Pages

Showing posts with label سحرش. Show all posts
Showing posts with label سحرش. Show all posts

Monday, 23 September 2013

روشنی کی پہلی کرن - پروفائیل

 پروفائیل
’روشنی کی پہلی کرن‘ 
سحرش سیّد رول نمبر ۰۶ 
دنیا میں ہر طرح کے لوگ بنائے ہیں اللہ نے کچھ تو بارہا کوشش کے باوجود کچھ نہیں کر پاتے کچھ نہ سوچے سمجھے بنا کسی پلاننگ کے ہی لوگوں کے لیئے مددگار اور وسیلہ بن جاتے ہیں ۔اسی طرح یہ دنےا کا کارخانہ رواںدواں ہے ہر شخص جو چاہتا ہے نہیں کر پاتا پر انسان کو کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔جب انسان خود کومضبوط بناتا ہے تو راہ کے ہر کانٹے خود ہی چھنٹ جاتے ہیںاور انسان کے زینہ با زینہ خود ہی قدم آگے بڑھتے جاتے ہیں ایک سے دو ےا دو سے گیارہ ہوتے جاتے ہیں اگر انسان یہ سوچے کے میںتنہاہوںوہ کچھ نہیںکرسکتا پہلا قدم تو کسی نہ کسی کو اٹھانا پڑتا ہے۔
ہمارے ملک میں ایسے بہت سے مسائل ہیںجن حل تو کیا ان کی طرف دیکھنا بھی ہماری حکومت کے لیئے محال ہے ان ہی میںکچھ ایسی بیمارےاں بھی ہیں جن کا کوئی سدِباب نہیںبلکہ مستقبل میں بھی کچھ دریغاں نہیں۔
ہیموفیلیا ایک ایسی بیماری ہے جس میںانسان کے جسم خون کا معادہ جنھیں پلیٹیلیٹس کہتے ہیںوہ انسانی جسم کی ضرورت کے مطابق نہیں بن پاتے۔پلیٹیلیٹس کا کام یہ ہے کہ اگر ہمیں کہیںچوٹ لگ جائے اور کوئی زخم ہو تو وہ ہمارے خون کو بہنے سے روکتے ہیںسوچے اگر وہ نہ ہو توہمارا خون لگاتار بہتا رہے اور پھر تو کوئی معجزہ ہی شاید ہمیں بچا سکے۔
کراچی جیسے شہر یعنی رواںدواںاور بھاگتی دوڑتی ذندگی میں ایک نارمل بلکہ کبھی توعام لوگوں سے بھی زیادہ ہمت سے کام لینے والے یہ ادھیڑعمر بلکہ یہ کہا جائے کہ بڑھاپے کی طرف بڑھتے ہوئے’مسٹر عبدالرحمن‘جن کی عمر تقریباً۶۵برس ہے
جب انھوں نے دنےا میں قدم رکھا اوران کے دودھ کے دانت گرے تو خون نے تھمنے کا نام ہی نہ لیا ان کے والدین کے لیئے یہ کچھ نئی بات نہ تھی کیونکہ ان سے پہلے بھی ان کے دو چشم وچراغ کو یہ بیماری پہلے ہی موت کے گھاٹ ا ©تار چکی تھی،انسانی ذات مایوس تو ہوتی ہی یقیناانکی بہت سی امیدیں ٹوٹیں ہونگی اور بہت سے اشک رواں ہو ئے ہونگے۔وقت آخر وقت ہے ہر زخم بھر ہی دیتا ہے ان کی ذندگی بھی عام ڈگر پر آ ہی گئی پراس طرح کے مریض کا خاصہ خیا ل رکھنا پڑتا ہے اس ہی ڈر اور خوف میں انھیں مڈل سے زےادہ اسکول نہ بھیجا گیا اور اعلی بلکہ درمےانی تعلیم بھی حاصل نہ کر سکے۔
یہ خود اس بیماری کے شکار تھے اس لیئے جانتے تھے اس کے مسائل اور ان کے حل بھی۔بہت سے لوگوں کوموت کے گھاٹ اترتے دیکھا تھا جن میں ان کے تین بھائی بھی تھے ۔یہ ایک متواسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے گھر کا پہیہ دوکان کے کرائے سے چل رہا تھا لیکن بیماری بھی اللہ نے دی تھی لیئے مایوس نہ ہوئے اورسوچا کے آنے والوں کے لیئے مسائل کم کیے جائے جب انسان ہمت کرتا ہے تو ربِ ذوللجلال ضرور ساتھ دیتا ہے۔
جب یہ تیس برس کی عمر تک پہنچے تب فاطمی فاﺅنڈیشن نے پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ سی پی اور ایف ایف پی اور سی پی شروع کی۔یہ اور بھی مریضوں کے ساتھ وہاں گئے اور ڈاکٹر حنیف ڈاگرہ سے ملے جو پاپولر انٹرنیشنل مینیجر تھے انھوں نے ہی انھیںڈاکٹر طاہر سلطان شمسی سے ملوایا اور وہاں ہی فیکٹر ایٹ اور نائن اینجیکشن کے بارے میں سنا۔ان ہی دنوں یہ ایک شدید زخم کا شکار ہوئے پر فیکٹر کے استعمال سے جلد افاقہ ہواتب انھوں نے سوچا کے یہ فیکٹر دوسرے مریضوں تک بھی ضرورپہنچنا چاہیے پر اس کی قیمت زیادہ تھی وقتِ ضرورت اسے عام مریض نہیں خرید سکتے تھے حکومت یا کوئی این جی او بھی یہ فیکٹر فراہم نہیں کرتی تھی۔
۴۹۹۱ میں انھوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کے ایک نیا سدِباب رکھا کراچی بلکہ پاکستان میں پہلی’ہیموفیلیا پیشنٹ ویلفئیر سوسا ئٹی‘قائم کی جوکہ ۵۹۹۱ میں بقاعدہ رجسٹرڈہوگئی اسی سال پہلا ’ورلڈ ہیموفیلیا ڈے ‘ بھی منایا گیا جس میں حکیم محمد سعید چیف گیسٹ کے طور پر تشریف لائے جس سے ان کی اور ہمت بڑھی۔
وہ ڈاکٹر طاہر کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے اس کارِ خیر میں ان کی بڑی مدد کییہ ایک واحد سوسائٹی ہے جو صرف ہیموفیلیا کے مریضوں کے لیئے ہےایچ پی ڈبلیو ایس نے بلامعاوضہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فیکٹر ایٹ اور نائن مریضوں کو فراہم کئےورلڈ فیڈریشن آف ہیموفیلیاکینیڈا نے انھیںچار سال کی ممبر شپ بھی دی اور یہ وہاںکے الیکٹیڈ ممبر بھی رہے جس کی ٹرسٹ سے کامیاب سرجریز بھی کی گئیڈائیریکٹر لائٹ یو ایس اے میڈم لاری کیلی نے انھیں ’لیڈر آف دا ڈئیر‘اور ان کی آرگنائیزیشن نے ۹۹۹۱ میں’لیڈر آ ف دا ائیر ‘کے اعزاز دیا۔جب بھی کسی ایمرجنسی کی صورت میں ایڈ کی ضرورت پڑتی ہے تو ہماری فوری مدد کی جاتی ہے ۔
ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کی بنا پر آج بھی یہ آرگنائےزےشن رواں دواںہے جو کہ ہر اس مریض کو فوراًبلامعاوضہ خون فراہم کرتی ہے ساتھ ہی فیکٹر بھی لگایا جاتا ہے۔
عبدالرحمن صاحب اس بیماری پر چار کتب بھی لکھ چکے ہیں جس میں بیماری کے بارے میں مکمل معلومات ہے جب انھوںنے یہ سو سائٹی قائم کی تھی یہ پانچ یا چھ ساتھی تھے پر اب تین سو سے زیادہ ممبر ہیں اور سب ہی اس بیماری کا شکار ہیں یہ خود اس ویلفیئر کے فاﺅنڈر اور جنرل سیکریٹری ہیں اور ان کا بھانجا بھی اس بیماری کا شکار ہے اوروہ یوتھ کو ڈیل کرتا ہے۔
ماشااللہ ان کی عمر ۶۵برس ہے پر وہ کہتے ہیں کہ ہم نے خود کو کبھی تھکا ہوا محسوس نہیں کیا چابیس گھنٹے میں کسی بھی وقت کسی کو ہماری اور ہمارے ادارے کی ضرورت پڑسکتی ہےجب کسی نوجوان کو موت کے منہ میں جاتے دیکھتے ہےں تو مایوسی کے بجائے ہمت بڑ ھتی ہے کہ جتنا کرتے ہیں اس سے بھی زیادہ کرینگے۔
ان کا اس بیماری سے متاثر مریضوں کےلیئے کہنا ہے کہ ہمت نہ ہاریں خود کو نارمل سمجھے اور سے رابطہ کریں سوسائٹی سے رابطہ کریں جتنا بھی ہم کر سکتے ہیں ضرور کرینگے۔ 


زندگی اور ماحولیاتی الرجی

روزمرہ کی زندگی اور ماحولیاتی الرجی
جس طرح یہ دنیا ترقی کر رہی ہے ساتھ ساتھ اس کے مسائل بھی ترقی کرر ہے ہیںجدہر نظر دوڑائیں ہر کوئی مسائل میں گہرہ نظرآتا ہے۔اس ہی وجہ سے لوگوں نے عام ےا چھوٹی موٹی بیماریوں کی طرف دھیان دیناچھوڑدیا ہے۔
جس کی وجہ سے یہ بیماریاں خطرناک نوعیت اختیار کر لےتی ہیںجس طرح استھیمہ یا سانس کی بیماریاںبھی عام دیکھنے میں آتی ہیں جو کہ دےکھنے اور سننے میں تو مسا وی نوعیت کی بیماریہے لیکن اگر اس میںاحتےاط نہ کی جائے تو وہ انسان کو مفلوج بنا کر رکھ دیتی ہے۔
اسی لئیے اس انٹرویو کی مدد سے اس قسم کی بیماریوں کو سمجھنے کے لیئے اک چھوٹی سی کاوش کی گئی ہے۔ 
نام:ڈاکٹر شفیع شیخ
تعلیم ©:ایم بی بی ایس،ڈی ایل او ۔۔۔ ایف سی پی ایس(اسپیشلائیزیشن)
 ٓ ڈاکٹر شفیع شیخ پچیس سال سے اس مسیحائی شعبے سے وا بستہ ہیں۔ڈاکٹرصاحب کے والد بھی ڈ اکٹر تھے پر یہ اس شعبے میں حادثاتی طور پر آئے کارڈیو لو جسٹ بننا چاہتا تھے۔ 
س :ڈاکٹرصاحب الر جی کیا ہے؟
 ڈاکٹرصاحب ۔ کو ئی بھی فورا ًچیزریئیکشن کرتی ہے وہ الرجی کہلاتی ہے یہ کسی بھی چیز سے ہوسکتی ہے الرجی دو طرح ہوتی ہے۔کھا نے کے ذریعے مثال کے طور پرکچھ لوگوں کوکےلے سے،کچھ کو انڈے سے،کچھ کو چاول سے،اور کچھ کو مچھلی اور گائے کے گوشت سے۔اسی طر ح سا نس کے ذریعے یا ناک سے کچھ لوگوں کو مٹی سے،ہوا سے،پودوں سے،سگریٹ سے ،ہر قسم کے دھو ائیں سے،خوشبو ﺅں سے،پودوںسے،اور کچھ کو پردوں اور کا رپٹ سے حتی کہ اس بیماری کی کوئی خاص وجہ نہیں ہو تی یہ ما حولیاتی تبدیلی سے لے کر قوت © مدافعت کی کمی سے بھی الرجی ہو سکتی ہے۔
َِِِِِِِِِ ¿ µ µس آیا ےہ ایک ہی بیما ری ہے ےا مختلف بیماریوں کے نام۔
 ڈاکٹرصاحب ۔ ایک ہی بیماری ہے لوگوں میں مختلف نوعیت سے پا ئی جاتی ہے ای این ٹی کے لحا ظ سے اصل میں سا نس کے راستے ہی ہو تی ہے۔
س ©:کیالرجی ایک وبہ کی طرح پھیل رہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ :نہیں،بلکل نہیںلیکن ہماری ما حولیاتی آلودگی کی وجہ سے جلد پھیل رہی ہے۔
س :الرجی دوسری بیماریوں سے کس طرح مختلف ہے۔
ڈاکٹرصاحب ۔: الرجی مٹی کے مخصو ص نو عیت کے زرات جنہیں ہا ﺅس ڈسٹ ما ئٹ کہتے ہےں ان کی وجہ سے پھیلتی ہے جو خا ص طو ر پر مختلف ہیں۔
س :اس کے ارلی اور لا سٹ اسٹےجیزکےا ہیں؟
ڈاکٹرصاحب ۔: شرو ع میں بس چھینکیں آ تی ہے مثا ل کے طو ر پراگر کسی کو مٹی سے الرجی ہے اور اس نے بچاﺅ نہ کیا ان کی بیما ری خطر ناک حد اختےارکر جاتی ہے اگر اس پر شروع میں تو جہ نہ دی جائے تو ےہ آگے جا کر اےستھیما سویرٹی کو بڑ ھا تی ہے۔
س :آ ےا کیا پو لیو شن کی وجہ سے الرجی فروغ پا رہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: جی ہاں ، ےہ بہت بڑی وجہ ہے ہما رے ملک کا بڑھتا ہوا ٹریفک اوردھواں بیما ری کو فروغ دے رہا ہے آ خر ہم احتےاط کے علاوہ کر بھی کےا سکتے ہیں۔
س :اس کی بڑ ھتی ہو ئی وجو ہات۔
ڈاکٹرصاحب ۔: خا ص طو ر پر ہما ری ماحولیاتی آلو دگی اور کچھ خا ص نہیں،دیکھا جائے تو ہر ملک میں ہی یہ بیماری کسی نہ کسی طرح پھیل رہی ہے بس شکل اور وجوہات الگ ہے۔
س :الرجی ایک فرد سے دو سرے فرد کو منتقل ہوتی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: نہیں ، یہ لگنے اور فرد بہ فرد منتقل ہونے والی بیماری بلکل نہیں ہے،یہ جلدی الرجی سے خاصی مختلف ہے۔
س :یہ وہ بیماری ہے جو ہمارے ملک کی اکثریت میں پارہی ہے۔
ڈاکٹرصاحب ۔ :نہیں ،لیکن اس سے بچنا بھی نا ممکن نظر آتا ہے۔ہم گھر سے نکلنا چھوڑ تو نہیں سکتے،مٹی سے الرجی ہے تو صفائی کرنا چھوڑ ا تو نہیںجاسکتا ان ہی بے احتےاطیوںکی وجہ سے یہ فروغ پارہی ہے۔
س :کیا اس کا علاج بھی دوسری بیمارےوںکی طرح سہل ہے؟  
 ُڈاکٹرصاحب ۔ : کافی سستا اور مفید ہے ،پہلے کچھ ٹیٹسٹ کئیے جاتے ہیںاگر ایک ےا دو چیزوں سے الرجی ہوتو ویکسین بنا کر ا س سے علاج کیا جاتا ہے جسے’ ہا ئیپوسینٹائیزیشن‘ کہتے ہیں یہ علا ج بہت مفید ہے پر جن لوگوں کو زےادہ چیزوں سے ہو ان کے لئیے نہیں ۔
س :بچوں اور بوڑھوں میں اس کی کیا نوعےت ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: بچوں اور بوڑھوں میں اس کی نوعےت تقریباًایک جیسی ہے کیونکہ دونوں ہی میں قوتِ مدافعت کم ہوتی ہے،بوڑھے بھی بچوں کی طرح خود کو بیماری سے نہیں بچا سکتے۔
س :کیامو سمی اثرات بھی اس کے بڑھنے کی وجہ ہو سکتے ہیں؟
ڈاکٹرصاحب ۔: ہاں جب سرد ہوائیں چلتی ہیں تو وہ بھی الرجی کی خا ص وجہ بنتی ہیں۔
س :اس موضوع کو کم اجاگر کیا جاتا ہے جب کے ےہ بہت تیزی سے پھیل رہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ : ہمارے ملک کا المےہ ہے کہ جب تک پانی سر سے نہ گزر جائے ہم کسی چیز پر توجہ نہےں دیتے اگر کسی فرد کو الرجی ہوتی ہے تو وہ جب تک ڈاکٹر کا رُ خ نہیں کرتا جب تک سانس لینا محال نہ ہو جائے۔ اگر اس بیماری کوکنٹرول کرنا ہے توشروع میں ہی اس کا علاج کیا جائے مستقل دوایﺅ ں اور علاج سے لیکن ساتھ ساتھ احتےاط بھی لازمی ہے۔
س :کیا پودے بھی الرجی کی وجہ بن سکتے ہیں؟
ڈاکٹرصاحب ۔: جی ہاں،بہت زیادہ جن لوگوں کو پودوں سے الرجی ہوتی ہے تو پھر انھیں گھر سے پودوں کو دور کرنا پڑتا ہے،کبھی کبھی تو ہم گھر ےا شہر بھی تبدیل کرنے کا مشورہ دےتے ہیں۔
س :کو ئی خا ص نوعیت کی الرجی جو ہمارے علاقے سندھ سے تعلق رکھتی ہو؟
ڈاکٹرصاحب ۔: ’ڈسٹ الرجی ‘کیونکہ ہمارے یہاں مٹی اور صفائی پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے ویسے بھی ہمارا شہر پہاڑی علاقہ ہے تو ہوائیں بھی چلتی ہیں جومٹی اُڑنے کا سبب بنتی ہیںجس کی وجہ سے ہمارے علاقے میں سب سے زیادہ ڈسٹ الرجی پائی جاتی ہے۔
س: لوگوں میں اس بیماری کی اوئیرنیس۔
ڈاکٹرصاحب ۔ : کافی حد تک لوگ اس بیماری کو سمجھ گئے ہیں ،لگاتار آگاہی بھی ہو رہی ہے احتیاط بھی کرنے لگے ہیں
س:کیا یہ بیماری سرے سے ختم ہوسکتی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: اگرانسان میںکسی چیز کی حساسیت پیدا ہو جائے تو وہ ہمیشہ رہتی ہے اسے دوائیوں سے دبایا تو جاسکتا ہے پر ختم نہیں کیا جاسکتا اس سے دوری ہی اختیار کرنا آسان سا حل ہے ورنہ پھر یہ بیماری آگے جا کرسانس کی نوعیت اختیار کر لیتی ہے۔
س :کیا الرجی میں اینٹی بایو ٹکس یا عام ادوایات سے علاج ہوتا ہے یا اس کے لئیے خاص ادوایات کی ضرورت پڑ تی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ : اس کے لئیے خاص اینٹی الرجک سے علاج کیا جاتا ہے جنھیں سائنسی زبان میں ’اینٹی اسٹیمن ‘کہتے ہیں۔
س :کیا ڈاکٹر حضرات اپنا کردار اس بیماری کے خلا ف ادا کررہے ہیں کیونکہ عموماًدیکھنے میں آ یا ہے کہ دوائیاں مہنگی اور علاج طویل ہوتا ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ : ڈاکٹر حضرات مثبت طور پر اس بیماری کے خلاف اپناکردار اداکررہے ہیں جیسے پہلے سرجیکل آپریشن یعنی گوشت جلانے کی مشین کا خاصہ استعمال تھاپر دیکھئیں آجکل یہ بس رکھی رہتی ہے۔
مارکیٹ میں ایسے اسپرے اور نئی دوائیاں(اینٹی الرجک)آ گئی ہیںجس کی بدولت سرجیکل آپریشنز کی ضرورت نہیں پڑتی اور مریض کو ان دواﺅں اور اسپرے سے خا صہ آ رام آ جا تا ہے۔
س :اس بارے میں پاکستان میں دی جا نے والی تعلیم سے آپ مطمئن ہیں ؟
ڈاکٹرصاحب ۔: کافی حد تک۔
س :کیا پاکستانی لیول ہم جدید سا ئنسی تجربات سے مستفید ہورہے ہیں ؟
ڈاکٹرصاحب ۔: اس بارے میں بہت سے تجربات کئیے جارہے ہیںجس طرح یہ بیماری پھیل رہی ہے اس طرح تحقیقات بھی ہورہی ہیں۔
س :کیا آپ ماس میڈیا کے کرد ار سے مطمئن ہیں کہ وہ لو گوں میں آگاہی پیدا کررہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ : یہ مسئلہ تو بہت چھوٹا سا ہے پھربھی ماس میڈیا اپنا پورا کردار ادا کر رہی ہے۔مختلف چینلز،مارننگ شوزاور میگزینز سب اپنے اپنے طور پر حق ادا کر رہے ہیں۔
س :کےا حکومت اس قسم کی بیماری کے سدِباب کے لیئے کوئی عملی اقدامات کررہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: اسلام آباد میں جب شہتوت کا موسم آتا ہے تووہاں اس کے با ریک زراّت جنہیں ’پولینز‘کہتے ہیں۔جن کی وجہ سے الرجی والے افراد کو کا فی مسئلہ ہوتا ہے توباقاعدہ ٹی وی پر بتایا جاتا ہے کہ ان دنوں ایسے لوگ احتےاط کریں کم سے کم گھر سے باہر نکلیں۔
س :اسٹوڈنٹس اور آﺅٹ ڈور کام کرنے والے اس سے کس طرح بچ سکتے ہیں؟
ڈاکٹرصاحب ۔:اگر آپ کو زرہ بھی ڈسٹ الرجی یاپولیوشنالرجی ہے توماسک استعمال میںلیںبس احتیا ط ہی کر کے آپ ناگزیر حالات سے بچ سکتے ہیں۔ا

 Written by Sehrish Syed Roll No 60
This practical work was arried in MA prev Mass Comm Sindh University, Jamshoro

لباس انسان کی پہچان

سحرش سیّد۰
ایماے پریویس
آرٹیکل
’لباس انسان کی پہچان بن کررہ گےا ہے‘
دنےا میں وجودِآدم سے ہی لباس کی اہمےت وافادےت معٰنی رکھتی ہے لباس کی تاریخی اہمےت کا اندازہ لگانا نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن سی بات ہے۔ 
تارےخ دانوں کے مطابق۰۰۰۰۳بیسی قبل ہڈےوں سے سوئی بنا کر کپڑے تیار کیے جاتے تھےاس سے اس بات کا اندازہ لگاےا جا سکتا ہے کہ کپڑوں کواپنی سہولت کے مطابق ڈھالنے کا کام کتنا پرانا ہےموجودہ دور میںلباس اپنی مختلف ارتقاءسے گزر چکا ہے لبا س پہلے اپنے جسم کو ڈاھنپنے اورماحول سے بچنے کے لئیے استعمال کیاجاتاتھاپر اب وقت کے ساتھ ساتھ مختلف مراحل سے گزرنے کے بعداس نے اپنی افادیت میںپہلے سے کئی گناہ اضافہ کر لیا ہے۔
ابتدائی دنوں میںکپڑے پہننے والے کو آرام و اطمینان پہچا نے کے لئیے استعمال ہوتے تھے © © ©جےسے سردی میںموسم کی تیزی اور ٹھنڈ سے بچنے کے لئیے لوگ زےادہ سے زےادہ کپڑے استعمال میںلےتے ہیںاور گرمی میںسورج کی تپش سے بچنے کے لئیے اور گرم ہواﺅںسے خود کو محفوظ کرنے کے لئیے کپڑوںکا استعمال کرتے ہیںلیکن سردی میں کپڑوں کا زےادہ استعمال کیا جاتا ہےجےسے کوٹ،دستانے،موزے اور بہت سی ایسی چیزیںجنھیں ہم زیادہ تر گھر سے باہر ہی استعمال میں لیتے ہیں
اس پر نہ صرف علاقے ،رہن سہن،ثقافت اورتہذیب نے اپنا اثر ڈالا ہے بلکہ موجودہ دور میںلباس نے ایک مخصوص صورت اختیار کرلی ہے پہلے لباس صرف کسی علاقے کی ترجمانی کرتا تھاپر اب لباس کی ثقافتی حیثیت میں آہستہ آہستہ کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔
لیکن پھر بھی لباس اپناثقافتی اور سماجی کرداربھی ادا کر رہا ہےجیسے ہر علاقے میں کام کی نوعےت اور مرد اور عورت کے فرق کو بھی ظاہر کرتا ہے جو کہ مغرب میںاب نہ ہو نے کے برابر ہے اور ہم بھی وقت کے ساتھ ساتھ کھو رہے ہیں۔
مغربی دنیا میںلباس نے اپنی ثقافتی حیثےت نہ صرف کھو دی ہے بلکہ صرف اور صرف فیشن تک محدود ہو کر رہ گیا ہے لیکن ہمارے معاشرے میںلباس کی چند ثقافتی خصوصیات اب بھی باقی ہے لوگ جدت کے ساتھ ساتھ ثقافتی رنگ کو بھی اپنے پہناوے میں نہ صرف دیکھنا پسند کرتے ہیںبلکہ شوق سے ثقافت اورجدت کے امتزاج کو اپنا رہے ہیں۔
لباس ہماری حفاظت کرتا ہے بہت سی ایسی بیرونی چیزوںسے جوہمارے جسم کو نقصان پہنچا سکتی ہے جیسے بارشیں ،برف باری اور تیز ہوائیں،اسی طرح سماجی برائیوں سے بھی روکتا ہے جسم کے جس حصے کو اسلام میں ڈانپنے کا حکم ہے لباس سے ہی ہم اسے ڈانپتے ہیںلباس ہی مرد عورت کے فرق کو واضح کرتا ہے جس طر ح ہمارے مذہب میں پردے کا حکم۔
پہلے لباس انسان اپنی ضرورت کے تحت استعمال کرتا تھاپر اب
’لباس انسان کی پہچان بن کے رہ گےا ہے‘
لباس ہمارے عہدے ،کردار اور حیثیت کو بھی ظاہر کر تا ہے جیسے اگر کوئی شخص خوش لباس ہو تو ہم اس کو دیکھتے ہی اسکا اچھا خاکہ بنالیتے ہیں۔
اسلامی نکتہءنظر سے بھی لبا س کی بڑی اہمیت ہے جسے ہم نے خود بھی متعین کیا ہوا ہے اگر نماز کے لئیے کسی کو مسجد جانا ہے تو اس کی اوّلین ترجیح یہ ہوگی کہ وہ شرعی لباس ذیب تن کرے اور اسی طرح دوسرے مذاہب میں بھی لوگ لباس کا اہتمام کرتے ہیںاسی طرح جنگی لباس،کھلاڑیوں کے لباس اور تعلیمی اداروں میں یونیوفارم ہوتے ہیںتاکہ وہ یکجاں لگے اور ان کا مالی فرق نہ معلوم ہو۔
لباس کی دنیا ہمیشہ بدلتی رہتی ہے،جیسے نئی ثقافتی تبدیلیاں اور نئی ایجادات جسے فیشن کا نام دےا جاتا ہے لباس میں وقت کے ساتھ ساتھ جتنی بھی تبدیلیاںیا جدت آتی جائے لباس اپنی سماجی اور انسانی قدر نہیںکھو سکتا کیونکہ انسان ہو نے کے ناتے لباس کی اپنی اہمیت اور افا دےت ہے جسے کوئی فیشن یا معاشرہ تبدیل نہیں کرسکتا۔
This practical work was carried by Sehrish Syed MA prev, in 2012, Mass Comm, under supervision of Sir Sohail Sangi

میرا بھی ایک ووٹ ہے

سحرش سید ۰۶
ایم۔اے پاس
تیسرے اشارے کے لیئے
میرا بھی ایک ووٹ ہے

ہمارا ملک دن بدن باایمانی،نہ انصافی،غربت،افلاساور جس کی لاٹھی اس کی بھینس جیسے مسائل میں گھرا ہوا ہےہر کوئی اپنی کھینچو اپنی اوڑھو میں لگا ہوا ہےکسی کو کسی کی پرواہ نہیں مطلب جب اپنا کام نکل رہا ہے تو کیوں کچھ کریں جیسا چل رہا ہے چلنے دو جب دوسرے کچھ نہیں کرے تو ہم کیوں کریں؟
اتنی لمبی تمہید بانھنے کا مطلب اتنا سا ہے کہ ہم اپنا فرض اور حق ہوتے ہوئے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ ایک میرے کرنے سے کیا ہوگا اس بات کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب مجھ سے میرے ساتھی نے پوچھا ووٹ کس کو دوگے میں اک دم گڑبڑا کر رہ گئی کیوں؟ اس لیئے کے میں اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں اپنی اتنی بڑی زاقت کہ بالائے طاق رکھ کرہم صرف اور صرف مسائل گنوانے اور ان کا رونے میں لگے رہتے ہیں۔
 جب سو میں سے ایک نکال دو سو نننانوے ہوجاتے ہیں تو ایک ایک مل کر سب متحد ہو کر کیوں کر ہر برائی کو اچھا ئی میں تبدیل نہیں کرسکتے۔مسلمان ہونے کے ناتے بھی ہمیں یہ درس دیا جاتا ہے کہ اتحاد میں برکت ہے لیکن اس کے لیئے بھی ہم میں سے کسی ایک کو پہلا قدم اٹھا نا پڑ یگا اگر ہر ایک اپنی ذمہ داری پوری کرے توگھر کیا ،شہر کیا،ملک کیا،پوری دنیا کو فتح کیا جاسکتا ہے۔
 گرتے ہیںشہسوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ قفل کیا لڑے جو گھٹنوں کے بل چلے 
یہ ایک ووٹ جو ایک حق کے ساتھ ساتھ ہمارا اولین فرض بھی ہے ہمیں چاہیئے کہ ہم اسے اپنی پوری ایمانداری کے ساتھ استعمال میں لائے ووٹ کس کو دینا ہے یا نہیں دینا ہے اس کا فیصلہ آج کل کے دور میں کوئی نہیں کر پارہا الیکشن سے مہلے تو ہر ایک اچھا لیڈر اور اہمارا خیر خواہ ہی لگ رہا ہوتا اتنی رنگینیاںاور پالشیڈ سپنے دکھائے جاتے ہیںکہ ہر کوئی ووٹ کا حقدار لگ رہا ہوتا ہے
 گھوم پھر کر میرا ذہن پھر وہیں اٹک جاتا ہے ووٹ دوں تو دوں کس کو یہ ہمارا حق سے ز یادہ فرض ہے کیونکہ قطرہ قطرہ ہی دریا بنتا ہے۔اچھا لیڈر نہیں،ہمارالیڈر نہیں،یا کوئی اچھا ہی نہیں سو اس کا آ سان حل ہماری قوم یہ نکالتی ہے کہ کسی کو ووٹ ہی نہ دیا جائے اپنے اس حق سے محروم ہو کر ہم اندھے بہرے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
 دنیا کو اگر چھوڑ بھی دیا جائے تو ہمارا دین بھی ہمیںیہی کہتا ہے کہ حق کا ساتھ دیاجائے حق آ کر رہے گا اور باطل مٹنے کے لیئے ہی ہے ہمارے مذہب میں بھی برائی کے خلاف آواز نہ اٹھانے والا بھی برا ئی کا مر تقی ہے ، اچھائی کا ساتھ دینے کا حکم دیا گیا ہے پر ہم اپنے دین کو بالا ئے طاق رکھ کر اپنے ہی اصو لو ں پر کار بند ہیں ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظلم ہے تو ہم میں سے بہت سے یہی کہےنگے کہ ہم ووٹ ہی نہیں دیتے ،برا ئی کے خلاف اول ترین جہاد اس کے خلاف قدم اٹھانا ہے ، اس سے کم تر اسے برا کہنا ہے،اور آخری اسے صرف اور صرف اسے دل میں کہنا تو ہم سب اپنا اولین فرض کیو نکر ادا نہیں کرتے۔۔۔
 اگر عام فہم الفا ظ میں کہا جائے تو ہم پاتستا نی اب تک گہری نیند سو رے ہیں ،آ خر کب تک سو تے رہینگے کوئی آکر ہمیں ہمیشہ کے لیئے نہیں سلا دیتا۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کوخیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
 اس تگ وپیش کے بعد میں اس مقا م پر پہنچی ہوں کہ ایک با شعور اورشہری ہونے کہ ناتے مجھے اپنا ووٹ ضرور دینا چاہیے چاھے میرا منتخب کردہ امیدوار کامیاب ہو کہ نہیں پر مجھے اپنے فرض سے منہ نہیں موڑنا۔
 یقینا میں نے آپ کا قیمتی وقت لیا پر کیا کرتی کچھ نہ کچھ تو لکھنا تھا تو میںاپنا موقف آپ کے سامنے واضح کرچکی اب دیکھنا یہ ہے کہ 


 Written by Sehrish Syed Roll No 60
This practical work was arried in MA prev Mass Comm Sindh University, Jamshoro