Pages

Showing posts with label Sehrish. Show all posts
Showing posts with label Sehrish. Show all posts

Monday, 23 September 2013

زندگی اور ماحولیاتی الرجی

روزمرہ کی زندگی اور ماحولیاتی الرجی
جس طرح یہ دنیا ترقی کر رہی ہے ساتھ ساتھ اس کے مسائل بھی ترقی کرر ہے ہیںجدہر نظر دوڑائیں ہر کوئی مسائل میں گہرہ نظرآتا ہے۔اس ہی وجہ سے لوگوں نے عام ےا چھوٹی موٹی بیماریوں کی طرف دھیان دیناچھوڑدیا ہے۔
جس کی وجہ سے یہ بیماریاں خطرناک نوعیت اختیار کر لےتی ہیںجس طرح استھیمہ یا سانس کی بیماریاںبھی عام دیکھنے میں آتی ہیں جو کہ دےکھنے اور سننے میں تو مسا وی نوعیت کی بیماریہے لیکن اگر اس میںاحتےاط نہ کی جائے تو وہ انسان کو مفلوج بنا کر رکھ دیتی ہے۔
اسی لئیے اس انٹرویو کی مدد سے اس قسم کی بیماریوں کو سمجھنے کے لیئے اک چھوٹی سی کاوش کی گئی ہے۔ 
نام:ڈاکٹر شفیع شیخ
تعلیم ©:ایم بی بی ایس،ڈی ایل او ۔۔۔ ایف سی پی ایس(اسپیشلائیزیشن)
 ٓ ڈاکٹر شفیع شیخ پچیس سال سے اس مسیحائی شعبے سے وا بستہ ہیں۔ڈاکٹرصاحب کے والد بھی ڈ اکٹر تھے پر یہ اس شعبے میں حادثاتی طور پر آئے کارڈیو لو جسٹ بننا چاہتا تھے۔ 
س :ڈاکٹرصاحب الر جی کیا ہے؟
 ڈاکٹرصاحب ۔ کو ئی بھی فورا ًچیزریئیکشن کرتی ہے وہ الرجی کہلاتی ہے یہ کسی بھی چیز سے ہوسکتی ہے الرجی دو طرح ہوتی ہے۔کھا نے کے ذریعے مثال کے طور پرکچھ لوگوں کوکےلے سے،کچھ کو انڈے سے،کچھ کو چاول سے،اور کچھ کو مچھلی اور گائے کے گوشت سے۔اسی طر ح سا نس کے ذریعے یا ناک سے کچھ لوگوں کو مٹی سے،ہوا سے،پودوں سے،سگریٹ سے ،ہر قسم کے دھو ائیں سے،خوشبو ﺅں سے،پودوںسے،اور کچھ کو پردوں اور کا رپٹ سے حتی کہ اس بیماری کی کوئی خاص وجہ نہیں ہو تی یہ ما حولیاتی تبدیلی سے لے کر قوت © مدافعت کی کمی سے بھی الرجی ہو سکتی ہے۔
َِِِِِِِِِ ¿ µ µس آیا ےہ ایک ہی بیما ری ہے ےا مختلف بیماریوں کے نام۔
 ڈاکٹرصاحب ۔ ایک ہی بیماری ہے لوگوں میں مختلف نوعیت سے پا ئی جاتی ہے ای این ٹی کے لحا ظ سے اصل میں سا نس کے راستے ہی ہو تی ہے۔
س ©:کیالرجی ایک وبہ کی طرح پھیل رہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ :نہیں،بلکل نہیںلیکن ہماری ما حولیاتی آلودگی کی وجہ سے جلد پھیل رہی ہے۔
س :الرجی دوسری بیماریوں سے کس طرح مختلف ہے۔
ڈاکٹرصاحب ۔: الرجی مٹی کے مخصو ص نو عیت کے زرات جنہیں ہا ﺅس ڈسٹ ما ئٹ کہتے ہےں ان کی وجہ سے پھیلتی ہے جو خا ص طو ر پر مختلف ہیں۔
س :اس کے ارلی اور لا سٹ اسٹےجیزکےا ہیں؟
ڈاکٹرصاحب ۔: شرو ع میں بس چھینکیں آ تی ہے مثا ل کے طو ر پراگر کسی کو مٹی سے الرجی ہے اور اس نے بچاﺅ نہ کیا ان کی بیما ری خطر ناک حد اختےارکر جاتی ہے اگر اس پر شروع میں تو جہ نہ دی جائے تو ےہ آگے جا کر اےستھیما سویرٹی کو بڑ ھا تی ہے۔
س :آ ےا کیا پو لیو شن کی وجہ سے الرجی فروغ پا رہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: جی ہاں ، ےہ بہت بڑی وجہ ہے ہما رے ملک کا بڑھتا ہوا ٹریفک اوردھواں بیما ری کو فروغ دے رہا ہے آ خر ہم احتےاط کے علاوہ کر بھی کےا سکتے ہیں۔
س :اس کی بڑ ھتی ہو ئی وجو ہات۔
ڈاکٹرصاحب ۔: خا ص طو ر پر ہما ری ماحولیاتی آلو دگی اور کچھ خا ص نہیں،دیکھا جائے تو ہر ملک میں ہی یہ بیماری کسی نہ کسی طرح پھیل رہی ہے بس شکل اور وجوہات الگ ہے۔
س :الرجی ایک فرد سے دو سرے فرد کو منتقل ہوتی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: نہیں ، یہ لگنے اور فرد بہ فرد منتقل ہونے والی بیماری بلکل نہیں ہے،یہ جلدی الرجی سے خاصی مختلف ہے۔
س :یہ وہ بیماری ہے جو ہمارے ملک کی اکثریت میں پارہی ہے۔
ڈاکٹرصاحب ۔ :نہیں ،لیکن اس سے بچنا بھی نا ممکن نظر آتا ہے۔ہم گھر سے نکلنا چھوڑ تو نہیں سکتے،مٹی سے الرجی ہے تو صفائی کرنا چھوڑ ا تو نہیںجاسکتا ان ہی بے احتےاطیوںکی وجہ سے یہ فروغ پارہی ہے۔
س :کیا اس کا علاج بھی دوسری بیمارےوںکی طرح سہل ہے؟  
 ُڈاکٹرصاحب ۔ : کافی سستا اور مفید ہے ،پہلے کچھ ٹیٹسٹ کئیے جاتے ہیںاگر ایک ےا دو چیزوں سے الرجی ہوتو ویکسین بنا کر ا س سے علاج کیا جاتا ہے جسے’ ہا ئیپوسینٹائیزیشن‘ کہتے ہیں یہ علا ج بہت مفید ہے پر جن لوگوں کو زےادہ چیزوں سے ہو ان کے لئیے نہیں ۔
س :بچوں اور بوڑھوں میں اس کی کیا نوعےت ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: بچوں اور بوڑھوں میں اس کی نوعےت تقریباًایک جیسی ہے کیونکہ دونوں ہی میں قوتِ مدافعت کم ہوتی ہے،بوڑھے بھی بچوں کی طرح خود کو بیماری سے نہیں بچا سکتے۔
س :کیامو سمی اثرات بھی اس کے بڑھنے کی وجہ ہو سکتے ہیں؟
ڈاکٹرصاحب ۔: ہاں جب سرد ہوائیں چلتی ہیں تو وہ بھی الرجی کی خا ص وجہ بنتی ہیں۔
س :اس موضوع کو کم اجاگر کیا جاتا ہے جب کے ےہ بہت تیزی سے پھیل رہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ : ہمارے ملک کا المےہ ہے کہ جب تک پانی سر سے نہ گزر جائے ہم کسی چیز پر توجہ نہےں دیتے اگر کسی فرد کو الرجی ہوتی ہے تو وہ جب تک ڈاکٹر کا رُ خ نہیں کرتا جب تک سانس لینا محال نہ ہو جائے۔ اگر اس بیماری کوکنٹرول کرنا ہے توشروع میں ہی اس کا علاج کیا جائے مستقل دوایﺅ ں اور علاج سے لیکن ساتھ ساتھ احتےاط بھی لازمی ہے۔
س :کیا پودے بھی الرجی کی وجہ بن سکتے ہیں؟
ڈاکٹرصاحب ۔: جی ہاں،بہت زیادہ جن لوگوں کو پودوں سے الرجی ہوتی ہے تو پھر انھیں گھر سے پودوں کو دور کرنا پڑتا ہے،کبھی کبھی تو ہم گھر ےا شہر بھی تبدیل کرنے کا مشورہ دےتے ہیں۔
س :کو ئی خا ص نوعیت کی الرجی جو ہمارے علاقے سندھ سے تعلق رکھتی ہو؟
ڈاکٹرصاحب ۔: ’ڈسٹ الرجی ‘کیونکہ ہمارے یہاں مٹی اور صفائی پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے ویسے بھی ہمارا شہر پہاڑی علاقہ ہے تو ہوائیں بھی چلتی ہیں جومٹی اُڑنے کا سبب بنتی ہیںجس کی وجہ سے ہمارے علاقے میں سب سے زیادہ ڈسٹ الرجی پائی جاتی ہے۔
س: لوگوں میں اس بیماری کی اوئیرنیس۔
ڈاکٹرصاحب ۔ : کافی حد تک لوگ اس بیماری کو سمجھ گئے ہیں ،لگاتار آگاہی بھی ہو رہی ہے احتیاط بھی کرنے لگے ہیں
س:کیا یہ بیماری سرے سے ختم ہوسکتی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: اگرانسان میںکسی چیز کی حساسیت پیدا ہو جائے تو وہ ہمیشہ رہتی ہے اسے دوائیوں سے دبایا تو جاسکتا ہے پر ختم نہیں کیا جاسکتا اس سے دوری ہی اختیار کرنا آسان سا حل ہے ورنہ پھر یہ بیماری آگے جا کرسانس کی نوعیت اختیار کر لیتی ہے۔
س :کیا الرجی میں اینٹی بایو ٹکس یا عام ادوایات سے علاج ہوتا ہے یا اس کے لئیے خاص ادوایات کی ضرورت پڑ تی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ : اس کے لئیے خاص اینٹی الرجک سے علاج کیا جاتا ہے جنھیں سائنسی زبان میں ’اینٹی اسٹیمن ‘کہتے ہیں۔
س :کیا ڈاکٹر حضرات اپنا کردار اس بیماری کے خلا ف ادا کررہے ہیں کیونکہ عموماًدیکھنے میں آ یا ہے کہ دوائیاں مہنگی اور علاج طویل ہوتا ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ : ڈاکٹر حضرات مثبت طور پر اس بیماری کے خلاف اپناکردار اداکررہے ہیں جیسے پہلے سرجیکل آپریشن یعنی گوشت جلانے کی مشین کا خاصہ استعمال تھاپر دیکھئیں آجکل یہ بس رکھی رہتی ہے۔
مارکیٹ میں ایسے اسپرے اور نئی دوائیاں(اینٹی الرجک)آ گئی ہیںجس کی بدولت سرجیکل آپریشنز کی ضرورت نہیں پڑتی اور مریض کو ان دواﺅں اور اسپرے سے خا صہ آ رام آ جا تا ہے۔
س :اس بارے میں پاکستان میں دی جا نے والی تعلیم سے آپ مطمئن ہیں ؟
ڈاکٹرصاحب ۔: کافی حد تک۔
س :کیا پاکستانی لیول ہم جدید سا ئنسی تجربات سے مستفید ہورہے ہیں ؟
ڈاکٹرصاحب ۔: اس بارے میں بہت سے تجربات کئیے جارہے ہیںجس طرح یہ بیماری پھیل رہی ہے اس طرح تحقیقات بھی ہورہی ہیں۔
س :کیا آپ ماس میڈیا کے کرد ار سے مطمئن ہیں کہ وہ لو گوں میں آگاہی پیدا کررہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ : یہ مسئلہ تو بہت چھوٹا سا ہے پھربھی ماس میڈیا اپنا پورا کردار ادا کر رہی ہے۔مختلف چینلز،مارننگ شوزاور میگزینز سب اپنے اپنے طور پر حق ادا کر رہے ہیں۔
س :کےا حکومت اس قسم کی بیماری کے سدِباب کے لیئے کوئی عملی اقدامات کررہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: اسلام آباد میں جب شہتوت کا موسم آتا ہے تووہاں اس کے با ریک زراّت جنہیں ’پولینز‘کہتے ہیں۔جن کی وجہ سے الرجی والے افراد کو کا فی مسئلہ ہوتا ہے توباقاعدہ ٹی وی پر بتایا جاتا ہے کہ ان دنوں ایسے لوگ احتےاط کریں کم سے کم گھر سے باہر نکلیں۔
س :اسٹوڈنٹس اور آﺅٹ ڈور کام کرنے والے اس سے کس طرح بچ سکتے ہیں؟
ڈاکٹرصاحب ۔:اگر آپ کو زرہ بھی ڈسٹ الرجی یاپولیوشنالرجی ہے توماسک استعمال میںلیںبس احتیا ط ہی کر کے آپ ناگزیر حالات سے بچ سکتے ہیں۔ا

 Written by Sehrish Syed Roll No 60
This practical work was arried in MA prev Mass Comm Sindh University, Jamshoro

خوشبو

خوشبو
خوشبو ایک احساس ہے جو انسانی روح کو معطر اور سکون فراہم کرتی ہے۔خوشبو لفظ دواسم سے مل کر و جو د پذیر ہو اہے۔ خوش بو یعنی وہ بو جو خوشی فراہم کرے یقینی طور پر دیکھا جائے تو ایسا ہی ہے کہ انسان کسی بھی خوشبو سے دلی طور پر خوشی کا احساس محسوس کرتا ہے خوشبو کا استعمال کب اور کہاں کیا جانے لگا اس بارے میں مختلف آراءجومود ہے ۔ اگر موجودہ معاشرے کو دیکھا جائے تو جل فول لفظ ملک پیر س کا خیال کی ذہن میں آتا ہے ۔جہاں دنیا کی بہترین خوشبوو ¿ں کا شہر ہے دنیا کی مہنگی ترین خوشبو بھی یہی ایجاد کی جاتی ہے جن میں سے Live Chirstine & Jar Perfume Paris جو اپنی ثانی نہیں رکھتی ، خوشبو نہ صرف انسان کی ذہنیت بڑھاتی ہے بلکہ اس میں پاکیزگی کا وہ عنصر شامل ہے جو کہ ہر جاذب نظر انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور یہ راہ سے گزرنے والے یہ شخص کے لیے ایک احساس چھوڑی جاتی ہے کہ وہ اس سے محزوز ہو ئے بغیر نہیں رہ سکتا اور یہ کہا جائے تو کم نہ ہو گا کہ خوشبو نہ صرف اپنا وجود رکھتی ہے بلکہ ہ ردوسرے وجود کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔
خوشبو کا استعمال مختلف طریقوں اور اقسام میں کیا جاتا ہے اس کا تعلق صرف عطر یا پر فیوم تک محیط نہیں بلکہ انسان کے بہت سے عوامل میں اس کی بہت بڑی حیثیت ہے۔
بولنے میں دیکھا جائے تو ماو ¿تھ فریشنر ، ماحول کی بات کی جائے تو ایئر فریشنر کپڑوں کی بات ہو تو کلونز جسم کی بات ہو تو باڈی اسپرے ، کھانے کی بات ہو تو الائیچی ، ہر ادھنیا ، جائیفل ، خوشی کی بات ہو تو پھول اور اگر غم یا موت کی بات ہو تو کا فوریا قیمتی خوشبو دار لکٹری ساگو ان گو کہ کوئی بھی خوشبو کی اہمیت کو ذرہ بھی کم نہیں کرسکتے۔
بھوک میں اٹھتی ہوئی کھانے کی بو انسان کی لذت کے عنصر کو مزید بڑھادیتی ہے ۔ کپڑے یا جسم سے آنے والی خوشبو انسان کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتی ہے ماحول سے آنے والی خوشبو انسان کو دوستی اور اپنائیت کا احساس دلاتی ہے حتی کہ انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک انسان کا خوشبو سے بہت گہر ا تعلق ہے خوشبو صرف عطر یا لیکوڈ مادے کا نام نہیں بلکہ خوشبو وہ عنصر ہے جوکہ انسان اپنی ماں اور اپنے چاہنے والوں میں محسوس کرتا ہے گو کہ انسان میں سے سونگھنے کی اتنی تیز نہیں مگر پھر بھی وہ مختلف بوو ¿ں میں تفریق کر سکتا ہے۔
اللہ نے اپنی دوسرے مخلوقات میں شاید ان کو سونگھنے کی ہم سے بہتر حسن عطا کی ہے جس طرح جانور مختلف بوو ¿ںکو سونگھنے ہیں ہو ئے میلوں کا سفر طے کر لیتے ہیںاور اس مقام پر خوش اسلوبی سے پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں موضوع انسان اور جانور کی حسن کا مقابلہ کرنے کی نہیں بلکہ ہم خوشبو کی اہمیت اور قدر قیمت پر بات کر رہی ہے۔
پیرس جو کہ اس دور میں خوشبو و ¿ں کا شہر کہا جاتاہے زمانہ جہالت میں یہ لو گ مہینوں نہیں نہاتے تھے اور اپنے جسم سے اٹھنے والی بو کو دبانے کیلئے انھوںنے مختلف خوشبوو ¿ںکا استعمال شروع کیا اور اگر اسلامی تاریخ کا مشاہدہ کیا جائے بلاشبہ پہلا خیال اسی شخصیت کا آتا ہے جو آخر الزماں ہیں آپ ﷺ نے نہ صرف پاکیزگی اور طہارت کو مذہت کانصف حصہ قرار دیا بلکہ آپ اُس ذات پاک کا ایک بہترین حصہ ہے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ کے جسم مبارک سے جاری ہونے والے پسینہ مبارک اکھٹا کرکے اسے اس زمانے کے لوگ اسے عطر کے طور پر جما کر کے خوشبو کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ آپ سے مصاحفہ کر نے والے صحابی آپ کے جسم سے آنے والی خوشبو اک عرصے رہتی تھی۔
گو کہ ہمارے معاشرے میں بھی خوشبو کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی طور پر بھی کسی دوسرے معاشرے سے کم نہیں اور ہم عطر اور مختلف خوشبو جات کا استعمال نہ صرف اس صدی میں کر رہے ہیں بلکہ شاید یہ کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ انسان اپنے وجود میں آنے سے ہی خوشبو کے عنصر سے محذوز ہو رہا ہے بلکہ خوشبو کی اہمیت کو بخوبی جانتا ہے۔
ذہنی ہو یا جسمانی ، مادی ہو یا روحانی خوشبو کے مقام کو کسی پیمائش سے ناپنا اب تک آسا ن نہیں۔
پھول کو شایداپنی خوشبو سے ہی پذیرائی حاصل ہے ورنہ گلاب کا مقام بادشاہوں سانہ ہوتا۔
تمام استعمال میں آنے والے خوشبو مختلف عناصر میں پائی جاتی ہے۔ اور یہی مختلف عناصر انسان کو دوسرے سے مختلف بناتے ہیں۔
خوشبو انسان کے کردار کا آئینہ ہوتی ہے کہ جو کہ سامنے والے کو اسکی شخصیت سے متعارف کراتی ہے گو کہ آپکے کیے ہوئے لفظوں سے سامنے آنے والا آپ سے متعارف ہو چکا ہو تا ہے۔
ماحول سے پیدا ہو نے والی خوشبو آپ کو اس ماحول سے ایسی آشنائی دیتی ہے کہ آپ اس بات کا اندازہ با خوبی لگا سکتے ہیں کہ اس مقام پر ہونے والے عمل کی کیفیات کیا ہے۔
کارخانے یا کسی مخصوص چیز کی دکان سے آنے والی خوشبو، مسجد یا عباد ت گاہ سے اٹھی ہوئی خوشبو اپنا ایک علیحدہ وجود رکھتی ہے۔
بارش میں زمین اٹھتی ہوئی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو میرے اور اندھے انسان کو بھی بنا ھیگے ہی بارش کا وہی احساس وہی ہے جو کہ تمام احساس رکھنے والے کو محسوس ہوتا ہے۔
گو کہ انسان معاشرے میں خوشبو کی قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خوشبو طہارت کا پہلا احساس ہے جو کہ اس پاکیزہ شخص میں سے آتی ہے جو ک اپنا مقام انسانیت کی معراج پر پاتا ہے غالباً دنیا کے تمام افراد ایسے شخص سے ضرور ملنا پسند کرتے ہیں جن کے وجود سے آنے والی خوشبو ان کے وجود کو اپنی طرف مائل کرتا ہوا پانی ہے۔
یہ خود کار لمحے جس میں انسان بذات خود تو کوئی عمل نہیں کر رہا ہوتا بلکہ سامنے والے کی روح سے اٹھتی ہوئی خوشبو اس کو اپنی طرف مائل کر رہی ہوتی ہے جس کا بہترین نمونہ آپ ﷺ کے بعد ہماری ماں اور تمام بزرگانِ دین شخصیات ہیں ۔

 Written by Sehrish Syed Roll No 60
This practical work was arried in MA prev Mass Comm Sindh University, Jamshoro

حکومت ،الیکشن اور ووٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

حکومت ،الیکشن اور ووٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
     اگلی حکومت کس کی ہے ےہ طے کرنا تو عوام کا کام ہی ہے لیکن کیا واقعی حکو مت عوام کی مر ضی کے مطابق ہوگی؟الیکشن جو عوام کی مرضی جاننے کے لیے کروائے جا رہے ہیں ۔کہا جا رہا ہے کہ نئی حکومت انقلاب لائے گی ۔انقلاب ،تبدیلی یہ الفاظ بہت کھوکھلے اور بے معنی ہیں کیونکہ ہمارے ےہان وعدے تو بہت بڑے بڑے کیے جاتے ہیں لیکن ہوتا کچھ نہیں۔ ہر بار عوام پر’ امید ہوتی ہے اور ہر بار امید توڑتی ہے ۔کیا یہ انقلاب ملک کے بگڑتے ہوئے حالات کا بہتر کر سکے گا ملک میں پھیلی بدامنی،لوٹ مار اور بگڑتے ہوئے حالات کو ٹھیک کر سکے گا لیکن ایسا ہونا مشکل ہی نہیں نا ممکن نظر آتا ہے کیونکہ جب سے پاکستان بنا ہے الیکشن بھی ہوتے رہے ہیں اور حکومتیں بھی بنتی رہی ہیں مگر تاریخ گواہ ہے کہ کسی حکومت نے بھی اس ملک کی حالت بدلنے اور ملک میں درپیش مسائل کو حل کرنے کی سرے سے کو شش ہی نہیں کی ورنہ پاکستان کا حال یہ نہ ہوتا ۔ملک کے گنے چنے لوگ جو جو حکومت کرنے کے لیے الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں وہ ہر بار وہ ہی وعدے کرتے ہیں جہ وہ پہلے کر چکے ہوتے ہیں لیکن ان وعدوں کو پورا کرنا وہ بھول جاتے ہیںکیونکہ ان کو تو کرسی چاہیے وہ تو مل گئی پھر وعدوں کا کیا ! 
ہماری عوام بھی تو کتنی بھولی بھالی ہے جو بار بار انھیں لوگوں کو منتخب کرتی ہے ۔عوام کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو واقعی حکومت کرنے کے اہل ہوںاور ملکی معاملات کو ایمانداری اور احسن طریوے سے نبھا سکے ۔
ووٹ انقلاب لانے کا اہم ذریعہ ہے ۔اور ووٹ کی حیثیت امیدوار کے بارے میں گواہی کی سی ہے ۔چونکہ ووٹر جس کو ووٹ دے رہا ہے وہ دراصل اس امیدوار کے بارے میں گواہی دے رہا ہے کہ واقعی یہ شخص ملک میں انقلاب لائے گا اس لیے ووٹ اس کو دیا جائے جو اس کا صحیح حقدار ہے۔ محض ذاتی تعلقات کی بنا پر جھوٹ پر مبنی ووٹ دینا جائز نہیں
غلط آدمی کو ووٹ دینا بد دیانتی بد ترین صورت ہے۔ اس لیے ہمیں بھی اپنا قیمتی ووٹ ڈالتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم جس کو ووٹ دے رہے ہیں وہ کس قدر قابل شخص ہے ۔اگر ہم ایسے کو ووٹ دیں جو واقعی ایماندار ہو تو اس بات کی ہمیں خود بھی خوشی ہو گی کہ ہمارا ووٹ ضائع نہیں گیا اور اگر ہم نے کسی ایسے آدمی کو ووٹ دیا جو ایماندار بھی نہیںتو اس کا حساب اللہ کو ہمیں بھی دینا ہوگا کیونکہ اس کی طرف سے جتنے بھی غلط کام اس میں ہم برابر کے شریک ہونگے۔

 Written by Sehrish Syed Roll No 60
This practical work was carried in MA prev Mass Comm Sindh University, Jamshoro

میرا بھی ایک ووٹ ہے

سحرش سید ۰۶
ایم۔اے پاس
تیسرے اشارے کے لیئے
میرا بھی ایک ووٹ ہے

ہمارا ملک دن بدن باایمانی،نہ انصافی،غربت،افلاساور جس کی لاٹھی اس کی بھینس جیسے مسائل میں گھرا ہوا ہےہر کوئی اپنی کھینچو اپنی اوڑھو میں لگا ہوا ہےکسی کو کسی کی پرواہ نہیں مطلب جب اپنا کام نکل رہا ہے تو کیوں کچھ کریں جیسا چل رہا ہے چلنے دو جب دوسرے کچھ نہیں کرے تو ہم کیوں کریں؟
اتنی لمبی تمہید بانھنے کا مطلب اتنا سا ہے کہ ہم اپنا فرض اور حق ہوتے ہوئے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ ایک میرے کرنے سے کیا ہوگا اس بات کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب مجھ سے میرے ساتھی نے پوچھا ووٹ کس کو دوگے میں اک دم گڑبڑا کر رہ گئی کیوں؟ اس لیئے کے میں اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں اپنی اتنی بڑی زاقت کہ بالائے طاق رکھ کرہم صرف اور صرف مسائل گنوانے اور ان کا رونے میں لگے رہتے ہیں۔
 جب سو میں سے ایک نکال دو سو نننانوے ہوجاتے ہیں تو ایک ایک مل کر سب متحد ہو کر کیوں کر ہر برائی کو اچھا ئی میں تبدیل نہیں کرسکتے۔مسلمان ہونے کے ناتے بھی ہمیں یہ درس دیا جاتا ہے کہ اتحاد میں برکت ہے لیکن اس کے لیئے بھی ہم میں سے کسی ایک کو پہلا قدم اٹھا نا پڑ یگا اگر ہر ایک اپنی ذمہ داری پوری کرے توگھر کیا ،شہر کیا،ملک کیا،پوری دنیا کو فتح کیا جاسکتا ہے۔
 گرتے ہیںشہسوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ قفل کیا لڑے جو گھٹنوں کے بل چلے 
یہ ایک ووٹ جو ایک حق کے ساتھ ساتھ ہمارا اولین فرض بھی ہے ہمیں چاہیئے کہ ہم اسے اپنی پوری ایمانداری کے ساتھ استعمال میں لائے ووٹ کس کو دینا ہے یا نہیں دینا ہے اس کا فیصلہ آج کل کے دور میں کوئی نہیں کر پارہا الیکشن سے مہلے تو ہر ایک اچھا لیڈر اور اہمارا خیر خواہ ہی لگ رہا ہوتا اتنی رنگینیاںاور پالشیڈ سپنے دکھائے جاتے ہیںکہ ہر کوئی ووٹ کا حقدار لگ رہا ہوتا ہے
 گھوم پھر کر میرا ذہن پھر وہیں اٹک جاتا ہے ووٹ دوں تو دوں کس کو یہ ہمارا حق سے ز یادہ فرض ہے کیونکہ قطرہ قطرہ ہی دریا بنتا ہے۔اچھا لیڈر نہیں،ہمارالیڈر نہیں،یا کوئی اچھا ہی نہیں سو اس کا آ سان حل ہماری قوم یہ نکالتی ہے کہ کسی کو ووٹ ہی نہ دیا جائے اپنے اس حق سے محروم ہو کر ہم اندھے بہرے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
 دنیا کو اگر چھوڑ بھی دیا جائے تو ہمارا دین بھی ہمیںیہی کہتا ہے کہ حق کا ساتھ دیاجائے حق آ کر رہے گا اور باطل مٹنے کے لیئے ہی ہے ہمارے مذہب میں بھی برائی کے خلاف آواز نہ اٹھانے والا بھی برا ئی کا مر تقی ہے ، اچھائی کا ساتھ دینے کا حکم دیا گیا ہے پر ہم اپنے دین کو بالا ئے طاق رکھ کر اپنے ہی اصو لو ں پر کار بند ہیں ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظلم ہے تو ہم میں سے بہت سے یہی کہےنگے کہ ہم ووٹ ہی نہیں دیتے ،برا ئی کے خلاف اول ترین جہاد اس کے خلاف قدم اٹھانا ہے ، اس سے کم تر اسے برا کہنا ہے،اور آخری اسے صرف اور صرف اسے دل میں کہنا تو ہم سب اپنا اولین فرض کیو نکر ادا نہیں کرتے۔۔۔
 اگر عام فہم الفا ظ میں کہا جائے تو ہم پاتستا نی اب تک گہری نیند سو رے ہیں ،آ خر کب تک سو تے رہینگے کوئی آکر ہمیں ہمیشہ کے لیئے نہیں سلا دیتا۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کوخیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
 اس تگ وپیش کے بعد میں اس مقا م پر پہنچی ہوں کہ ایک با شعور اورشہری ہونے کہ ناتے مجھے اپنا ووٹ ضرور دینا چاہیے چاھے میرا منتخب کردہ امیدوار کامیاب ہو کہ نہیں پر مجھے اپنے فرض سے منہ نہیں موڑنا۔
 یقینا میں نے آپ کا قیمتی وقت لیا پر کیا کرتی کچھ نہ کچھ تو لکھنا تھا تو میںاپنا موقف آپ کے سامنے واضح کرچکی اب دیکھنا یہ ہے کہ 


 Written by Sehrish Syed Roll No 60
This practical work was arried in MA prev Mass Comm Sindh University, Jamshoro

Thursday, 19 September 2013

نول رائے مارکیٹ ٹاور

سحرش سیّد 

 نول رائے مارکیٹ ٹاور 
عمارتیں ہرقوم کی تاریخ ،تہذیب وتمدن،روایات،معاشرتی اقدار اوروہاںکے رہنے والوںکی سوچوں کا عکس ہوتی ہے ۔جب ہم کسی ملک ےا شہر جاتے ہیں تو سب سے پہلے اس ملک کی موجودہ حالت یعنی ڈھانچے کو دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیتے ہیںکہ ےہاں لوگ،ان کی ذہنیت اور حکو متی سطح پر یہ ملک دنیا کے نقشے پرکیا اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ےہ اہم عمارتیں ہی ہیں جن کی وجہ سے ہزاروں سیاح اور تاریخ داں مختلف ملکوں کا رُخ کرتے ہیں تاکہ وہ ان کے بارے میںمکمل معلومات حاصل کرکے دوسرے لوگوں پہنچاتے ہیں۔
 حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہرہے جہاں کئی ایک تاریخی عمارتیں اور تالپوروں کے مقبرے فن تعمیر سکا شاہکار ہیں۔ ہم یہاں نول رائے ٹاور کا زکر کریں گے جو عرف عام میں مارکیٹ گھنٹہ گھر یا ٹاور کے طور پر جانا جاتا ہے۔
ٹاور کے نام سے ہمارے ذہن میںایک اونچی اور بڑی عمارت کاخاکہ بنتا ہے پر گھنٹہ گھر اےک درمیانے درجے کی پر دیکھنے میںنظروںکوٹہرادینے والی عمارت ہے جس کا تعمیراتی ڈھانچہ انگریزوںکے مذہبی اور ثقافتی اقدار کو نماےاںکرتاہے ۔
گرہام بیل کی مشہور ایجاد وقت کی پیمائش کاآلہ جسے عام لفظوں میںگھڑی یا گھڑیال کہتے ہیںنول رائے ٹاور مارکیٹ پر آویزاںہے انگریزوں کی غلامی کے تحفے اپنی جگہ پر مگر یہ ان کی اچھی کا وشوں کو ےاد دلاتا ہے ۔یہ ٹاور ایک باب کی اہمیت رکھتا تھا اور وقت کی پیمائش میں لوگوںکے لیے کار آ مد ثابت ہوا کرتا تھاکیونکہ اس وقت لوگوں پاس دورِحاضر کی طرح وقت کے پیمائش کے آلے نہیں ہوا کرتے تھے،لوگ اندازوںاور دوسری سمتی پیمائشوںسے وقت کو جانئے کی کوشش کیا کرتے تھے جو کہ نہ صرف مشکل بلکہ مستند بھی نہیںہواکرتا تھا۔
 محقق اور صحافی رحیم بخش برق نے سندھ کے مختلف شہروں میں موھود ٹاوروں پر تحقیق کی۔ ان کی تحقیق پر مشتمل ہفتیوار پروگرام کا ریڈیو پاکستانسے بھی نشر ہوا کرتا تھا۔ان کے مطابق ٹاورزانگریزوں نے تمام اہم شہروں میں جےسے سکھر، شکارپور،جیکب آباد،کراچی اورہمارے شہر حیدرآباد میں بنائے تھے۔یہ ۴۱۹۱ میں تعمیر کیا گیا جوآج تک مارکیٹ کی خاص پہچان ہے اسی وجہ سے یہ علاقہ ٹاور مارکیٹ کے نام سے مشہور ہے۔
شمال سے جنوب کی طرف شہر میں آتی ہوئی راہ میں مارکیٹ کا یہ دروازہ اپنی مثال آپ ہے۔ قدیم وجدید طرزِتعمیر کا شاہکار ایک باب نما شکل کا ہے عین وسط میں گھڑیال لگا ہواہے جو کہ کچھ ماہ پہلے الارم کے ساتھ کام کیا کرتا تھا پر اہلِ محلہ کی پریشانی کے سبب اس کو پھرسے ویران کر دیا گیا اورےوں اب پھر سے صرف ایک تاریخی عمارت رہ گئی ہے جس کی بد نصیبی سے دونوں سمت ہی کی حالتِ زار بھی کچھ خستہ ہورہی ہے۔
دونوں جانب گوشت مارکیٹ واقع ہے مشرقی بازو پر سبزی بازار اور مغربی بازو پرپان مارکیٹ،مرغی مارکیٹ اور سابقہ ایلائٹ سینیما عمارت ہے۔ریڑھی والوں کا اپنا سا جادوئی انداز ہے جو کہ ہر راہ گزر کو متاثر کررہا ہے اشیاءخریدنی ہو ےا نہ خریدنی ہوپر آپ کو بازار سے گزرتے ہوئے ہی اچھی خاصی معلومات مل جاتی ہے۔کسی بھی ریڑھی والے کا کوئی دام نہیںکوئی دس پانچ کم کرنے میں مان جاتا ہے کسی سے اچھی خاصی رعایت مل جاتی ہے گو کہ ریڑھی والے بھی اچھی خاصی مارکیٹنگ کی ٹرمنولوجی کو جانتے ہیں جیسی شخصیت ہو ویسی قیمت لگاتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے کی گئی مرمت نے اس عمارت کو پھر سے جاذبِ نظر ضروربناےا ہے اوپر کا حصہ سرخ رنگ کا حامل ہے اور بقیہ حصے پر کریم رنگ کےاگیا ہے۔جو بھی ہے ان ہی تاریخی عمارتوں سے ہمار ی تاریخی یادیں وابستہ ہے جو ہمارے بعد آنے والوں کو بھی اس جگہ کی تاریخی قدروقیمت کو اجاگر کرتی ہو ئی نظر آئینگی۔ 
M.A Previous in 2012
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi