدیلی مثبت رُخ کی جانب ہو آجکل لوگوں کے ذہنوں میں کسطرح خوف وہراس بھرتا جارہا ہے یہ رویہ کسی بھی طور مناسب نہیں ہیں ہمارے یہاں کے ہر ادارے کی طرح اب صحا فت بھی شفاف نہیں رہی ہے اکثر صحافی اپنے مفاد کی خاطر کام کر رہے ہیں ورنہ عموماً ایسا نہیںہوتا۔
س:آپ نے میڈیا کے ہر شعبے میں کام کیا تینوں میں کیا فرق دیکھتے ہیں ؟
ج: میڈیا کے ہر شعبے کا اپنا مزاج ہے ذاتی طور پر الیکٹرونک میڈیا زیادہ پسند ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہوجائے وہ پرنٹ میڈیا کامقابلہ نہیں کرسکتا مثال کے طور پر اگر کسی وجہ سے آپ الیکٹرو نک میڈیا کا کوئی پروگرام نہیں دیکھ سکیںتوآپ کسی چینل کے اعلٰی حکام کو پرو گرام ریپیٹ کرنے کا نہیں کہہ سکتے اور یوں آپ یوں آپ اس پرو گرام کو دیکھنے سے محروم ہوجاتے ہیںجبکہ پرنٹ میڈیا کا یہ فائدہ ہے کہ اگر آپ نے کچھ نہ بھی پڑھا ہو تو وہ اخبا ر وہاں آ پ کے پاس ہو نے کی صورت میں مواد آپکے پاس ہوگا اسطرح ریڈیو بھی اب موبائل فون میں سماں گیا ہے جسے آپ جب چاہو سن سکتے ہو ۔ریڈیو کی نا کامی کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اب بھی پرا نے طریقے سے چلا آرہا ہے ہمارا ریڈیو اپنی فرمائش یا اپنا نام سننے کو لیئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے ممالک میںریڈیو ماحول سے باخبر رکھنے اور معلومات دینے کا اہم ذریعہ ہے۔
س © © © © : سندھی ڈراموں کے منفی اثرات کے بارے میں کیا کہیں گے؟
ج:سندھی ڈراموں میں دکھایا جانے والا یہ منفی تاثر بلکل غلط دکھایا جارہا ہے ہمارے یہاں دوسرے کئی مسائل ہیں ان چینلز کو ان حقییقی مسائل پر کام کرنا چاہیئے جس سے ناظرین کوئی مثبت سبق حاصل کریں جو انکی عملی زندگی میں بھی کام آسکے لیکن بد قسمتی سے سندھی چینلز پر جو ڈرامے بنائے جاتے ہیں اس کے زریعے سب لوگوں کی سوچ تبدیل کرنے کے بجائے انہیں اور منفی اثر دیا جارہا ہے۔ڈرامہ نگاروںکو چاہیئے کہ وہ لوگوں اپنے کام سے اچھی سوچ دیںمشرقی سوچ کو ابھا ریں اور مشرقی ماحول دیں۔
س ©: نئے پرانے لوگوںکے ساتھ کام کیا ، کون زیادہ ذمہ دار ہیں؟
ج:صحافت میں جو نئے لوگ آئے ہیںوہ اچھے ہیں اور بہت محنت کرنے والے ہیں ، اور اب انہیں چاہیئے کہ وہ اچھا اور مثبت کام کرکے اپنی ایک الگ شناخت بنائیں ، اِرد گرد کا ماحول دیکھ کر گھبرا نہ جائیں بلکہ جو وہ کرنا چاہتے ہیں دو سروںکے دباﺅ میںآ ئے بغیر وہ کر کے دکھائیں ، اپنی مرضی پر چلیں بھیڑوں کا شکا ر نہ بنیں نیچرل رہیں اور ہر چیزاصل میں جیسی ہے اسے ویسا ہی سب کے سامنے پیش کریں،نئے آنے والوں کوچا ہیئے کہ وہ اپنے مشاہدات کے مطابق معاشرے کو مثبت روپ میں ڈاھالنے کی کوشش کریں، ہان اگر آپ کے جھوٹ سے کسی کو جائز فائدہ ہورہا ہے تو بولیں لیکن اگر کسی کا نقصان ہورہا ہے تو ہر گز نہ بولیںکسی کا جائز مفاد اگر اس جھوٹ سے وابستہ ہو تو بھلے جھوٹ بول دیں چاہے کچھ بھی ہوجائے۔
س:نئے آنے والے لوگوں کیا مشورہ دیں گے؟
ج:کچھ باتوں میں تو پرانے لوگ ذمہ دار لگتے ہیںجبکہ کچھ میں نئے آنے والے،نئے آنے والوں میںپیسہ کمانے کا جوذہن بن رہا ہے ہو بہت براہے اور ایسا نہیں ہوناچاہیئے،بےشک نئے آنے والو ں کی اکثریت بھی اپنے پیشے میں مخلص ہے پر کہیں کہیں ذاتی مفاد کی وجہ سے وہ یہ غلط کام کر بیٹھتے ہیں یہ شعبہ پیسے کمانے کا نہیں ، اگر پیسے کمانے ہیںتو دوسرے شعبوںمیں جائےںکیونکہ یہ بڑا ذ مہ داری کا شعبہ ہے کیونکہ اس میں آپکو پوری قوم کی تعمیر کرنا ہوتی ہے اور ان کے ذہنوں کو
Aisha Anam is student of BS part-iii in 2012 میچور کرنا ہوتا ہے اگر اس میں آپ نے تھوڑی سی بھی غلط بیانی سے کام کیا تو پھر پورے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا۔ 
Practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi. Department of Mass Communication University of Sindh