Pages

Showing posts with label Roshni. Show all posts
Showing posts with label Roshni. Show all posts

Monday, 23 September 2013

زندگی ،خیالات اور ہم

تحریر: رضااللہ غوری
ایم اے پریوئس رول نمبر ۲۵ ماس کام ڈپارٹمنٹ سندھ یونیورسٹی
زندگی ،خیالات اور ہم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    زندگی کہنے کو ایک مختصر سا لفظ ہے ۔لیکن اس لفظ کی گہرائی بہت عجیب ہے۔ہم اپنے ارد گرد بے شمار چیزوں کو دیکھتے ہیں اور غور کرتے ہیں جس سے ہمارے خیالات وتصورات بنتے ہیں۔اسی طرح ہم اپنی زندگی پر بھی غور کریں تو ہماری زندگی میں بھی ایسے نشیب و فراز وآتے ہیں جن کی بنیاد پر ہم اپنے خیالت کو بدلتے رہتے ہیں زندگی میں ہم بہت کچھ سوچتے ہیں بہت سی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور انھیں منصوبہ بندی کے تحت ہم اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں ۔ہر شخص اپنے مستقبل کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لیے بہت سی جدوجہد کرتا ہے ۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے ہم جیسا سوچتے ہیں وہ ہوتا نہیں۔ ہر بار ہم اپنی بنائی ہوئی منصوبہ بندی میں کامیاب نہیں ہو پاتے ۔اس میں کچھ غلطیاں تو ہماری اپنی ہی ہوتی ہیں اور کچھ اس کا تعلق ہماری قسمت سے بھی ہوتا ہے ۔ کیونکہ کہ ضروری نہیں کہ جو کچھ ہم نے سوچا ہو وہ ہی کچھ ہماری قسمت میں بھی لکھا ہو۔ اور ویسے بھی ہر کام ربِ کریم کی مصلحت اور رضا شامل ہے ۔ لیکن ہم لوگ شاید یہ بات سمجھتے ہی نہیں اور ا پنی قسمت کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اور مایوس ہونے لگتے ہیں۔ دراصل مایوسی انسان کے اندر اس زندگی کی ان چیزوں کی وجہ سے ہی آتی ہے جو وہ اپنے ارد گرد دیکھتا ہے پھر انھی کی بنا پر اپنی خواہش پیدا کرتا ہے۔ وہ خیالوں میں انھی چیزوں کے ارد گرد گھومتا ہے جو اُسے اپنے اطراف کی دنیا میں نظر آتی ہیں ۔ اسی لیے تو زندگی خواہشوں کی وجہ سے مایوسی بن جاتی ہے ۔ حا لانکہ مایوسی تو کفر ہے ۔ اور انسان کو کوئی حق نہیں پہنچتا مایوس ہونے کا ۔
اللہ نے بار بار انسان کو حکم دیا ہے کہ اے انسان اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ۔ دراصل ہماری زندگی میں ہم ہر لمحہ کسی نہ کسی خواہش کو جنم دیتے ہیں وہ خواہشات جو کبھی ختم ہی نہیں ہوتی اس لیے ہماری مایوسی بھی اس قدر بڑھتی جاتی ہے حالانکہ ہمین اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھنا چاہیے ۔ کہ اللہ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ۔ ان بے شمار نعمتوں کے باوجود انسان احساسِ کمتری میں مبتلا رہتا ہے ۔ ہمین اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔ انسان کو چاہیے کہ وہ خواہشات رکھے لیکن ان خواہشات کو اپنے اوپر حاوی نہ کرے اور اگر وہ خواہشات کو اپنے اوپر حاوی نہیں کرے گا اور اپنے مستقبل پر بھروسہ رکھے گا تو مایوسی خود بہ خود ختم ہوتی چلی جائی گی ۔ کیونکہ کہ خیالات کی دنیا تو انسان کی خود کی تخلیق ہوتی ہے لیکن انسان کی اصل دنیا اصل زندگی اللہ کی تخلیق ہے ۔ اس لیے سارے کام اللہ ہی کی مرضی سے ہوتے ہیں ۔ 


Thursday, 19 September 2013

نو عمری میں منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان

فیچر: نو عمری میں منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان 
شرمین ناز طالب علم بی ایس پارٹ تھری 2013
آج کے دور میںنئی چیزوںکے بارے میں تجسس ہونا فطری بات ہے۔آج کے دور میں منشیات کا استعمال بہت بڑھتا جارہا ہے۔خاص کر منشیات کا استعمال زیادہ تر نو عمری کی نوجوان لڑکیاں اور لڑکوں میں پایا جاتا ہے۔تمباکو نوشی ،شراب نوشی،شیشہ اور منشیات ان سب چیزوں کا استعمال ہمارے معاشرے میں بہت عام ہو چکا ہے۔ ہماری نوجوان نسل سیگریٹ نوشی کو بطور فیشن استعمال کرتے ہیںاور ظاہر یہ کرتے ہیں کہ ہم بہت اونچے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیںاور مختلف ریسٹورنٹ میں بھی شیشے کا استعال بہت عام ہو گیا ہے۔
پاکستانی خواتین ،خاص طور پر نوجوان لڑکیاں جن کا تعلق اونچے خاندانوں سے ہے وہ بھی منشیا ت کی عادی بنتی جا رہی ہیں۔چھوٹے اور یتیم بچوں میں بھی شیشہ پینے کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔پہلے تو ان سب چیزوں کا فلموں اور اشتہارات کو دیکھ کر پتہ چلتا تھا پر آجکل نوجوان کھلے عام نشہ کر رہے ہیں۔
شیشہ ،منشیات،تمباکو نوشی ،شراب نوشی وغیرہ کی مصنوعات بنانے والی کمپنیاںلاکھوں ڈالر پر کشش اشتہارات پر خرچ کرتی ہیں،اورشیشہ ،منشیات،تمباکو نوشی ،شراب نوشی وغیرہ کو ایک شاندار کام کے طور پر پیش کرتی ہیں۔وہ لوگوں کے نشے کی عادت سے منافع کماتی ہیںلہذا اگر آپ اپنے دوستوں سے متاثر نہیں ہوتے تب بھی ان فنکارانہ اشتہارات سے محتاط رہیں،جن کا مقصد آپ کو ان تمام چیزوں کی طرف راغب کرنا ہے۔
نشے کی ابتداءکس طرح ہوتی ہے ؟اس کا سب سے بڑاسبب یہ ہے کہ ساتھیوں کا دباﺅ،بالغ نظر آنے کی خواہش،یا پھر خاندان میں کوئی نشہ آور ہو اور آپ اسے آزما کر دیکھنا چاہتے ہو کہ اس سے کیا ہوتا ہے اور یہ کیسالگتا ہے۔بہت سے لوگ نوعمری میں نشہ شروع کردیتے ہیں انہیں یہ توقع نہیں ہوتی کہ وہ اس کے عادی ہو جائیں گے ۔اس کو شروع کرنا تو بہت آسان ہے پر چھوڑنا انتہائی مشکل۔
پہلی بار شیشہ پینے اور شراب نوشی وغیرہ کرنے والوں کو متلی محسوس ہوتی ہے اور اکثر اوقات گلے اور پھیپھڑوں میں دردو جلن محسوس ہوتا ہے۔ شیشہ ،منشیات،تمباکو نوشی ،شراب نوشی وغیرہ یہ سب چیزیں انسان کے لیئے جان لیوہ ثابت ہوتی ہیں یہ سب چیزیں پھیپھڑوں کی مستقل بیماری اور دل کے امراض کا بھی سبب بنتی ہیں۔ اس عادت کی وجہ سے ہزاروںروپے بھی خرچ ہوجاتے ہیں۔
شیشے کے مشترکہ استعمال سے اضافی خطرات بھی پیش آتے ہیںمثلاًٹی بی اور ہیپاٹائٹس کی منتقلی وغیرہ۔شیشے کے دھویںمیں زہریلے مادوں کے کاربن مونواکسائڈجیسی بھاری دھاتیں شامل ہوتی ہیں اور ان سب کی مقدار زیادہ میں ڈلی ہوتی ہیں ۔
البتہ منشیات کے استعمال سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اس کے استعمال سے دیگر نئے مسائل اور پیدا ہو جاتی ہیں ۔جیسے کہ خراب جلد،خراب سانس،کپڑوں اور بالوں میں خراب بدبو،کھیلنے کی صلاحیت میں کمی،زخمی ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اور صحت یاب ہونے میں تاخیر ہوتی ہے۔یہ نشہ جوڑوں کو آپس میں باندھنے والے ریشوں کو نقصان پہنچاتا ہے ۔شراب نوشی سے جسم کی اعضاءکی ہم آہنگی ختم ہونے لگتی ہے ،اندازہ کرنے کی صلاحیت میں کمی آجاتی ہے ،جسم میں سستی آجاتی ہے،نگاہ اور یاداشت میں کمی آجاتی ہے اور کچھ نہ یاد رہنے جیسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
تاہم منشیات کے خاتمے میں خصوصاًلڑکیوں کو اس سب بیماری سے محفوظ رکھنے کے لیئے سب سے اہم کردار والدین ادا کر سکتے ہیں۔والدین کو چاہیئے کہ وہ اپنے بچے اور بچیوں کا دیھان رکھیں کہ وہ اسکول ،کالج سے غیر حاضر تو نہیں،کہیں امتحان میں فیل تو نہیں،رقم کی طلب یا معمول سے زیادہ رقم تو پاس نہیںوغیرہ وغیرہ پر ضرور توجہ دیںاور چھان بین کریں کہ ہمارا بچہ یا بچی غلط کاموںمیں تو نہیں۔سنجیدہ طبقوں اور حکومت کو چاہیئے کہ منشیات کے استعمال کے رجحانات کو کنڑول کرنے کے لیئے اپنا کردار ادا کریںاور اس سلسلے میں اہل علم اور اہل قلم اپنی تحریروں ،تقریروںاور خطبات میں اس موضوع کو زیربحث بنائیں تاکہ اس لعنت سے نجات مل سکے ۔
شرمین ناز.. بی ایس پارٹ۳
Practical work carried at Department of Mass Comm University of Sindh 

سندھ کے مشہورو معروف چنگ نواز امےر بخش رونجھ

 سندھ کے مشہورو معروف چنگ نواز         تحرےر : نائمہ ممتاز بھٹی 
       امےر بخش رونجھو
منفرد تارےخ اور ثقافت کا حامل شہر ٹھٹہ علم و ادب اور ثقافت کا گہوارہ رہا ہے۔اس علاقے کے تارےخی،تہذیبی اور ثقافتی ورثے کے  
پےش نظر ےہاں کے لوگ ہر فن مولا کہلاتے ہےں۔وادی مہران مےںفنکاروں کی اےک بہت بڑی فہرست ہے جو دنےائے فن مےں اپنا نام  
پےدا کئے ہوئے ہےں اور سندھی ورثے کے حوالے سے نئے نئے ساز درےافت کر کے شائقےن کا دل موہ لئے ہےں۔اےسا ہی اےک ساز چنگ  
ہے جو سندھی تہذےب کا اےک منفرد ساز مانا جاتا ہے اور امےر بخش رونجھو کا نام اس ساز کے سازندے کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہےں۔
امےربخش رونجھو ضلع ٹھٹہ کے اےک چھوٹے سے گاﺅں اونگر کے رہنے والے تھے انکا تعلق گاﺅں کے مزدور طبقے جو محنت مزدوری اور کھےتی باڑی کر کے اپنا پےٹ پالتے ہےں ان سے تھا ےعنی وہ اےک غرےب خاندان سے تعلق رکھتے تھے چنگ سندھ کا اےک قدےم ساز ہے جو زےادہ تر چرواہے استعمال کرتے ہےں جب وہ رےوڑ(مال موےشی) کو چراگاہوں کی طرف لےکر جاتے ہےں تو پےچھے بجاتے ہوئے جاتے ہےں ےہ وہ ساز ہے جو لوہے سے بنا ہوتا ہے اور اسے ہونٹوں پر رکھ کر انگلی سے بجاےا جاتا ہے۔امےر بخش رونجھو نے اپنے شوق سے ےہ ساز سےکھا اور پھر رےڈےو پاکستان حےدرآباد مےں اس ساز کے سازندے کے طور پر آڈےشن دےا۔چونکہ ان کو اس ساز بجانے مےں پختگی حاصل تھی لہذہ وہ ۰۶ کی دھائی مےں منتخب ہو گئے اور اسطرح سندھ کے رہنے والو ں تک محبت اور خلوص سے بھر پور اس ساز کی صدا پہنچاتے رہے انہوں نے دےہاتی پروگرامز مےں اپنے فن کا جادو جگانا شروع کےا اور اسطرح ان کا فن مزےد نکھرتا گےا اس فن مےں انہےں خوب پذےرائی ملی اور پھر وہ ثقافتی مےلوں اور محفلوں مےں بلائے جانے لگے اور اپنی محنت سے اپنے فن کا لوہا منواےا اور شہرت پائی،اور اس ساز کو بجانے والے سندھ کے واحد اور بہتر سازندے جانے جاتے ہےں۔
لےکن و قت کے ساتھ ساتھ مفلسی اور بےمارےوں نے ان سے وفا نہ کی اور اپنی عمر کے آخری ادوار مےں وہ بےنائی سے محروم ہو گئے لےکن چنگ بجانا نہ چھوڑا۔غربت اور افلاس کی وجہ سے وہ اپنا علاج نہ کروا سکے اور اسطرح۰۱ ستمبر۲۱۰۲ کو اس دنےائے فانی سے کوچ کر گئے۔امےر بخش رونجھو گو آج ہم مےں موجود نہےں لےکن انہوں نے اپنے فن کو زندہ رکھا اور اپنے دو بےٹوںعلی محمد اور فےروز کو ےہ فن سےکھاےا اور ان کے ےہ وارث چنگ بجانے کے فن کو آگے بڑھانے کے لئے اپنی کوششوں مےں مصروف ہےں اور نسل در نسل محبت کا ےہ سفر جاری و ساری ہے
ہماری دعا ہے کہ امےر بخش رونجھو کے بچے بھی اپنے والد کے فن اور نام کوشہرت سے ہمکنار کرتے رہےں (آمےن)
Naeema is student of M.A Previous Part-I in 2012
Practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi. Department of Mass Communication University of Sindh 

پروفائل: رفیقہ میمن

اُمہّ ہانی
پروفائل: رفیقہ میمن
ایک ایسی شخصیت کی روداد بیان کر رہی ہوں جو ایک اپنا ممتاز مقام رکھتی ہیںاور یہ سب ان کی اپنی ہمت اور مسلسل جدوجہد کی وجہ سے ممکن ہوا۔
ہمارے معاشرے میں ایک اکیلی عورت کا عزت وآبرو کے ساتھ معاش کے مسائل سے نمٹنا آسان کام نہیںجیسے انھوں نے بحسنِ وخوبی پورا کیا۔
رفیقہ میمن ہمارے معاشرے کا ایسا کردار جو دنیا کے لیئے مثال ہے۔
حیدرآباد کے ایسے گھرانے میںپیداہوئیں جہاں بیٹیوںکی بہت جلد ہی شادی کردی جاتی تھی۔جب وہ بھی پندرہ سال کی ہوئی تو انکے والدین نے انکی شادی کردی سسرال والے روایتی نکلے انھوںنے ہر طرح سے تکلیفیںدیں ۔رفیقہ اپنی کم عمری کی نادانی کی وجہ سے ان سے مقابلہ نہ کر پائیں حالات کی ستم ظریفی کہ ان کے شوہر نامدار بھی ان کے لیئے کوئی اچھے شوہر ثابت نہ ہوئے نشہ کی عادت کے انھیں کہیں کا نہ چھوڑا کاروبار وغیرہ سب تباہ وبرباد ہوگیا اور رفیقہ اپنے تین بچوں سمیت ماں باپ کے گھر آ بیٹھیں جلد ہی انھیںاحساس ہو گیا کہ بھائی بھابیوں کے ساتھ اور اپنے تین بچوں انھوں ہمت کی اوربیو ٹیشن کا کورس کر کے اپنے لیئے روزگار شروع اور جلد ہی اپنی محنت سے اپنا ایک مقام بنا لیا اور اپنے بچوںکو تعلیمی میدان میں نمایاں مقام دلانے کے لیئے دن اور رات محنت کرکے انھیں تعلیمی سہولت بہم پہنچائی۔ذندگی کے شب و روز گزرتے رہے اور بچے ایک ایک کر کے منزل تک پہنچتے گئے۔ایک بیٹا انجینئر بن کر اپنی ماں کی محنت کو رائیگاں نہ جانے دیا اور ایک بیٹی نے میڈیکل پاس کرکے لائق ڈاکٹربن گئی اور دوسری نے بھی ماسٹرز کیا رفیقہ آج عمر کے اس دور میں ہے جہاں آرام کرنا ان کا حق ہے ۔لیکن کیونکہ پوری عمر انھوں کیا ہے تو وہ آج بھی بیٹھی نہیں ہیں جتنا بھی ان سے کام ہو سکتا ہے وہ کر رہی ہیں ۔
آج وہ خوش اور مطمئن ہیں کہ انھوں جو زندگی میں محنت کی وہ رائیگاں نہیں گئی بلکہ آج ان کے بچے کامیاب زندگی گزار رہے ہیں اپنی ماں کی خدمت کرنے کو بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

Ume Hani is student of BS-III in 2013

انٹرویو: حیات علی شاہ بخاری

عائشہ انعم
انٹرویو: حیات علی شاہ بخاری
تعارف:حیا ت علی شاہ نے صحا فت کے میدان میں ۷۶۹۱ءریڈیو پاکستان سے آغاز کیا اسکے بعد کراچی خیرپور میں کام کیا پھر سندھی فلموں کا دور آیا ،فلمیں بن رہی تھی کہ کراچی چلے گئے چند فلمیں اسسٹ کیں محبوب ،مٹھا، چنچل ماں ، جیسی فلمیںبھی اسسٹ کی اور پھر لاہور چلے گئے اوروہاں عنایت بھٹی سے ملے جو بڑے فلم ساز اور گلو کار تھے لاہور میں بھی آپ نے بڑی کاسٹ کی فلمیں کیں ۔
س:صحافت کے شعبے میں دلچسپی کےسے پیدا ہوئی؟
ج:ابتدا میں فلم انڈسٹری سے تعلق کی بناءپر صحافت میں دلچسپی پیدا ہوئی۔بعد میں پاکستانی فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہو نے لگی تو یہ شعبہ چھو ڑ کر پوری محنت اور لگن سے محنت سے صحافت کے میدان میںقدم رکھا اور بڑی جدوجہد کے بعد اپنا مقام بنایا۔
س:صحافی کی اصل ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں ؟آپکی نظر میں ؟
ج:صحا فی اصل ذمہ داری عوام کوصرف باخبر کرنا نہیں بلکہ لوگوں کی سوچ کو تبدیل کرنا بھی ہے مگر خیال رہے یہ تبدیلی مثبت رُخ کی جانب ہو آجکل لوگوں کے ذہنوں میں کسطرح خوف وہراس بھرتا جارہا ہے یہ رویہ کسی بھی طور مناسب نہیں ہیں ہمارے یہاں کے ہر ادارے کی طرح اب صحا فت بھی شفاف نہیں رہی ہے اکثر صحافی اپنے مفاد کی خاطر کام کر رہے ہیں ورنہ عموماً ایسا نہیںہوتا۔
س:آپ نے میڈیا کے ہر شعبے میں کام کیا تینوں میں کیا فرق دیکھتے ہیں ؟
ج: میڈیا کے ہر شعبے کا اپنا مزاج ہے ذاتی طور پر الیکٹرونک میڈیا زیادہ پسند ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہوجائے وہ پرنٹ میڈیا کامقابلہ نہیں کرسکتا مثال کے طور پر اگر کسی وجہ سے آپ الیکٹرو نک میڈیا کا کوئی پروگرام نہیں دیکھ سکیںتوآپ کسی چینل کے اعلٰی حکام کو پرو گرام ریپیٹ کرنے کا نہیں کہہ سکتے اور یوں آپ یوں آپ اس پرو گرام کو دیکھنے سے محروم ہوجاتے ہیںجبکہ پرنٹ میڈیا کا یہ فائدہ ہے کہ اگر آپ نے کچھ نہ بھی پڑھا ہو تو وہ اخبا ر وہاں آ پ کے پاس ہو نے کی صورت میں مواد آپکے پاس ہوگا اسطرح ریڈیو بھی اب موبائل فون میں سماں گیا ہے جسے آپ جب چاہو سن سکتے ہو ۔ریڈیو کی نا کامی کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اب بھی پرا نے طریقے سے چلا آرہا ہے ہمارا ریڈیو اپنی فرمائش یا اپنا نام سننے کو لیئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے ممالک میںریڈیو ماحول سے باخبر رکھنے اور معلومات دینے کا اہم ذریعہ ہے۔
س © © © © : سندھی ڈراموں کے منفی اثرات کے بارے میں کیا کہیں گے؟
ج:سندھی ڈراموں میں دکھایا جانے والا یہ منفی تاثر بلکل غلط دکھایا جارہا ہے ہمارے یہاں دوسرے کئی مسائل ہیں ان چینلز کو ان حقییقی مسائل پر کام کرنا چاہیئے جس سے ناظرین کوئی مثبت سبق حاصل کریں جو انکی عملی زندگی میں بھی کام آسکے لیکن بد قسمتی سے سندھی چینلز پر جو ڈرامے بنائے جاتے ہیں اس کے زریعے سب لوگوں کی سوچ تبدیل کرنے کے بجائے انہیں اور منفی اثر دیا جارہا ہے۔ڈرامہ نگاروںکو چاہیئے کہ وہ لوگوں اپنے کام سے اچھی سوچ دیںمشرقی سوچ کو ابھا ریں اور مشرقی ماحول دیں۔
س ©: نئے پرانے لوگوںکے ساتھ کام کیا ، کون زیادہ ذمہ دار ہیں؟
ج:صحافت میں جو نئے لوگ آئے ہیںوہ اچھے ہیں اور بہت محنت کرنے والے ہیں ، اور اب انہیں چاہیئے کہ وہ اچھا اور مثبت کام کرکے اپنی ایک الگ شناخت بنائیں ، اِرد گرد کا ماحول دیکھ کر گھبرا نہ جائیں بلکہ جو وہ کرنا چاہتے ہیں دو سروںکے دباﺅ میںآ ئے بغیر وہ کر کے دکھائیں ، اپنی مرضی پر چلیں بھیڑوں کا شکا ر نہ بنیں نیچرل رہیں اور ہر چیزاصل میں جیسی ہے اسے ویسا ہی سب کے سامنے پیش کریں،نئے آنے والوں کوچا ہیئے کہ وہ اپنے مشاہدات کے مطابق معاشرے کو مثبت روپ میں ڈاھالنے کی کوشش کریں، ہان اگر آپ کے جھوٹ سے کسی کو جائز فائدہ ہورہا ہے تو بولیں لیکن اگر کسی کا نقصان ہورہا ہے تو ہر گز نہ بولیںکسی کا جائز مفاد اگر اس جھوٹ سے وابستہ ہو تو بھلے جھوٹ بول دیں چاہے کچھ بھی ہوجائے۔
س:نئے آنے والے لوگوں کیا مشورہ دیں گے؟
ج:کچھ باتوں میں تو پرانے لوگ ذمہ دار لگتے ہیںجبکہ کچھ میں نئے آنے والے،نئے آنے والوں میںپیسہ کمانے کا جوذہن بن رہا ہے ہو بہت براہے اور ایسا نہیں ہوناچاہیئے،بےشک نئے آنے والو ں کی اکثریت بھی اپنے پیشے میں مخلص ہے پر کہیں کہیں ذاتی مفاد کی وجہ سے وہ یہ غلط کام کر بیٹھتے ہیں یہ شعبہ پیسے کمانے کا نہیں ، اگر پیسے کمانے ہیںتو دوسرے شعبوںمیں جائےںکیونکہ یہ بڑا ذ مہ داری کا شعبہ ہے کیونکہ اس میں آپکو پوری قوم کی تعمیر کرنا ہوتی ہے اور ان کے ذہنوں کو
Aisha Anam is student of BS part-iii in 2012 میچور کرنا ہوتا ہے اگر اس میں آپ نے تھوڑی سی بھی غلط بیانی سے کام کیا تو پھر پورے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا۔ 
Practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi. Department of Mass Communication University of Sindh