Pages

Showing posts with label حیدرآباد. Show all posts
Showing posts with label حیدرآباد. Show all posts

Monday, 23 September 2013

پریس کلب کا بوڑھا بیری


محمد ندیم یوسف
پریس کلب کا بوڑھا بیری
پریس کلب کا بوڑھا بیری ایک ایسی تخیلاتی تحریر ہے جس میں ایک بے زبان کردار کو زبان دی گئی ہے ۔یہ کردار گذشتہ نصف صدی کا خاموش گواہ ہے۔ ذکر ہے یہ اس بوڑھے بیری کے درخت کا جو پریس کلب حیدرآباد پر سایہ فگن ہے اور جس نے اپنی عمر کے 50 سالوں کے دوران پریس کلب حیدرآباد کے سامنے ہونے والے تمام واقعات کو کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھا لیکن محرومی گویائی کے باعث کچھ بھی بولنے سے قاصر رہا بس دیکھتا ہی رہا۔۔۔۔ لیکن آج وہ بول رہا ہے،ہر بات جو اس نے دیکھی گذشتہ 50 سالوں میں ۔

٭ چلیں اب اصل گفتگوکا آغاز کرتے ہیں۔آپ سب سے پہلے یہ بتانا پسند کریں گے کہ آپ یہاں تک پہنچے کیسے؟اور اس مقام کو ہی اپنا مستقل ٹھکانہ بنانے کا خیال کیوں آیا؟
بیری :(تھوڑی دیر گلے کو کھنکھارکر صاف کرتے ہوئے )معاف کیجئے گا ،اصل میں عرصہ دراز سے خاموشی کے بعد بولنے میں کچھ دشواری محسوس ہو رہی تھی۔ہاں تو آپ نے میرے یہاں آنے اور مستقل ٹھکانہ بنانے کے حوالے سے پوچھا ہے ،توآپ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہاں تک پہنچنے میں میراکوئی کردار نہیں البتہ یہاں ٹھہرنے کا فیصلہ میرا تھاتقریبا50 سال قبل جب یہاں اس سڑک پر صرف سیشن کورٹ ریڈیو پاکستان اور اس کے مقابل پرو نیشل بینک کی عمارت ہوا کرتی تھی۔آبادی بہت کم اور ٹریفک نہ ہونے کے برابرتھی۔وہ گرمیوں کی دوپہر تھی ۔ ایک شخص نا معلوم کن خیالوں میںگم یہاں سے گذر رہا تھا۔تنہائی کی وحشت کو کم کرنے کے لیے اس نے کچھ بیر خرید لیے تھے۔ایک یہاں سے گذرتے ہوئے اس شحض نے بیر کھانے کے بعد اسکی گٹھلی ایک پتھرکا نشانہ لیکر اسکی جانب اچھال دی جوکچی زمین پرآکرٹھہر گیا ا ور کچھ عرصہ بعد جب ہواﺅں کے جھکڑ سے مٹی کی کچھ تہیںاس پر جمع ہوئیں اور ایک برسات کے بعد میرا ننھا وجود ظاہر ہوگیا۔رہی بات اس جگہ کو مستقل ٹھکانہ بنانے کی تواس کا جواب کسی اور موقع کے لئے رہنے دیں۔
٭آپ تو بڑی تفصیل میں چلے گئے۔گفتگوکچھ زیادہ طویل نہیں کرتے آپ؟بہرحال اب میں اصل موضوع کی طرف آنا چاہتا ہوں۔یہ بتائیے کہ آپ نے یہاں سب سے دلخراش منظر کون سا دیکھا؟
بیری :میرے عزیز !در اصل طویل خاموشی کے بعدجب کسی کو بولنے کا موقع ملتا ہے تو وہ یہی کرتا ہے جو میں کر رہا ہوں۔ بہرحال آپ کہتے ہیں تو میں اختصار سے کام لوںگا۔آپ کے سوال نے مجھے ایک بار پھر اسی کرب میں مبتلا کردیا جس سے میں 20سال قبل گذرا تھا۔وہ ستمبرکی ایک سوگوار سی دوپہر تھی جب شہدائے ٹنڈوبہاول کے لواحقین ۔انصاف کی تلاش میں پریس کلب کے سامنے پہنچے تو تمام فوٹو گرافرز اور رپورٹرز ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔مظاہرین میں ایک بوڑھی خاتون مائی جیندو اپنی 2 جواںسال بیٹیوں کے ساتھ بلک بلک کربین کررہی تھی۔ وہ غم سے نڈھال اپنے خاندان پر ہونے والے بدترین ظلم کی داستان صحافیوں کو سنا رہی تھی۔وہ بتا رہی تھی کہ کس درندگی کے ساتھ اس کے شوہر ،بیٹوں اور قریبی عزیزوں کو ایک قطار میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیاگیا ناصرف انہیں بے دردی سے قتل کیا گیا بلکہ میڈیا کے سامنے انہیں ڈاکو اور دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا۔وہ انصاف نہ ملنے پر بری طرح مایوس تھی۔بالآخر احتجاج کے دوران وہ دلخراش لمحہ بھی آیا جب انصاف سے مایوس مائی جیندو اور اسکی 2 جواں سال بیٹیوں نے تیل چھڑک کر خود کو آگ کی نذر کر دیا۔کچھ صحافی بچانے کے لیے دوڑے بھی لیکن جلتی آگ میں کون ہاتھ ڈالتا ہے۔کچھ دیر تڑپنے کے بعد تین لاشے زمین پر بے جان پڑے تھے ۔میں بہت مجبور تھا کچھ نہ کر سکا ،بس آئینہ کی طرح دیکھتا رہ گیا؟
٭انسانی بے حسی کا کوئی واقعہ جو آپ کے ذہن پر نقش ہوگیاہو ؟
  بیری (سردآہ بھرتے ہوئے)میری سمجھ میں یہ نہیں آتاکہ آپ انسان تواشرف المخلوقات ہو پھر آپ لوگوںکے سینے میں دل پتھر کا کیوںہے ؟کیا منوبھیل سے اس کے بیوی بچے چھیننے والاسینے میں دل نہیں رکھتا ؟ اور کیا تمہاری حکومتیں اور نام نہاد NGOs اس قدر بے بس ہیں کہ وہ اس مجبور انسا ن کی مدد بھی نہ کرسکیں ۔یہیں میری چھاﺅ ں تلے اس نے کئی برس گذارے۔بہت سے مگرمچھ کے آنسو بہا نے والے میڈیا کے شوقین سیاستدان آئے ،اخبار ات اور چینلز کی کوریج حاصل کرنے کے لئے بہت سے دعوے کئے لیکن میرا دوست منو بھیل آج بھی انصاف سے محرم ہے۔
٭SRTC متاثر غلام محمد ڈیپر اور اس کے ساتھیوں کی کچھ خبردو؟
بیری:- (کچھ لمحے خالی نظروں سے اپنی جڑ کے قریب زمین کو دیکھتے ہوئے )ان بیچاروں کی خبر ضروردوںگا ۔ یہ خبر ہی تو تھی جو حکمرانوں کی طرف سے نہیں لی گئی اور وہ بیچارے خبر گیری کے انتظارمیں طویل عرصے تک اسی زمین پر بیٹھے رہے اور اسی انتظار میں ان میں سے بہت سے بوڑھی آنکھیں بند ہوگئیں ۔انکی زندگیاں ختم ہوگئیں لیکن حکمرانوں کی بے حسی ختم نہیں ہوسکی ۔مجھے یاد ہے کہ بوڑھے اور ریٹائرڈ SRTC ملازمین میں سب سے تواناغلام محمد ڈیپر ہی تھاجو حکمرانوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ہرروز احتجاج کا کوئی نیا اور اچھوتا ڈھنگ اختیار کرتا تھا ،تاکہ میڈیا والے یکسانیت کا نام دے کران کی خبر کو کِل نہ کردیں ۔اس طرح میڈیا والوںکو ایک اچھی خبر اور فوٹیج تو مل جاتی تھی لیکن اس کے بعد میں ہی دیکھتا تھا کہ وہ میڈیا کے تقاضے پورے کرنے کے بعد میری چھاﺅں تلے بیٹھ کر کتنی دیر کھا نستا اور اپنی سانسیں درست کرتا تھا۔ میں سوائے ٹھنڈی چھاﺅ ں دینے کے اسکے لئے کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ 
٭ارے وہ بوڑھا نور محمد کون ؟تھا جو اکثر اپنے مطالبہ کے حق میں چند تصاویر لے کر گم سم گھنٹوں آپ سے ٹیک لگائے بیٹھا رہتا تھا؟
بیری :- ہاں خوب یا د دلایا آپ نے ،کافی عرصہ سے نظر نہیں آیا۔ مر گیا ہوگا بیچارہ۔شاید اس کی بے سکون زندگی کو موت ہی کے سہارے کی ضرورت تھی ۔اس کے ہاتھوں میں ہی نہیں بے رونق آنکھوں میں بھی اپنے پیاروں کی تصویر یں نظر آتیں تھیں جو تمہارے ایک ادارہ کی بد عنوانی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
٭ادارہ کی بد عنوانی کی بھینٹ ۔کیا مطلب؟ 
بیری ©:-ارے دوست !اگر اس ادارہ کے انسپکٹر اور دیگر متعلقہ افسران فر ض شنا سی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے برابر والی عمارت کا انہدام اپنی نگرانی میںکراتے تو نور محمد کا مکان اس طرح زمیں بوس نہ ہوتا۔کیا تم نہیں جانتے کہ اس طرح گھر میں سویا ہوا نور محمد کا پورا کنبہ زمین کا پیوند بن گیا ۔تم بھی ایک انسان ہوذرا سوچوجس شخص نے اپنے بیوی بچوں اور پوتے پوتیوں کے26 مسخ شدہ لاشے دیکھے ہوں توشاید موت ہی اس کے نا قابل برداشت غم کا علاج ہوسکتی ہے۔ 
٭پچھلے دنوں میں نے یہاں سے گذ ر تے ہوئے آپ کے قریب ہی ایک غریب سے خاندان کو کوئی احتجاج کرتے دیکھاتھا ،خاصے لوگ جمع تھے ۔ان کا کیا مسئلہ تھا ؟
بیری :- ارے بھائی ایسے مظاہرین تو سالہاسال سے ہر روز دیکھ رہا ہوں ۔ پتہ نہیں آپ کس کی بات کر رہے ہیں۔
٭ارے بابا !وہ جو بہت بوڑھے اور کمزور سے والدین تھے اور ان کے ساتھ 16 - 17سال کی خوبصورت لیکن بینا ئی سے محروم لڑکی تھی ۔
بیری :- ہاںہاں، یا د آگیا( کچھ دیر خاموش ر ہنے کے بعد)تم انسان لوگ میری سمجھ سے باہر ہو۔بعض اوقات تو انسانیت سے درندگی بھی شرماجاتی ہے۔تمہیںنہیںمعلوم اس کے ساتھ کیا ہوا ؟میں بتاتا ہوں ۔دراصل وہ خاندان حیدرآباد کے قریب واقع ایک گوٹھ میں رہائش پذیر ہے ۔بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے ضعیفی کے باوجود ماں باپ دونوں ایک زمیندارکی زمینوں پرکام کرتے تھے ۔لڑکی کی ایک ہفتہ بعد شادی تھی ۔برادری کا لڑکا ہونے کی وجہ سے قوت بصارت سے محرومی کے باوجود اس اللہ کے بندے نے لڑکی کو اس معذوری کے ساتھ بھی قبول کر لیا تھا ۔اس روز بوڑھے والدین حسب معمول مزدوری کے بعدتھکے ہارے گھر پہنچے ہی تھے کہ زمیندارکا لڑکااپنے 4 اوباش دوستوں کے ہمراہ گھر میں داخل ہوا اور بوڑھے والدین کورسیوںسے باندھنے کے بعد ایک کمرے کے چھوٹے سے مکان میں ان کی آنکھوںکے سامنے پانچوں درندوںنے ان کی پھول سی بچی کو باری باری بھنبھوڑ ڈالا ۔بوڑھے،کمزوراور لاچار والدین اس لمحے یہ سوچنے لگے کے کاش ان کی بیٹی کی بجائے وہ خود نابینا ہوتے تو آج یہ درند گی انہیںدیکھنے کو نہ ملتی ۔اتنا کہنے کے بعد بیری شدت جذبات سے کانپنے لگا،اس نے دیوانگی کے عالم میں اپنے پتے نوچ ڈالے ۔بہت سے پتے ہواﺅں میں تیر تے ہوئے دور تک بکھرگئے ۔
بیری کی غم ناک حالت دیکھ کر میںبھی غم اور غصے کی ملی جلی کیفیت میںکچھ لمحے گویا سکتے میںآگیا ۔لیکن پتوں پرکسی شخص کے چلنے سے پیدا ہونے والی چرچراہٹ کی آوازپر یکلخت پلٹ کر دیکھا تو فتح شاہ فراق کو اس طرف آتے دیکھا جس کے ایک ہاتھ میں سرخ وتازہ گلاب سے بھرا ٹوکرا تھا اور وہ وہاں سے گذرنے والے ہرشخص کو نہایت محبت بھری مسکراہٹ کے ساتھ گلاب کے پھول بانٹ رہا تھا ۔ابنِ آدم کے یہ دونوں روپ دیکھ کر میری گویائی جواب دے چکی تھی ۔اچا نک بے زبان بیری کی آواز میرے کانوں میںآئی ۔
"آپ کے جس سوال کا جواب میں دینے سے گریزکررہا تھا ،اس کا جواب یہ شخص یعنی فتح شاہ فراق ہی ہے جو واقعی ایک انسان ہے۔میں اسے برسوں سے دیکھ رہا ہوں۔انسانوں میں محبت اور بھائی چارگی کا پر چارکرنے والا یہ شخص گا ہے بگاہے یہاں آتا ہے اور بلا تفریق رنگ ونسل ،اور فرقہ ومسلک تمام انسانوں کو محبت کے پھول بانٹتا ہے ۔ میرے یہاںمستقل قیام کی واحد وجہ یہ شخص ہے،جو مجھے انسا نوںسے مایوس نہیں ہونے دیتا۔یا اللہ انسانوں کو اور بہت سے فتح شاہ فراق عطا فرما © "۔
میں نے بیری کی دعا پر آمین کہہ کر سر اٹھایا اور انٹرویو کا شکریہ اداکرنا چاہاتو میرے الفاظ فضا میں بکھر کر رہ گئے ۔،،،،،،،،،،
 بیری دوبارہ خاموش ہو چکاتھا۔ 
Practical work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Thursday, 19 September 2013

نیو میجیسٹک سینیما

نیو میجیسٹک سینیما 
فیچر: تحریر ماریہ خان ایم اے سال اول( سال ۲۱۰۲)
     ایک دور تھا جب ہر شہر میں بہت سے سینیما گھر ہوا کرتے تھے اور بہت سے لوگ ان 
مین جا کر فلمیں دیکھتے تھے ۔اس زمانے میں کچھ الگ ہی ماحول تھا ۔پاکستان میں ڈھائی سو سے تین سو کے قریب سینیما گھر تھے جن کی تعداد اب تیس سے چالیس رہ گئی ہے۔ سینیما گھروں کے گرتے ہوے میعار 
کی وجہ بہتر پروڈکشن کا نہ ہونا ہے۔جس کی بنیادی وجوہات ایک تو انوسٹمینتٹ کا نہ ہونا اور دوسرا فیسیلٹیز کا نہ 
ہونا ہے۔ اسی طرح ایک سینیما ہے جس کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں جو حیدرآباد کے مشہور سینیماو¿ں میں سے ایک ہے یہ نیو میجیسٹک سینیما ہے ۔اس کا شمار حیدرآباد کے بڑے اور پرانے سینیماو¿ں میں ہوتا ہے اور میجیسٹک کا مطلب ہی بڑا اور عالیشان ہے۔ یہ حیدرآباد کے پر رونق علاقے صدر میں واقع ہے۔ یہ سینیما ایک بڑی جگہ پر تعمیر ہے اس کی کنسٹڑکشن دوسرے سینیماو¿ں سے مختلف ہے اس کی بناوٹ کچھ اس طرح کی ہے ایسا لگتا ہے جیسے ہم کسی پرانی حویلی یا ٹھریٹر میں بیٹحے ہوں ۔ اس میں بہت سے لوگوں کے بیٹحنے کی گنجائش ہے ۔ اس سینیما میں دونوں طرف سے آنے اور جانے کے راستے ہیں اور پارکنگ کی بھی وسیع جگہ موجود ہے ۔ اس سینیما کی اسکرین کافی بڑی اور اسکا ساو¿ند سستم بھی بہت اچھا ہے ۔ جس طرح ہر چیز کی اپنی خاصیت ہوتی ہے اسی طرح بہت سے سینیماو¿ں کی اپنی اپنی خاصیت تھی۔ پر نیو میجیسٹک سینیما کی یہ خاصیت تھی کہ نئی فلمیں سب سے پہلے اس سینیما میں لگتی تھیں خاص طور سے اچھی سندھی اور آرٹس بیس فلمیں جو کہ لوگ بہت زیادہ پسند کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ یہاں آنا پسند کرتے تھے ۔ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایک جوش ہوتا تھا سینیما میں آکر فلمیں دیکھنے کا پر آج کل یہ جوش لوگوں کے دلوں میں بہت کم نظر آرہا ہے۔ پر پھر بھی آج لوگ یہاں بڑی تعداد میں آتے ہیں اور نئی پرانی فلمیں دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اسی حوالے سے ہم نے کچھ لوگوں سے بات چیت کی اور سینیماو¿ں کے بارے میں ان کی رائے معلوم کی تو انھوں نے بتایا کے سینیما گھر میں فلمیں دیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے ۔ جب لوگ دن بھر اپنے کاموں سے تھک جاتے ہیں تو ان لوگوں کے لیئے یہ ایک اینٹرٹینمنٹ کی جگہ ہے جہاں وہ اپنی فیملی یا دوستوں وغیرہ کے ساتھ آکر فلمیں دیکھتے ہیں اور اپنی ٹھکاوٹ دور کرتے ہیں۔ 
Practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi. Department of Mass Communication University of Sindh

نول رائے مارکیٹ ٹاور

سحرش سیّد 

 نول رائے مارکیٹ ٹاور 
عمارتیں ہرقوم کی تاریخ ،تہذیب وتمدن،روایات،معاشرتی اقدار اوروہاںکے رہنے والوںکی سوچوں کا عکس ہوتی ہے ۔جب ہم کسی ملک ےا شہر جاتے ہیں تو سب سے پہلے اس ملک کی موجودہ حالت یعنی ڈھانچے کو دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیتے ہیںکہ ےہاں لوگ،ان کی ذہنیت اور حکو متی سطح پر یہ ملک دنیا کے نقشے پرکیا اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ےہ اہم عمارتیں ہی ہیں جن کی وجہ سے ہزاروں سیاح اور تاریخ داں مختلف ملکوں کا رُخ کرتے ہیں تاکہ وہ ان کے بارے میںمکمل معلومات حاصل کرکے دوسرے لوگوں پہنچاتے ہیں۔
 حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہرہے جہاں کئی ایک تاریخی عمارتیں اور تالپوروں کے مقبرے فن تعمیر سکا شاہکار ہیں۔ ہم یہاں نول رائے ٹاور کا زکر کریں گے جو عرف عام میں مارکیٹ گھنٹہ گھر یا ٹاور کے طور پر جانا جاتا ہے۔
ٹاور کے نام سے ہمارے ذہن میںایک اونچی اور بڑی عمارت کاخاکہ بنتا ہے پر گھنٹہ گھر اےک درمیانے درجے کی پر دیکھنے میںنظروںکوٹہرادینے والی عمارت ہے جس کا تعمیراتی ڈھانچہ انگریزوںکے مذہبی اور ثقافتی اقدار کو نماےاںکرتاہے ۔
گرہام بیل کی مشہور ایجاد وقت کی پیمائش کاآلہ جسے عام لفظوں میںگھڑی یا گھڑیال کہتے ہیںنول رائے ٹاور مارکیٹ پر آویزاںہے انگریزوں کی غلامی کے تحفے اپنی جگہ پر مگر یہ ان کی اچھی کا وشوں کو ےاد دلاتا ہے ۔یہ ٹاور ایک باب کی اہمیت رکھتا تھا اور وقت کی پیمائش میں لوگوںکے لیے کار آ مد ثابت ہوا کرتا تھاکیونکہ اس وقت لوگوں پاس دورِحاضر کی طرح وقت کے پیمائش کے آلے نہیں ہوا کرتے تھے،لوگ اندازوںاور دوسری سمتی پیمائشوںسے وقت کو جانئے کی کوشش کیا کرتے تھے جو کہ نہ صرف مشکل بلکہ مستند بھی نہیںہواکرتا تھا۔
 محقق اور صحافی رحیم بخش برق نے سندھ کے مختلف شہروں میں موھود ٹاوروں پر تحقیق کی۔ ان کی تحقیق پر مشتمل ہفتیوار پروگرام کا ریڈیو پاکستانسے بھی نشر ہوا کرتا تھا۔ان کے مطابق ٹاورزانگریزوں نے تمام اہم شہروں میں جےسے سکھر، شکارپور،جیکب آباد،کراچی اورہمارے شہر حیدرآباد میں بنائے تھے۔یہ ۴۱۹۱ میں تعمیر کیا گیا جوآج تک مارکیٹ کی خاص پہچان ہے اسی وجہ سے یہ علاقہ ٹاور مارکیٹ کے نام سے مشہور ہے۔
شمال سے جنوب کی طرف شہر میں آتی ہوئی راہ میں مارکیٹ کا یہ دروازہ اپنی مثال آپ ہے۔ قدیم وجدید طرزِتعمیر کا شاہکار ایک باب نما شکل کا ہے عین وسط میں گھڑیال لگا ہواہے جو کہ کچھ ماہ پہلے الارم کے ساتھ کام کیا کرتا تھا پر اہلِ محلہ کی پریشانی کے سبب اس کو پھرسے ویران کر دیا گیا اورےوں اب پھر سے صرف ایک تاریخی عمارت رہ گئی ہے جس کی بد نصیبی سے دونوں سمت ہی کی حالتِ زار بھی کچھ خستہ ہورہی ہے۔
دونوں جانب گوشت مارکیٹ واقع ہے مشرقی بازو پر سبزی بازار اور مغربی بازو پرپان مارکیٹ،مرغی مارکیٹ اور سابقہ ایلائٹ سینیما عمارت ہے۔ریڑھی والوں کا اپنا سا جادوئی انداز ہے جو کہ ہر راہ گزر کو متاثر کررہا ہے اشیاءخریدنی ہو ےا نہ خریدنی ہوپر آپ کو بازار سے گزرتے ہوئے ہی اچھی خاصی معلومات مل جاتی ہے۔کسی بھی ریڑھی والے کا کوئی دام نہیںکوئی دس پانچ کم کرنے میں مان جاتا ہے کسی سے اچھی خاصی رعایت مل جاتی ہے گو کہ ریڑھی والے بھی اچھی خاصی مارکیٹنگ کی ٹرمنولوجی کو جانتے ہیں جیسی شخصیت ہو ویسی قیمت لگاتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے کی گئی مرمت نے اس عمارت کو پھر سے جاذبِ نظر ضروربناےا ہے اوپر کا حصہ سرخ رنگ کا حامل ہے اور بقیہ حصے پر کریم رنگ کےاگیا ہے۔جو بھی ہے ان ہی تاریخی عمارتوں سے ہمار ی تاریخی یادیں وابستہ ہے جو ہمارے بعد آنے والوں کو بھی اس جگہ کی تاریخی قدروقیمت کو اجاگر کرتی ہو ئی نظر آئینگی۔ 
M.A Previous in 2012
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

حیدرآباد میں جنریٹر کا استعمال

 Noman Khan M.A Previous in 2013حیدرآباد میں جنریٹر کا استعمال
کہتے ہیں کی قومی و ملکی سطح پر اکثروبیشتر کوئی مسئلا اکیلا نہیں آتا بلکہ مسائل کی کڑیاںایک دوسرے سے مل کر زنجیر کی صورت اختیار کر جاتی ہیں اور ان کے حل کا بہترین اصول یہی ہوتا ہے کہ پہلے بنیادی کڑی پر توجہ دی جائے۔ پاکستان کے اقتصادی ، صنعتی اور زرعی مسا ئل میں ایک بنیادی مسئلہ توانائی کی کمی کا ہے پاکستان میں توانائی کے زرائع بجلی، قدرتی گیس اور کوئلے کی صورت میں موجود ہیں جہاں تک تعلق بجلی کی پیداوار کا ہے ملک میں پہلے زیادہ تر بجلی پانی سے حاصل ہوتی تھی جو پن بجلی کہلاتی ہے یہ توانائی نہ صرف بہت سستی ہے بلکہ ماحول دوست بھی ہے۔ گزشتہ برسوں سے ہمارے یہاں کوئی بڑا پیداواری منصوبہ شروع نہیں کیا گیا ، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بجلی کی پیداوار کے لیے فور ی طور پر تھر کوئلے کے وسیع ذخائر کو استعمال میں لائیں، کیوں کہ ابھی ہمارے پاس اس کے استعمال کے لیے وقت ہے، وہ اس طرح کہ عالمی سطح پر توانائی کے ایسے زرائع جن سے فضا میں کاربن پیدا ہوتا ہے ان پر پابندی عائد کرنے کے لیے زور وشور سے کام ہورہا ہے اور جو منصوبے جاری ہیں، ان کے لیے اس رعایت کی توقع ہے کہ انہیں جاری رہنے دیا جائے، زندگی گزارنے کے لیے جن بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے آج بجلی، اور گیس بھی انہی بنیادی ضروریات میں شمار ہوتے ہیں، انکے بغیر زندگی کا تصور ناممکن سا لگتا ہے گیس کی تو کمی کوئلہ اور لکڑی جلاکر پوری کی جاسکتی ہے مگر بجلی کی کمی کس طرح پوری کی جائے لوڈشیڈنگ چاہے بجلی کی ہو یا گیس کی انسانی زندگی مفلوج کردیتی ہے۔حیدرآباد میں 8سے 10گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نے انسانی زندگی کو مفلوج کردیا ہے گھر میں آئے تو لائٹ نہیں گھر سے جائے تو لائٹ نہیں ،سوئے تو لائٹ نہیں ،کھائے تو لائٹ نہیں اور ساتھ ساتھ لوڈشیڈنگ حیدرآباد کی پیداواری صنعتوں کو تباہ کررہی ہے اکثر بجلی کے مطبادل کے طور پر جنریٹر یا یوپی ایس استعمال کیا جاتا لیکن یوپی ایس زیادہ والٹیج کا نہیں ہوتا وہ کم سے کم 400واٹ اور زیادہ میں زیادہ 3500واٹ کا مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔تو اسی لیے جنریٹر کا زیادہ استعمال کیا جاتاہے اور حیدرآباد میں بھی بڑی بڑی آرگنائزیشن، گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ،فیکٹریز، تعلیمی اداروں میں زیادہ تر جنریٹر استعمال کیا جاتا ہے۔ کیونکہ جنریٹر 1کلو واٹ سے لیکر 250کلو واٹ تک کے مختلف کمپنیز کے ہونڈا جنریٹر، یاماہا جنریٹر، جیسکوجنریٹر اور دیگر چائنا کمپنیوں کے جنریٹر مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔1کلو واٹ کے جنریٹر میں 12سیور،5پنکھے ،1ٹی وی،1ڈی وی ڈی چلاسکتے ہیںاور اسی طرح 5کلو واٹ میں 10سیور ،5 پنکھے،1ٹی وی،1ڈی وی ڈی،1 فریج،1کمپیوٹر،1 اسپلٹ اے سی1/12ٹن ، 1 فوڈ فیکٹری،اور 20کلو واٹ میں40سیور،20پنکھے،4ٹی وی،4ڈی وی ڈی،4فریج،4کمپیوٹر،4اسپلٹ اے سی ڈیڑہ ٹن کے اور1ڈیپ فریزراور 50کلو واٹ کے 
 جنریٹر میں 90سیور،50پنکھے،8ٹی وی،9فریج،3ڈیپ فریزر، ،9کمپیوٹر،8اسپلٹ اے سی ڈیرہ ٹن کے چلاسکتے ہیں ۔
 جنریٹر کے عادی اور ایک دوسرے سے یو پی ایس کی تعریفیں کرنے والے کبھی اپنا حق مانگنے کے قابل ہو ہی نہیں سکتے محفلوں میں مشورے دیے جاتے ہیں کہ پیٹرول والا مہنگا ہے تو گیس والا لے لو گیس کا بھی نہیں خرید سکتے تو چائنا کا سستا والا لے لو اور اگر یہ بھی نہیں لے سکتے ہو تو اچھی بیٹری والا یوپی ایس ضرور لے لو اور پھر اس کے بعد اپنے دوستوں کو فخر سے بتایا جاتا ہے کہ ہمارا والا تو بہت زبردست ہے۔حیدرآباد کی تقریبا1883000 آبادی میں 4سے 5لاکھ لوگ جنریٹر کا استعما ل کرتے ہیں اور جنریٹر ڈیلرز کا کہنا ہے کہ پچھلے تین ماہ میں ہر دوکان سے 150سے 200جنریٹر سیل ہو چکے ہیں۔
Unedited