Pages

Monday, 23 September 2013

روشنی کی پہلی کرن - پروفائیل

 پروفائیل
’روشنی کی پہلی کرن‘ 
سحرش سیّد رول نمبر ۰۶ 
دنیا میں ہر طرح کے لوگ بنائے ہیں اللہ نے کچھ تو بارہا کوشش کے باوجود کچھ نہیں کر پاتے کچھ نہ سوچے سمجھے بنا کسی پلاننگ کے ہی لوگوں کے لیئے مددگار اور وسیلہ بن جاتے ہیں ۔اسی طرح یہ دنےا کا کارخانہ رواںدواں ہے ہر شخص جو چاہتا ہے نہیں کر پاتا پر انسان کو کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔جب انسان خود کومضبوط بناتا ہے تو راہ کے ہر کانٹے خود ہی چھنٹ جاتے ہیںاور انسان کے زینہ با زینہ خود ہی قدم آگے بڑھتے جاتے ہیں ایک سے دو ےا دو سے گیارہ ہوتے جاتے ہیں اگر انسان یہ سوچے کے میںتنہاہوںوہ کچھ نہیںکرسکتا پہلا قدم تو کسی نہ کسی کو اٹھانا پڑتا ہے۔
ہمارے ملک میں ایسے بہت سے مسائل ہیںجن حل تو کیا ان کی طرف دیکھنا بھی ہماری حکومت کے لیئے محال ہے ان ہی میںکچھ ایسی بیمارےاں بھی ہیں جن کا کوئی سدِباب نہیںبلکہ مستقبل میں بھی کچھ دریغاں نہیں۔
ہیموفیلیا ایک ایسی بیماری ہے جس میںانسان کے جسم خون کا معادہ جنھیں پلیٹیلیٹس کہتے ہیںوہ انسانی جسم کی ضرورت کے مطابق نہیں بن پاتے۔پلیٹیلیٹس کا کام یہ ہے کہ اگر ہمیں کہیںچوٹ لگ جائے اور کوئی زخم ہو تو وہ ہمارے خون کو بہنے سے روکتے ہیںسوچے اگر وہ نہ ہو توہمارا خون لگاتار بہتا رہے اور پھر تو کوئی معجزہ ہی شاید ہمیں بچا سکے۔
کراچی جیسے شہر یعنی رواںدواںاور بھاگتی دوڑتی ذندگی میں ایک نارمل بلکہ کبھی توعام لوگوں سے بھی زیادہ ہمت سے کام لینے والے یہ ادھیڑعمر بلکہ یہ کہا جائے کہ بڑھاپے کی طرف بڑھتے ہوئے’مسٹر عبدالرحمن‘جن کی عمر تقریباً۶۵برس ہے
جب انھوں نے دنےا میں قدم رکھا اوران کے دودھ کے دانت گرے تو خون نے تھمنے کا نام ہی نہ لیا ان کے والدین کے لیئے یہ کچھ نئی بات نہ تھی کیونکہ ان سے پہلے بھی ان کے دو چشم وچراغ کو یہ بیماری پہلے ہی موت کے گھاٹ ا ©تار چکی تھی،انسانی ذات مایوس تو ہوتی ہی یقیناانکی بہت سی امیدیں ٹوٹیں ہونگی اور بہت سے اشک رواں ہو ئے ہونگے۔وقت آخر وقت ہے ہر زخم بھر ہی دیتا ہے ان کی ذندگی بھی عام ڈگر پر آ ہی گئی پراس طرح کے مریض کا خاصہ خیا ل رکھنا پڑتا ہے اس ہی ڈر اور خوف میں انھیں مڈل سے زےادہ اسکول نہ بھیجا گیا اور اعلی بلکہ درمےانی تعلیم بھی حاصل نہ کر سکے۔
یہ خود اس بیماری کے شکار تھے اس لیئے جانتے تھے اس کے مسائل اور ان کے حل بھی۔بہت سے لوگوں کوموت کے گھاٹ اترتے دیکھا تھا جن میں ان کے تین بھائی بھی تھے ۔یہ ایک متواسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے گھر کا پہیہ دوکان کے کرائے سے چل رہا تھا لیکن بیماری بھی اللہ نے دی تھی لیئے مایوس نہ ہوئے اورسوچا کے آنے والوں کے لیئے مسائل کم کیے جائے جب انسان ہمت کرتا ہے تو ربِ ذوللجلال ضرور ساتھ دیتا ہے۔
جب یہ تیس برس کی عمر تک پہنچے تب فاطمی فاﺅنڈیشن نے پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ سی پی اور ایف ایف پی اور سی پی شروع کی۔یہ اور بھی مریضوں کے ساتھ وہاں گئے اور ڈاکٹر حنیف ڈاگرہ سے ملے جو پاپولر انٹرنیشنل مینیجر تھے انھوں نے ہی انھیںڈاکٹر طاہر سلطان شمسی سے ملوایا اور وہاں ہی فیکٹر ایٹ اور نائن اینجیکشن کے بارے میں سنا۔ان ہی دنوں یہ ایک شدید زخم کا شکار ہوئے پر فیکٹر کے استعمال سے جلد افاقہ ہواتب انھوں نے سوچا کے یہ فیکٹر دوسرے مریضوں تک بھی ضرورپہنچنا چاہیے پر اس کی قیمت زیادہ تھی وقتِ ضرورت اسے عام مریض نہیں خرید سکتے تھے حکومت یا کوئی این جی او بھی یہ فیکٹر فراہم نہیں کرتی تھی۔
۴۹۹۱ میں انھوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کے ایک نیا سدِباب رکھا کراچی بلکہ پاکستان میں پہلی’ہیموفیلیا پیشنٹ ویلفئیر سوسا ئٹی‘قائم کی جوکہ ۵۹۹۱ میں بقاعدہ رجسٹرڈہوگئی اسی سال پہلا ’ورلڈ ہیموفیلیا ڈے ‘ بھی منایا گیا جس میں حکیم محمد سعید چیف گیسٹ کے طور پر تشریف لائے جس سے ان کی اور ہمت بڑھی۔
وہ ڈاکٹر طاہر کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے اس کارِ خیر میں ان کی بڑی مدد کییہ ایک واحد سوسائٹی ہے جو صرف ہیموفیلیا کے مریضوں کے لیئے ہےایچ پی ڈبلیو ایس نے بلامعاوضہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فیکٹر ایٹ اور نائن مریضوں کو فراہم کئےورلڈ فیڈریشن آف ہیموفیلیاکینیڈا نے انھیںچار سال کی ممبر شپ بھی دی اور یہ وہاںکے الیکٹیڈ ممبر بھی رہے جس کی ٹرسٹ سے کامیاب سرجریز بھی کی گئیڈائیریکٹر لائٹ یو ایس اے میڈم لاری کیلی نے انھیں ’لیڈر آف دا ڈئیر‘اور ان کی آرگنائیزیشن نے ۹۹۹۱ میں’لیڈر آ ف دا ائیر ‘کے اعزاز دیا۔جب بھی کسی ایمرجنسی کی صورت میں ایڈ کی ضرورت پڑتی ہے تو ہماری فوری مدد کی جاتی ہے ۔
ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کی بنا پر آج بھی یہ آرگنائےزےشن رواں دواںہے جو کہ ہر اس مریض کو فوراًبلامعاوضہ خون فراہم کرتی ہے ساتھ ہی فیکٹر بھی لگایا جاتا ہے۔
عبدالرحمن صاحب اس بیماری پر چار کتب بھی لکھ چکے ہیں جس میں بیماری کے بارے میں مکمل معلومات ہے جب انھوںنے یہ سو سائٹی قائم کی تھی یہ پانچ یا چھ ساتھی تھے پر اب تین سو سے زیادہ ممبر ہیں اور سب ہی اس بیماری کا شکار ہیں یہ خود اس ویلفیئر کے فاﺅنڈر اور جنرل سیکریٹری ہیں اور ان کا بھانجا بھی اس بیماری کا شکار ہے اوروہ یوتھ کو ڈیل کرتا ہے۔
ماشااللہ ان کی عمر ۶۵برس ہے پر وہ کہتے ہیں کہ ہم نے خود کو کبھی تھکا ہوا محسوس نہیں کیا چابیس گھنٹے میں کسی بھی وقت کسی کو ہماری اور ہمارے ادارے کی ضرورت پڑسکتی ہےجب کسی نوجوان کو موت کے منہ میں جاتے دیکھتے ہےں تو مایوسی کے بجائے ہمت بڑ ھتی ہے کہ جتنا کرتے ہیں اس سے بھی زیادہ کرینگے۔
ان کا اس بیماری سے متاثر مریضوں کےلیئے کہنا ہے کہ ہمت نہ ہاریں خود کو نارمل سمجھے اور سے رابطہ کریں سوسائٹی سے رابطہ کریں جتنا بھی ہم کر سکتے ہیں ضرور کرینگے۔ 


Interview: Plawasha

س۱:ا ¿پ نے اعلی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟اپ کی تعلیم کیا ہے؟ 
ج:میںنے گورنمنٹ اسکول سے تعلیم حاصل کی گورنمنٹ کالج سے انٹر کرنے کے بعدوہی سے بی کام کی ڈگری حاصل کی۔سندھ یونیور سٹی سے اکنا مکس میں ما سٹر کیا۔ اس کے بعدسندھ سند یونیورسٹی سے ہی © © © © ©ایم۔اے جرنلزم کیا۔تھیسس دیر میں جمع کروانے کی وجہ سے ڈ گری نہیں ملی۔
س۳:میڈ ےا میں ا ¿پکو دلچسپی کیوں ہوئی؟
جواب:ایم اے جرنلزم کرنے کے بعد میں جاب کی تلاش میں تھا۔میرا رابط بھائی کے دوست رئیس کمال سے ہوا جنگ اخبار میں کام کرتے ہیں خبر بنا کر دو ۔جب میں نے خبر بنائی انہیں پسند ا ¿ئی جب وہ خبر جنگ اخبارمیںشائع ہوئی تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔اس کے بعد مجھے اور دلچسپی پیدا ہوئی۔
س۳:آپ نے پہلی رپوٹنگ کس شمارے پر کی؟
ج:بچوں کے مسائل پر اور عورتوں کے مسائل پر اسکے علاوہ اور بھی دیگر اہم شمارے پر رپوٹنگ کی ہے۔
س۴: آپ کی نظر میں ایک اچھے رپوٹر کو کیسا ہونا چاہئے؟
ج:رپوٹر کواپنے شہر صوبے اور پورے پا کستان کے حساب سے معلوما ت ہونی چاہئے۔بغیر کسی مصلیحا ت یا دباﺅ کے عوام کے سا منے لے آئے۔میری نظر مین ایک اچھا رپو ٹر وہی ہے جس کے پاس ہر معلومات ہو۔
س۵:آپ کی نظر میںمیڈیاکیاہے؟
ج:میری نظر میں میڈیا بہت اچھا ہے میڈیا عوام کو ہر خبر سے با خبر رکھتا ہے۔میڈیا رسالت کاچوتھاستون ہے اور پاکستان کی موجودہ ترقی اور ادوروں کے استحکا
ہس۷:آگر آپ رپوٹرنہ ہوتے تو کیا ہوتے؟
ج:میں رپوٹر نہ ہوتا تو اچھا گٹارسٹ ہوتا مجھے گلو کا ری کا بہت شوق تھا۔
س۸:آپ کی کوئی ایسی خوا ہش جو پوری نہ ہوئی ہو؟ میڈیا کے حوالے سے؟
ج:میری خواہش ہے کہ میڈیا کے طلبہ کے لئے ایک ایسا ادارہ بناےا جائے جس مےں انہےں کام سکھاےا جائے ٹرےننگ دی جائے تا کہ انہیں جاب کے لئے مشکل نہ ہو ۔
س۹: میڈےا نے چار سالوں سے صدر آصف زرداری کو ہی ٹارگٹ کیوں بنا کر رکھا کرپشن کے حوالے سے؟
ج:صدر آصف زرداری نے آئےن کو بحال کرواےا اےن۔ایف۔سی ایوارڈ لے کر آئے۔
س۰۱: ماس کمیونکشن کے طلبہ کے لئے کوئی پیغام؟
ج: ماس کمیونکیشن کے طلبہ کو زیادہ سے زیادہ پریکٹیکل کام کروایا جائے کیوںکہ جب انٹرنشپ کے لئے آتے ہےں کام نہیں کر پاتے ۔طلبہ کو چاہیئے روزانہ اخبار پڑھیں خبریں دیکھیں اور موجودہ حالات سے با خبر رہیں۔

گرام میں کمی پھر بھی قیمتوں میں اضافہ

Name: Palwasha / Part III / Roll #. 56
(Article)

پلوشہ خان
بجٹ گرام میں کمی پھر بھی قیمتوں میں اضافہ
ہر گزرتے دن کے ساتھ ہی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔تمام تر کوششوں کے باوجود ٰہ اضافہ جاری ہے۔ اس بڑھتی ہوئی آبادی کو کھلانے کے لئے بھی پیسہ چاہیے، اور پیسے کےلئے ذریعہ معاش۔ ہمارے ملک کی آبادی کا 56 فیصد مڈل کلاس میں شمار ہوتا ہے۔ اور مڈل کلاس بندہ ہمیشہ اس بات پر دھیان دیتا ہے کہ کس طرح خرچے کنٹرول کئے جائیں۔اور اس کم آمدنی پر گھر کا گزارہ کیا جائے، تو اس حوالے سے اب وہ متبادل ذریعہ تلاش کرتا ہے اور گھر کے خرچوں کو پورا کرتا ہے، لیکن گھر میں عورتیں بھی تو ہوتی ہیں جنھیں شوق ہوتا ہے کہ وہ ہر لحاظ سے اچھی ہوں انسان جب بھی کسی کو دیکھتا ہے تو اس کی پہلی نظر عورت کے چہرے پر پڑھتی ہے اب عورتیں جہاں دوسری چیزیں شوق سے خریدتی ہیں وہاں سب سے زیادہ وہ کاسمیٹیک کی خریداری کرتی ہیں اب آتے ہیں اصل مدے ہر ہم آپ کو ایسے حقائق بتاتے ہیں جن سے آپ کو کاسمیٹیک پروڈکٹ کی بہت ساری چیزوں کی بھیانک حقیقت آپ کے سامنے آجائے گی۔ کافی سارے ہیرپرڈکٹ کو ہم نے مارکیٹ سروے کیا اور پھر اس حیرت انگیز حقیقت سے ایک پردہ اٹھایا اور ان کا کھلا سچ لوگوں کے سامنے لا کر دکھایا، جب ہم نے ہمارے کئے گئے سروے پر پرائس دیکھی اور کچھ عرصے پہلے کئے گئے سروے کی پرائس سے ملایا تو اس میں حیرت انگیز اضافہ دیکھا گیا، جب اس کا وزن چیک کیا گیا تو اس میں بھی کافی حد تک کمی دیکھی گئی، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہمیں زیادہ پیسوں میں کم چیز ملے اور ہم اپنی رضا خوشی سے وہ چیز بنا کسی پریشانی کہ خرید لیتے۔ 

آخر کیوں؟ اس کیوں کا جواب ڈھونڈنے نکلے تو مزید کچھ حیرت انگیز حقائق ہمارے سامنے آئے، پھر لوگوں کا ردعمل دیکھنے کے لائق تھا۔ ہم نے جب اس سوال کو عوام کے سامنے رکھا تو عوام کے جوابات بھی کچھ اس طرح تھے، ہم یہ پروڈکٹ خریدتے ہیں کیونکہ ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں اور یہ ہماری زندگی کا ایک حصہ ہے۔ اور اسے استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ ضروری ہے ہم اسے چھوڑ کر اپنا نقصان نہیں کر سکتے۔ ایک تو انھوں نے پروڈکٹ کی پرائس بڑھا دی دوسری اس کی مقدار بھی کم کردی، اگر یہی ہوتا تو یہاں تک بھی بات ٹھیک تھی پھر اب انھوں نے پروڈکٹ کے میعار کو بھی بیگاڑ دیا۔ چیزوں کی پرائس میں کمی بیشی کیلئے ایک بزنس کا قانون بھی ہوتا ہے۔ جسے (ڈیمانڈ اور سپلائے) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جب ڈیمانڈ بڑھتی ہے اور سپلائے کم ہو جاتی ہے کیونکہ ایک فیکٹری جو ریگولر 10,000 پروڈکٹ تیار کرتی ہے اور اچانک سے 1 لاکھ پروڈکٹ کی ڈیمانڈ آجائے تو وہ اسے کیسے پورا کرینگے۔ تو ظاہر ہی بات ہے جب پروڈکٹ شارٹ ہو جاتا ہے تو اس کی پرائس بھی بڑھتی ہے، اور ڈیمانڈ پوری کرنے کے چکر میں میعار بھی متاثر ہوتا ہے۔ لیکن یہاں پر کچھ اور بھی چیزیں ہیں جب یہ پرائس بڑھتی ہیں اور وہ ہیں گورنمنٹ کی جانب سے عائد کردہ بھاری ٹیکسز اس بات کا انکشاف sunsilk شیمپو کے کمپنی کے مینیجر نے اس وقت کیا جب ہم نے یہ سوال ان کے سامنے رکھ دیا انھوں نے مزید بتایا کہ ایک پروکٹ پر جو خرچہ آتا ہے وہ بہت زیادہ ہوتا ہے، اور اس کے علاوہ گورنمنٹ کے بھاری ٹیکسز بھی ۔ اگر ان سے ملائے جائے تو وہ قیمت اتنی بڑھ جائے گی کہ عام آدمی خریدنے سے قاصر ہو جائے گا، اس لئے کمپنی کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ قیمتوں کو کم سے کم رکھا جائے۔ اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہوتو یہ بوجھ عوام کو اٹھانا پڑھتا ہے۔
عوام کو اسے پرائس سسٹم کے خلاف بغاوت کرنی چاہیئے اور پروڈکٹ کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ تاکہ پروڈکٹ کمپنی اور گورنمنٹ ہوش کے ناخن لیں ، اور عوام سے زیادہ پیسے وصول کرکے کم چیزوں والی پروڈکٹ نہ خریدنی پڑیں۔ اور اس 
کے دور میں عوام سکون اور اطمینان کا سانس لے سکیں۔

Practical work was done under supervision of Sir Sohail Sangi

پریس کلب کا بوڑھا بیری


محمد ندیم یوسف
پریس کلب کا بوڑھا بیری
پریس کلب کا بوڑھا بیری ایک ایسی تخیلاتی تحریر ہے جس میں ایک بے زبان کردار کو زبان دی گئی ہے ۔یہ کردار گذشتہ نصف صدی کا خاموش گواہ ہے۔ ذکر ہے یہ اس بوڑھے بیری کے درخت کا جو پریس کلب حیدرآباد پر سایہ فگن ہے اور جس نے اپنی عمر کے 50 سالوں کے دوران پریس کلب حیدرآباد کے سامنے ہونے والے تمام واقعات کو کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھا لیکن محرومی گویائی کے باعث کچھ بھی بولنے سے قاصر رہا بس دیکھتا ہی رہا۔۔۔۔ لیکن آج وہ بول رہا ہے،ہر بات جو اس نے دیکھی گذشتہ 50 سالوں میں ۔

٭ چلیں اب اصل گفتگوکا آغاز کرتے ہیں۔آپ سب سے پہلے یہ بتانا پسند کریں گے کہ آپ یہاں تک پہنچے کیسے؟اور اس مقام کو ہی اپنا مستقل ٹھکانہ بنانے کا خیال کیوں آیا؟
بیری :(تھوڑی دیر گلے کو کھنکھارکر صاف کرتے ہوئے )معاف کیجئے گا ،اصل میں عرصہ دراز سے خاموشی کے بعد بولنے میں کچھ دشواری محسوس ہو رہی تھی۔ہاں تو آپ نے میرے یہاں آنے اور مستقل ٹھکانہ بنانے کے حوالے سے پوچھا ہے ،توآپ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہاں تک پہنچنے میں میراکوئی کردار نہیں البتہ یہاں ٹھہرنے کا فیصلہ میرا تھاتقریبا50 سال قبل جب یہاں اس سڑک پر صرف سیشن کورٹ ریڈیو پاکستان اور اس کے مقابل پرو نیشل بینک کی عمارت ہوا کرتی تھی۔آبادی بہت کم اور ٹریفک نہ ہونے کے برابرتھی۔وہ گرمیوں کی دوپہر تھی ۔ ایک شخص نا معلوم کن خیالوں میںگم یہاں سے گذر رہا تھا۔تنہائی کی وحشت کو کم کرنے کے لیے اس نے کچھ بیر خرید لیے تھے۔ایک یہاں سے گذرتے ہوئے اس شحض نے بیر کھانے کے بعد اسکی گٹھلی ایک پتھرکا نشانہ لیکر اسکی جانب اچھال دی جوکچی زمین پرآکرٹھہر گیا ا ور کچھ عرصہ بعد جب ہواﺅں کے جھکڑ سے مٹی کی کچھ تہیںاس پر جمع ہوئیں اور ایک برسات کے بعد میرا ننھا وجود ظاہر ہوگیا۔رہی بات اس جگہ کو مستقل ٹھکانہ بنانے کی تواس کا جواب کسی اور موقع کے لئے رہنے دیں۔
٭آپ تو بڑی تفصیل میں چلے گئے۔گفتگوکچھ زیادہ طویل نہیں کرتے آپ؟بہرحال اب میں اصل موضوع کی طرف آنا چاہتا ہوں۔یہ بتائیے کہ آپ نے یہاں سب سے دلخراش منظر کون سا دیکھا؟
بیری :میرے عزیز !در اصل طویل خاموشی کے بعدجب کسی کو بولنے کا موقع ملتا ہے تو وہ یہی کرتا ہے جو میں کر رہا ہوں۔ بہرحال آپ کہتے ہیں تو میں اختصار سے کام لوںگا۔آپ کے سوال نے مجھے ایک بار پھر اسی کرب میں مبتلا کردیا جس سے میں 20سال قبل گذرا تھا۔وہ ستمبرکی ایک سوگوار سی دوپہر تھی جب شہدائے ٹنڈوبہاول کے لواحقین ۔انصاف کی تلاش میں پریس کلب کے سامنے پہنچے تو تمام فوٹو گرافرز اور رپورٹرز ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔مظاہرین میں ایک بوڑھی خاتون مائی جیندو اپنی 2 جواںسال بیٹیوں کے ساتھ بلک بلک کربین کررہی تھی۔ وہ غم سے نڈھال اپنے خاندان پر ہونے والے بدترین ظلم کی داستان صحافیوں کو سنا رہی تھی۔وہ بتا رہی تھی کہ کس درندگی کے ساتھ اس کے شوہر ،بیٹوں اور قریبی عزیزوں کو ایک قطار میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیاگیا ناصرف انہیں بے دردی سے قتل کیا گیا بلکہ میڈیا کے سامنے انہیں ڈاکو اور دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا۔وہ انصاف نہ ملنے پر بری طرح مایوس تھی۔بالآخر احتجاج کے دوران وہ دلخراش لمحہ بھی آیا جب انصاف سے مایوس مائی جیندو اور اسکی 2 جواں سال بیٹیوں نے تیل چھڑک کر خود کو آگ کی نذر کر دیا۔کچھ صحافی بچانے کے لیے دوڑے بھی لیکن جلتی آگ میں کون ہاتھ ڈالتا ہے۔کچھ دیر تڑپنے کے بعد تین لاشے زمین پر بے جان پڑے تھے ۔میں بہت مجبور تھا کچھ نہ کر سکا ،بس آئینہ کی طرح دیکھتا رہ گیا؟
٭انسانی بے حسی کا کوئی واقعہ جو آپ کے ذہن پر نقش ہوگیاہو ؟
  بیری (سردآہ بھرتے ہوئے)میری سمجھ میں یہ نہیں آتاکہ آپ انسان تواشرف المخلوقات ہو پھر آپ لوگوںکے سینے میں دل پتھر کا کیوںہے ؟کیا منوبھیل سے اس کے بیوی بچے چھیننے والاسینے میں دل نہیں رکھتا ؟ اور کیا تمہاری حکومتیں اور نام نہاد NGOs اس قدر بے بس ہیں کہ وہ اس مجبور انسا ن کی مدد بھی نہ کرسکیں ۔یہیں میری چھاﺅ ں تلے اس نے کئی برس گذارے۔بہت سے مگرمچھ کے آنسو بہا نے والے میڈیا کے شوقین سیاستدان آئے ،اخبار ات اور چینلز کی کوریج حاصل کرنے کے لئے بہت سے دعوے کئے لیکن میرا دوست منو بھیل آج بھی انصاف سے محرم ہے۔
٭SRTC متاثر غلام محمد ڈیپر اور اس کے ساتھیوں کی کچھ خبردو؟
بیری:- (کچھ لمحے خالی نظروں سے اپنی جڑ کے قریب زمین کو دیکھتے ہوئے )ان بیچاروں کی خبر ضروردوںگا ۔ یہ خبر ہی تو تھی جو حکمرانوں کی طرف سے نہیں لی گئی اور وہ بیچارے خبر گیری کے انتظارمیں طویل عرصے تک اسی زمین پر بیٹھے رہے اور اسی انتظار میں ان میں سے بہت سے بوڑھی آنکھیں بند ہوگئیں ۔انکی زندگیاں ختم ہوگئیں لیکن حکمرانوں کی بے حسی ختم نہیں ہوسکی ۔مجھے یاد ہے کہ بوڑھے اور ریٹائرڈ SRTC ملازمین میں سب سے تواناغلام محمد ڈیپر ہی تھاجو حکمرانوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ہرروز احتجاج کا کوئی نیا اور اچھوتا ڈھنگ اختیار کرتا تھا ،تاکہ میڈیا والے یکسانیت کا نام دے کران کی خبر کو کِل نہ کردیں ۔اس طرح میڈیا والوںکو ایک اچھی خبر اور فوٹیج تو مل جاتی تھی لیکن اس کے بعد میں ہی دیکھتا تھا کہ وہ میڈیا کے تقاضے پورے کرنے کے بعد میری چھاﺅں تلے بیٹھ کر کتنی دیر کھا نستا اور اپنی سانسیں درست کرتا تھا۔ میں سوائے ٹھنڈی چھاﺅ ں دینے کے اسکے لئے کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ 
٭ارے وہ بوڑھا نور محمد کون ؟تھا جو اکثر اپنے مطالبہ کے حق میں چند تصاویر لے کر گم سم گھنٹوں آپ سے ٹیک لگائے بیٹھا رہتا تھا؟
بیری :- ہاں خوب یا د دلایا آپ نے ،کافی عرصہ سے نظر نہیں آیا۔ مر گیا ہوگا بیچارہ۔شاید اس کی بے سکون زندگی کو موت ہی کے سہارے کی ضرورت تھی ۔اس کے ہاتھوں میں ہی نہیں بے رونق آنکھوں میں بھی اپنے پیاروں کی تصویر یں نظر آتیں تھیں جو تمہارے ایک ادارہ کی بد عنوانی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
٭ادارہ کی بد عنوانی کی بھینٹ ۔کیا مطلب؟ 
بیری ©:-ارے دوست !اگر اس ادارہ کے انسپکٹر اور دیگر متعلقہ افسران فر ض شنا سی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے برابر والی عمارت کا انہدام اپنی نگرانی میںکراتے تو نور محمد کا مکان اس طرح زمیں بوس نہ ہوتا۔کیا تم نہیں جانتے کہ اس طرح گھر میں سویا ہوا نور محمد کا پورا کنبہ زمین کا پیوند بن گیا ۔تم بھی ایک انسان ہوذرا سوچوجس شخص نے اپنے بیوی بچوں اور پوتے پوتیوں کے26 مسخ شدہ لاشے دیکھے ہوں توشاید موت ہی اس کے نا قابل برداشت غم کا علاج ہوسکتی ہے۔ 
٭پچھلے دنوں میں نے یہاں سے گذ ر تے ہوئے آپ کے قریب ہی ایک غریب سے خاندان کو کوئی احتجاج کرتے دیکھاتھا ،خاصے لوگ جمع تھے ۔ان کا کیا مسئلہ تھا ؟
بیری :- ارے بھائی ایسے مظاہرین تو سالہاسال سے ہر روز دیکھ رہا ہوں ۔ پتہ نہیں آپ کس کی بات کر رہے ہیں۔
٭ارے بابا !وہ جو بہت بوڑھے اور کمزور سے والدین تھے اور ان کے ساتھ 16 - 17سال کی خوبصورت لیکن بینا ئی سے محروم لڑکی تھی ۔
بیری :- ہاںہاں، یا د آگیا( کچھ دیر خاموش ر ہنے کے بعد)تم انسان لوگ میری سمجھ سے باہر ہو۔بعض اوقات تو انسانیت سے درندگی بھی شرماجاتی ہے۔تمہیںنہیںمعلوم اس کے ساتھ کیا ہوا ؟میں بتاتا ہوں ۔دراصل وہ خاندان حیدرآباد کے قریب واقع ایک گوٹھ میں رہائش پذیر ہے ۔بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے ضعیفی کے باوجود ماں باپ دونوں ایک زمیندارکی زمینوں پرکام کرتے تھے ۔لڑکی کی ایک ہفتہ بعد شادی تھی ۔برادری کا لڑکا ہونے کی وجہ سے قوت بصارت سے محرومی کے باوجود اس اللہ کے بندے نے لڑکی کو اس معذوری کے ساتھ بھی قبول کر لیا تھا ۔اس روز بوڑھے والدین حسب معمول مزدوری کے بعدتھکے ہارے گھر پہنچے ہی تھے کہ زمیندارکا لڑکااپنے 4 اوباش دوستوں کے ہمراہ گھر میں داخل ہوا اور بوڑھے والدین کورسیوںسے باندھنے کے بعد ایک کمرے کے چھوٹے سے مکان میں ان کی آنکھوںکے سامنے پانچوں درندوںنے ان کی پھول سی بچی کو باری باری بھنبھوڑ ڈالا ۔بوڑھے،کمزوراور لاچار والدین اس لمحے یہ سوچنے لگے کے کاش ان کی بیٹی کی بجائے وہ خود نابینا ہوتے تو آج یہ درند گی انہیںدیکھنے کو نہ ملتی ۔اتنا کہنے کے بعد بیری شدت جذبات سے کانپنے لگا،اس نے دیوانگی کے عالم میں اپنے پتے نوچ ڈالے ۔بہت سے پتے ہواﺅں میں تیر تے ہوئے دور تک بکھرگئے ۔
بیری کی غم ناک حالت دیکھ کر میںبھی غم اور غصے کی ملی جلی کیفیت میںکچھ لمحے گویا سکتے میںآگیا ۔لیکن پتوں پرکسی شخص کے چلنے سے پیدا ہونے والی چرچراہٹ کی آوازپر یکلخت پلٹ کر دیکھا تو فتح شاہ فراق کو اس طرف آتے دیکھا جس کے ایک ہاتھ میں سرخ وتازہ گلاب سے بھرا ٹوکرا تھا اور وہ وہاں سے گذرنے والے ہرشخص کو نہایت محبت بھری مسکراہٹ کے ساتھ گلاب کے پھول بانٹ رہا تھا ۔ابنِ آدم کے یہ دونوں روپ دیکھ کر میری گویائی جواب دے چکی تھی ۔اچا نک بے زبان بیری کی آواز میرے کانوں میںآئی ۔
"آپ کے جس سوال کا جواب میں دینے سے گریزکررہا تھا ،اس کا جواب یہ شخص یعنی فتح شاہ فراق ہی ہے جو واقعی ایک انسان ہے۔میں اسے برسوں سے دیکھ رہا ہوں۔انسانوں میں محبت اور بھائی چارگی کا پر چارکرنے والا یہ شخص گا ہے بگاہے یہاں آتا ہے اور بلا تفریق رنگ ونسل ،اور فرقہ ومسلک تمام انسانوں کو محبت کے پھول بانٹتا ہے ۔ میرے یہاںمستقل قیام کی واحد وجہ یہ شخص ہے،جو مجھے انسا نوںسے مایوس نہیں ہونے دیتا۔یا اللہ انسانوں کو اور بہت سے فتح شاہ فراق عطا فرما © "۔
میں نے بیری کی دعا پر آمین کہہ کر سر اٹھایا اور انٹرویو کا شکریہ اداکرنا چاہاتو میرے الفاظ فضا میں بکھر کر رہ گئے ۔،،،،،،،،،،
 بیری دوبارہ خاموش ہو چکاتھا۔ 
Practical work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi

کریئر کاونسلنگ کی اہمیت

آرٹیکل: مریم خان
کریئر کاونسلنگ کی اہمیت
کیریئر کاونسلنگ ایسے عمل کو کہتے ہیںجس کے ذریعے طالب علموں کو اپنا کیرئیر بنانے اور اپنے لئے صحیح کیرئیر منتخب کرنے میں مدد ملتی ہے۔کیریئر کاونسلنگ میں ایسے پروگرامز ہوتے ہیں جس میں کانسلر طلباءکو یہ بتاتے ہیں کہ ان کی عملی زندگی کے لئے کونسی فیلڈ صحیح ہوگی یا کس فیلڈ میں وہ کامیابی حاصل کر سکتے ہیںجو ان کے انٹرسٹ،اسکلز اور ان کی قابلیت کے مطابق ہو۔
ہر طالب علم کے لئے کیریئر کانسلنگ بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ یہ ہی ان کے آنے والے مستقبل کی بنیاد ہوتی ہے۔اگر طالب علم صحیح وقت پر اپنے انٹرسٹ کے حساب سے فیلڈ کا انتخاب نہیں کرتے تو یہ آگے چل کر ان کے لئے بڑا مسئلہ بن جاتا ہے اور پھر ان کا پورا کیریئر تباہ ہو جاتا ہے۔موجودہ دور میں بھی کیریئر کانسلنگ کی کمی طلباءکا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔وہ اس بات کو سمجھ ہی نہیںپاتے کہ ان کے لئے کونسی فیلڈ بہتر ہے اور کونسی نہیںخاص طور پر میٹرک کرنے کے بعد طالب علم سب سے زیادہ اس پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔انہیں اس بات کا اندازہ نہیں ہو پاتا کہ کونسا مضمون انہیں سوٹ کرتا ہے۔ہر والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ بس ڈاکٹر یا انجینئر بنے ایسے لوگوں کے لئے باقی دوسری فیلڈز کوئی معنٰی ہی نہیں رکھتیںاور اسی وجہ سے وہ اپنے بچوں پر پڑھائی کے لئے دباﺅ ڈالتے ہیں۔کچھ بچوں کا تو جھکاﺅ ان ہی فیلڈز میں ہوتا ہے لیکن بعض بچے نہ چاہتے ہوئے بھی ماں باپ کے کہنے پر اپنے انٹرسٹ اور اسکلز کو بغیر جانے مضمون کا انتخاب کر لیتے ہیں۔یہ ہی ان کی سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے نتیجتا ًوہ اپنی مکمل توجہ ان سبجیکٹس کو نہیں دے پاتے اور ناکام ہو جاتے ہیں۔کیونکہ حقیقت یہ ہی ہے کہ جو کام آپ انٹرسٹ کے بغیر کرتے ہیں وہ کبھی بھی پوری توجہ سے نہیں ہو تااور پھر بگڑ جاتا ہے۔
 کریئر کاونسلنگ میں ضروری ہے کہ آپ کو تمام فیلڈز کے بارے میں بتاےا جائے۔ہر طلبہ کو اچھی طرح سے سمجھایا جائے کہ کس فیلڈ کا کیا اسکوپ ہوگاطلبہ کی صحیح رہنمائی کی جائے انہیں ان کے انٹرسٹ اور اسکلز کے مطابق مشورہ دیا جائے۔اگر طلبہ کی صحیح رہنائی نہیں ہوگی تو ان کا مستقبل تبا ہ ہو جائے گااور اس کا نقصان پورے معاشرے کا ہوگاکیونکہ یہ طلبہ ہی تو مستقبل میں ہمارے ملک کو ترقیاں حاصل کروائینگے۔اس کے بعد سب سے اہم چیز ہوتی ہے hardwork ۔جب آپ اپنی فیلڈ کا انتخاب کر لیتے ہیں تو پھر پوری محنت اور لگن کے ساتھ اس میں کامیابی حاصل کریں ،بغیر محنت کے کوئی شخص کامیاب نہیں ہوتا اسی لئے ہر فیلڈ میں hardwork سب سے ضروری ہوتا ہے۔بے روزگاری کی وجہ بھی کریئر کاونسلنگ کی کمی ہوتی ہے۔طلباءبغیر اسکوپ جانے فیلڈ منتخب کر لیتے ہیں پھر محنت سے اس میں کامیابی بھی حاصل کر لیتے ہیں لیکن جب عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو انہیںاس فیلڈ میں کوئی نوکری نہیں ملتی تب انہیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کس جگہ غلطی کی ہے۔
صحیح کیریئر کا انتخاب کرنا ضروریہے کیونکہ غلط فیلڈ میں جاکر آپ اپنے اندر موجودہ صلاحیتوں کو بھی کھو دیتے ہیں اور پھر آگے کوئی ترقی نہیں کر پاتے۔اسی لئے طلباءکی صحیح طرح رہنمائی کرنی چاہیئے۔
 طالب علموں کو چاہیئے کہ وہ اچھی طرح اس بات کو سمجھیں اور محسوس کریں کہ انہیں کن سبجیکٹس میں انٹرسٹ ہے اور وہ آگے چل کر کس طرح اس میں کامیاب ہو سکتے ہیںاور پھر اسی فیلڈ کا انتخاب کریں۔والدین اور اساتذہ کو چاہیئے کہ وہ طلباءپر کسی مخصوص فیلڈ کے لئے دباﺅ ڈالنے کے بجائے انہیں ہر فیلڈ کے اسکوپ کے بارے میں بتائیں ،انہیں ہر معلومات سے آگاہ کریں تاکہ انہیں فیصلہ لینے میں آسانی ہو ۔اس حوالے سے میڈیا ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔میڈیا کو چاہیئے کہ وہ کیریئر کانسلنگ کے پروگرامز دکھائیں اور ہر فیلڈ کے اسکوپ کے حوالے سے مکمل معلومات طلباءکے لئے فراہم کریں ۔اس کے علاوہ اسکول اور کالجز میں کیریئر کانسلنگ کی ورک شاپز رکھوائی جائیں اور طالب علموں کو سمجھنے میں مدد کی جائے کہ ان کے لئے کونسی فیلڈ بہتر رہے گی۔یہ ہی وقت ہوتا ہے صحیع فیصلہ لینے کا اور اسی پر طلباءکا پورا مستقبل ٹِکا ہوتا ہے۔
مریم خان اسٹوڈنٹ پارٹ تھری، ماس کام سندھ یونیورسٹی جام شورو، سال 2012
یہ پریکٹیکل کام سر سہیل سانگی کی زیر نگرانی کیا گیا

یُمنٰی ریاض۔ انٹرویو

یُمنٰی ریاض۔ بی ایس پارٹ 3۔ رول نمبر: 95
انٹرویو
مس نگہت زیبا نے ضلع سانگھڑ کے شہر شہدادپور سے اپنے ابتدائی ادبی و تعلیمی کیریئر کا آغاز کیا اور شہر کے ادبی حلقوں میں اپنی شناخت کروائی۔کئی رسوالوں و اخبارات میں اب تک آپکی بے شمار تحریریں شائع ہو چکی ہیں۔ اردو کی پروفیسر کی حیثیت سے کئی اسکول و کالجز میں پڑھا چکی ہیں۔ 2003 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ ”دھوپ کے پار“ کے نام سے بھی شائع ہو چکا ہے۔ آپ سندھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے Board of Studies کی رکن بھی ہیں۔ زبیدہ کالج کی پرنسپل و ہاسٹل نگران بھی رہ چکی ہیں۔ آج کل”گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج ہالا“ میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہیں۔
سوال: اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیے۔ گھر کے ماحول نے آپ کی کیسے تربیت کی اور آپ پہ کیا اثر ڈالا؟
جواب:میری تعلیم کی ابتداءمیرے والد صاحب سے ہوئی جو میرے سب سے اچھے استاد ہیں جن پہ مجھے آج تک فخر ہے۔ وہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ سات زبانوں کے ماہر تھے۔ مجھے قرآن شریف بمعہ ترجمے کے انہوںنے ہی پڑھایا۔میں نے شاعری و مضمون نگاری بھی اُن ہی سے سیکھی۔ اس کے علاوہ میں نے بہت چھوٹی عمر سے ہی اخبار پڑھنا اور اشعار کی تشریح کرنا سیکھ لیا تھا۔ اس کے بعد کی اپنی تمام ابتدائی تعلیم شہدادپور سے ہی حاصل کی ۔ بعدمیں بھی مجھے قدم قدم پر مہربان، شفیق اساتذہ کی رہنمائی ملتی رہی جنہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ اسی باعث میں سیلف میڈ ہونے پر یقین نہیں رکھتی ہوں کیونکہ میرے خیال سے رہنمائی کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ میں شروع میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی لیکن والد صاحب کی خواہش تھی کہ میں اردو کی پوفیسر بنوں۔ اس خواہش کو وپورا کرنے کی خاطر میں نے ایم اے اردو کا انتخاب کیا۔ میری تربیت اور تعلیم میں گھر کے اس ادبی ماحول کا ہی ہاتھ ہے اگر مجھے وہ ماحول میسر نہ ہوتا توآج میں شاید اس مقام تک نہ پہنچ پاتی۔ 
سوال: ہالا گرلز کالج کا قیام کب اور کن ضروریات کے تحت عمل میں لایا گیا؟
جواب: انٹیریئر میں کالج ویسے بھی بہت کم ہوتے ہیں اسی لئے ہالا میں بھی گرلز کالج بنانے کی ضرورت پیش آئی کیوں کہ ہالا کی بچیوں کو کوئی بھی گرلز کالج بہت دور پڑتا تھا۔ مٹیاری سمیت اُس وقت قریب میں کہیں بھی کوئی گرلز کالج نہیں تھا۔ ہالا سے بچیاں سکرنڈ ہی جا سکتی تھیں، شہدادپور جانے کا ان دنوں تصور ہی نہ تھا۔ کچھ لڑکیاں بوائز کالج میں داخلہ تو لے لیتی تھیں لیکن ریگولر کلاسز نہیں لے سکتی تھیں کیوں کہ ہالا کا ماحول ایسا نہیں ہے۔ ان حالات کی بناءپر ہالا میں گرلز کالج بنانے کی ضرورت پیش آئی اور یوں 1986میں گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج ہالا قائم ہوا۔
سوال:بطورگرلز کالج پرنسپل کے کسی پہ کیا فرائض و ذمہ داریاںعائد ہوتی ہیں؟
جواب: کسی بھی ادارے کو چلانے کے لئے ایڈمنسٹریشن کا سینس ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ آپ کا اپنی پیشے سے مخلص ہونا بہت ہی اہمیت رکھتا ہے۔ کالج میں ادبی سرگرمیوں کا انعقاد ہونا چاہئے کہ اس سے بچوں کو آگے آنے کا موقع ملتا ہے۔ ادارہ چاہے اسکول ہو یا کالج اس کو خلوص سے چلانا چاہئے اور اس مین ایسی صحت مند سرگرمیاں ہونی چاہئیں جس سے طالب علموں کو آگے آنے کا موقع ملے۔ اسٹاف کی تکلیفوں کا بھی احساس کرنا چاہئے۔ نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں پہ ضرور توجہ دینی چاہئے۔ صفائی اور پینے کے پانی کا مناسب انتظام ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ یہ سب ذمہ داریاں کسی بھی ادارے کے پرنسپل پر لاگو ہوتی ہیں۔
سوال: آپ مشاعروں میں باقاعدہ حجاب کے ساتھ شریک ہوتی رہی ہیں، وہاں آپ کو سب کی جانب سے کیسا رسپانس ملا؟کیا واقعی حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟
جواب: یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ یہ خود عورت پہ منحصر کرتا ہے کہ وہ خود کو نمایاں کرے یا حجاب کرے۔ بہت سی شاعرات ایسی بھی ہوتی ہیں جو ماڈل بن کر آتی ہیں انکو بھی لوگ سنتے ہیں اور حجاب، اسکارف والیوں کو بھی سنا جاتا ہے۔ میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ لوگ کلام پہ تعریف کرتے ہیں اور بے باکی پر ہوٹنگ کرتے ہیں۔بلکہ مجھے اس کا بہت فائدہ رہا کہ کبھی بھی لوگ مجھ سے ناجائز فری نہیں ہوتے، نہ ہی کبھی مجھ پہ ہوٹنگ کی گئی۔ ابھی بھی میری بے شمار سوشل، ویلفیئر اور ادبی سرگرمیاں ہوتی ہیں اور ہر جگہ میں نقاب و حجاب مین ہی ہوتی ہوں لیکن میں نے اپنا حجاب کبھی بھی نہیں چھوڑا۔ نہ ہی کبھی مجھے اس پہ شرم ےا ہچکچاہٹ محسوس ہوئی اور نہ ہی کسی کے اعتراض کا سامنا کرنا پڑا۔ بلکہ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ اسکی بدولت لوگ آپ کی زیادہ عزت کرتے ہیں۔
سوال:آپ کے خیال سے کیا لڑکیوں کے لئے علیحدہ تعلیمی ادارے ہونا ضروری ہیں؟
جواب: میں سمجھتی ہوں کہ اگر مخلوط تعلیم ہو تو اس میں مقابلے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ ہاںلیکن میٹرک تک تعلیم مخلوط نہیں ہونی چاہئے کہ وہ عمر اور ہوتی ہے۔ اس کے بعد جب بچہ شعور کی عمر میں داخل ہوتا ہے تو مخلوط تعلیم میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے لڑکیوں میں زیادہ اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ انہیں معاشرے میں چلنے کاسلیقہ آتا ہے اور وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ لوگوں میں اٹھ بیٹھ سکتی ہیں۔ لیکن یہ کہ عورت حجاب اور اپنی حدود میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کرے تو نہ تو کوئی اس کا بے جا مذاق اڑائے گا اور نہ ہی ناجائز فری ہونے کی کوشش کرے گا۔ اس کے علاوہ تمام تعلیمی ادرے، انکا ماحول، نصاب اور ان کا سلیبسس سب ایک ہی ہونا چاہئے۔
سوال:طالب علموں کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
جواب: بدقسمتی سے آج کل طالب علموں کا رجحان کھیل تماشوں کی طرف زیادہ ہے۔ ان سے میںیہ کہنا چاہوں گی کہ وہ پندرہ سال سے پینتیس سال تک عمر کے جو بیس سال ہیں اس عرصے کو ضائع نہ کریں اور ان سالوں میں ہی اپنا کیریئر بنا لیں تاکہ آپ معاشرے کے ایک مفید اور ذمہ دار شہری بن سکیں۔ بے جا مشغلوں کے بجائے سنجیدہ رویہ اختیار کریں کیونکہ یہ ہی وہ عمر ہے جس میں آپ اپنی قوتوں اور طاقتوں کا صحیح استعمال کر کے اپنے بڑھاپے کو بھی سنوار سکتے ہیں۔ 

زندگی اور ماحولیاتی الرجی

روزمرہ کی زندگی اور ماحولیاتی الرجی
جس طرح یہ دنیا ترقی کر رہی ہے ساتھ ساتھ اس کے مسائل بھی ترقی کرر ہے ہیںجدہر نظر دوڑائیں ہر کوئی مسائل میں گہرہ نظرآتا ہے۔اس ہی وجہ سے لوگوں نے عام ےا چھوٹی موٹی بیماریوں کی طرف دھیان دیناچھوڑدیا ہے۔
جس کی وجہ سے یہ بیماریاں خطرناک نوعیت اختیار کر لےتی ہیںجس طرح استھیمہ یا سانس کی بیماریاںبھی عام دیکھنے میں آتی ہیں جو کہ دےکھنے اور سننے میں تو مسا وی نوعیت کی بیماریہے لیکن اگر اس میںاحتےاط نہ کی جائے تو وہ انسان کو مفلوج بنا کر رکھ دیتی ہے۔
اسی لئیے اس انٹرویو کی مدد سے اس قسم کی بیماریوں کو سمجھنے کے لیئے اک چھوٹی سی کاوش کی گئی ہے۔ 
نام:ڈاکٹر شفیع شیخ
تعلیم ©:ایم بی بی ایس،ڈی ایل او ۔۔۔ ایف سی پی ایس(اسپیشلائیزیشن)
 ٓ ڈاکٹر شفیع شیخ پچیس سال سے اس مسیحائی شعبے سے وا بستہ ہیں۔ڈاکٹرصاحب کے والد بھی ڈ اکٹر تھے پر یہ اس شعبے میں حادثاتی طور پر آئے کارڈیو لو جسٹ بننا چاہتا تھے۔ 
س :ڈاکٹرصاحب الر جی کیا ہے؟
 ڈاکٹرصاحب ۔ کو ئی بھی فورا ًچیزریئیکشن کرتی ہے وہ الرجی کہلاتی ہے یہ کسی بھی چیز سے ہوسکتی ہے الرجی دو طرح ہوتی ہے۔کھا نے کے ذریعے مثال کے طور پرکچھ لوگوں کوکےلے سے،کچھ کو انڈے سے،کچھ کو چاول سے،اور کچھ کو مچھلی اور گائے کے گوشت سے۔اسی طر ح سا نس کے ذریعے یا ناک سے کچھ لوگوں کو مٹی سے،ہوا سے،پودوں سے،سگریٹ سے ،ہر قسم کے دھو ائیں سے،خوشبو ﺅں سے،پودوںسے،اور کچھ کو پردوں اور کا رپٹ سے حتی کہ اس بیماری کی کوئی خاص وجہ نہیں ہو تی یہ ما حولیاتی تبدیلی سے لے کر قوت © مدافعت کی کمی سے بھی الرجی ہو سکتی ہے۔
َِِِِِِِِِ ¿ µ µس آیا ےہ ایک ہی بیما ری ہے ےا مختلف بیماریوں کے نام۔
 ڈاکٹرصاحب ۔ ایک ہی بیماری ہے لوگوں میں مختلف نوعیت سے پا ئی جاتی ہے ای این ٹی کے لحا ظ سے اصل میں سا نس کے راستے ہی ہو تی ہے۔
س ©:کیالرجی ایک وبہ کی طرح پھیل رہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ :نہیں،بلکل نہیںلیکن ہماری ما حولیاتی آلودگی کی وجہ سے جلد پھیل رہی ہے۔
س :الرجی دوسری بیماریوں سے کس طرح مختلف ہے۔
ڈاکٹرصاحب ۔: الرجی مٹی کے مخصو ص نو عیت کے زرات جنہیں ہا ﺅس ڈسٹ ما ئٹ کہتے ہےں ان کی وجہ سے پھیلتی ہے جو خا ص طو ر پر مختلف ہیں۔
س :اس کے ارلی اور لا سٹ اسٹےجیزکےا ہیں؟
ڈاکٹرصاحب ۔: شرو ع میں بس چھینکیں آ تی ہے مثا ل کے طو ر پراگر کسی کو مٹی سے الرجی ہے اور اس نے بچاﺅ نہ کیا ان کی بیما ری خطر ناک حد اختےارکر جاتی ہے اگر اس پر شروع میں تو جہ نہ دی جائے تو ےہ آگے جا کر اےستھیما سویرٹی کو بڑ ھا تی ہے۔
س :آ ےا کیا پو لیو شن کی وجہ سے الرجی فروغ پا رہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: جی ہاں ، ےہ بہت بڑی وجہ ہے ہما رے ملک کا بڑھتا ہوا ٹریفک اوردھواں بیما ری کو فروغ دے رہا ہے آ خر ہم احتےاط کے علاوہ کر بھی کےا سکتے ہیں۔
س :اس کی بڑ ھتی ہو ئی وجو ہات۔
ڈاکٹرصاحب ۔: خا ص طو ر پر ہما ری ماحولیاتی آلو دگی اور کچھ خا ص نہیں،دیکھا جائے تو ہر ملک میں ہی یہ بیماری کسی نہ کسی طرح پھیل رہی ہے بس شکل اور وجوہات الگ ہے۔
س :الرجی ایک فرد سے دو سرے فرد کو منتقل ہوتی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: نہیں ، یہ لگنے اور فرد بہ فرد منتقل ہونے والی بیماری بلکل نہیں ہے،یہ جلدی الرجی سے خاصی مختلف ہے۔
س :یہ وہ بیماری ہے جو ہمارے ملک کی اکثریت میں پارہی ہے۔
ڈاکٹرصاحب ۔ :نہیں ،لیکن اس سے بچنا بھی نا ممکن نظر آتا ہے۔ہم گھر سے نکلنا چھوڑ تو نہیں سکتے،مٹی سے الرجی ہے تو صفائی کرنا چھوڑ ا تو نہیںجاسکتا ان ہی بے احتےاطیوںکی وجہ سے یہ فروغ پارہی ہے۔
س :کیا اس کا علاج بھی دوسری بیمارےوںکی طرح سہل ہے؟  
 ُڈاکٹرصاحب ۔ : کافی سستا اور مفید ہے ،پہلے کچھ ٹیٹسٹ کئیے جاتے ہیںاگر ایک ےا دو چیزوں سے الرجی ہوتو ویکسین بنا کر ا س سے علاج کیا جاتا ہے جسے’ ہا ئیپوسینٹائیزیشن‘ کہتے ہیں یہ علا ج بہت مفید ہے پر جن لوگوں کو زےادہ چیزوں سے ہو ان کے لئیے نہیں ۔
س :بچوں اور بوڑھوں میں اس کی کیا نوعےت ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: بچوں اور بوڑھوں میں اس کی نوعےت تقریباًایک جیسی ہے کیونکہ دونوں ہی میں قوتِ مدافعت کم ہوتی ہے،بوڑھے بھی بچوں کی طرح خود کو بیماری سے نہیں بچا سکتے۔
س :کیامو سمی اثرات بھی اس کے بڑھنے کی وجہ ہو سکتے ہیں؟
ڈاکٹرصاحب ۔: ہاں جب سرد ہوائیں چلتی ہیں تو وہ بھی الرجی کی خا ص وجہ بنتی ہیں۔
س :اس موضوع کو کم اجاگر کیا جاتا ہے جب کے ےہ بہت تیزی سے پھیل رہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ : ہمارے ملک کا المےہ ہے کہ جب تک پانی سر سے نہ گزر جائے ہم کسی چیز پر توجہ نہےں دیتے اگر کسی فرد کو الرجی ہوتی ہے تو وہ جب تک ڈاکٹر کا رُ خ نہیں کرتا جب تک سانس لینا محال نہ ہو جائے۔ اگر اس بیماری کوکنٹرول کرنا ہے توشروع میں ہی اس کا علاج کیا جائے مستقل دوایﺅ ں اور علاج سے لیکن ساتھ ساتھ احتےاط بھی لازمی ہے۔
س :کیا پودے بھی الرجی کی وجہ بن سکتے ہیں؟
ڈاکٹرصاحب ۔: جی ہاں،بہت زیادہ جن لوگوں کو پودوں سے الرجی ہوتی ہے تو پھر انھیں گھر سے پودوں کو دور کرنا پڑتا ہے،کبھی کبھی تو ہم گھر ےا شہر بھی تبدیل کرنے کا مشورہ دےتے ہیں۔
س :کو ئی خا ص نوعیت کی الرجی جو ہمارے علاقے سندھ سے تعلق رکھتی ہو؟
ڈاکٹرصاحب ۔: ’ڈسٹ الرجی ‘کیونکہ ہمارے یہاں مٹی اور صفائی پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے ویسے بھی ہمارا شہر پہاڑی علاقہ ہے تو ہوائیں بھی چلتی ہیں جومٹی اُڑنے کا سبب بنتی ہیںجس کی وجہ سے ہمارے علاقے میں سب سے زیادہ ڈسٹ الرجی پائی جاتی ہے۔
س: لوگوں میں اس بیماری کی اوئیرنیس۔
ڈاکٹرصاحب ۔ : کافی حد تک لوگ اس بیماری کو سمجھ گئے ہیں ،لگاتار آگاہی بھی ہو رہی ہے احتیاط بھی کرنے لگے ہیں
س:کیا یہ بیماری سرے سے ختم ہوسکتی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: اگرانسان میںکسی چیز کی حساسیت پیدا ہو جائے تو وہ ہمیشہ رہتی ہے اسے دوائیوں سے دبایا تو جاسکتا ہے پر ختم نہیں کیا جاسکتا اس سے دوری ہی اختیار کرنا آسان سا حل ہے ورنہ پھر یہ بیماری آگے جا کرسانس کی نوعیت اختیار کر لیتی ہے۔
س :کیا الرجی میں اینٹی بایو ٹکس یا عام ادوایات سے علاج ہوتا ہے یا اس کے لئیے خاص ادوایات کی ضرورت پڑ تی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ : اس کے لئیے خاص اینٹی الرجک سے علاج کیا جاتا ہے جنھیں سائنسی زبان میں ’اینٹی اسٹیمن ‘کہتے ہیں۔
س :کیا ڈاکٹر حضرات اپنا کردار اس بیماری کے خلا ف ادا کررہے ہیں کیونکہ عموماًدیکھنے میں آ یا ہے کہ دوائیاں مہنگی اور علاج طویل ہوتا ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ : ڈاکٹر حضرات مثبت طور پر اس بیماری کے خلاف اپناکردار اداکررہے ہیں جیسے پہلے سرجیکل آپریشن یعنی گوشت جلانے کی مشین کا خاصہ استعمال تھاپر دیکھئیں آجکل یہ بس رکھی رہتی ہے۔
مارکیٹ میں ایسے اسپرے اور نئی دوائیاں(اینٹی الرجک)آ گئی ہیںجس کی بدولت سرجیکل آپریشنز کی ضرورت نہیں پڑتی اور مریض کو ان دواﺅں اور اسپرے سے خا صہ آ رام آ جا تا ہے۔
س :اس بارے میں پاکستان میں دی جا نے والی تعلیم سے آپ مطمئن ہیں ؟
ڈاکٹرصاحب ۔: کافی حد تک۔
س :کیا پاکستانی لیول ہم جدید سا ئنسی تجربات سے مستفید ہورہے ہیں ؟
ڈاکٹرصاحب ۔: اس بارے میں بہت سے تجربات کئیے جارہے ہیںجس طرح یہ بیماری پھیل رہی ہے اس طرح تحقیقات بھی ہورہی ہیں۔
س :کیا آپ ماس میڈیا کے کرد ار سے مطمئن ہیں کہ وہ لو گوں میں آگاہی پیدا کررہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ : یہ مسئلہ تو بہت چھوٹا سا ہے پھربھی ماس میڈیا اپنا پورا کردار ادا کر رہی ہے۔مختلف چینلز،مارننگ شوزاور میگزینز سب اپنے اپنے طور پر حق ادا کر رہے ہیں۔
س :کےا حکومت اس قسم کی بیماری کے سدِباب کے لیئے کوئی عملی اقدامات کررہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: اسلام آباد میں جب شہتوت کا موسم آتا ہے تووہاں اس کے با ریک زراّت جنہیں ’پولینز‘کہتے ہیں۔جن کی وجہ سے الرجی والے افراد کو کا فی مسئلہ ہوتا ہے توباقاعدہ ٹی وی پر بتایا جاتا ہے کہ ان دنوں ایسے لوگ احتےاط کریں کم سے کم گھر سے باہر نکلیں۔
س :اسٹوڈنٹس اور آﺅٹ ڈور کام کرنے والے اس سے کس طرح بچ سکتے ہیں؟
ڈاکٹرصاحب ۔:اگر آپ کو زرہ بھی ڈسٹ الرجی یاپولیوشنالرجی ہے توماسک استعمال میںلیںبس احتیا ط ہی کر کے آپ ناگزیر حالات سے بچ سکتے ہیں۔ا

 Written by Sehrish Syed Roll No 60
This practical work was arried in MA prev Mass Comm Sindh University, Jamshoro