روزمرہ کی زندگی اور ماحولیاتی الرجی
جس طرح یہ دنیا ترقی کر رہی ہے ساتھ ساتھ اس کے مسائل بھی ترقی کرر ہے ہیںجدہر نظر دوڑائیں ہر کوئی مسائل میں گہرہ نظرآتا ہے۔اس ہی وجہ سے لوگوں نے عام ےا چھوٹی موٹی بیماریوں کی طرف دھیان دیناچھوڑدیا ہے۔
جس کی وجہ سے یہ بیماریاں خطرناک نوعیت اختیار کر لےتی ہیںجس طرح استھیمہ یا سانس کی بیماریاںبھی عام دیکھنے میں آتی ہیں جو کہ دےکھنے اور سننے میں تو مسا وی نوعیت کی بیماریہے لیکن اگر اس میںاحتےاط نہ کی جائے تو وہ انسان کو مفلوج بنا کر رکھ دیتی ہے۔
اسی لئیے اس انٹرویو کی مدد سے اس قسم کی بیماریوں کو سمجھنے کے لیئے اک چھوٹی سی کاوش کی گئی ہے۔
نام:ڈاکٹر شفیع شیخ
تعلیم ©:ایم بی بی ایس،ڈی ایل او ۔۔۔ ایف سی پی ایس(اسپیشلائیزیشن)
ٓ ڈاکٹر شفیع شیخ پچیس سال سے اس مسیحائی شعبے سے وا بستہ ہیں۔ڈاکٹرصاحب کے والد بھی ڈ اکٹر تھے پر یہ اس شعبے میں حادثاتی طور پر آئے کارڈیو لو جسٹ بننا چاہتا تھے۔
س :ڈاکٹرصاحب الر جی کیا ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ کو ئی بھی فورا ًچیزریئیکشن کرتی ہے وہ الرجی کہلاتی ہے یہ کسی بھی چیز سے ہوسکتی ہے الرجی دو طرح ہوتی ہے۔کھا نے کے ذریعے مثال کے طور پرکچھ لوگوں کوکےلے سے،کچھ کو انڈے سے،کچھ کو چاول سے،اور کچھ کو مچھلی اور گائے کے گوشت سے۔اسی طر ح سا نس کے ذریعے یا ناک سے کچھ لوگوں کو مٹی سے،ہوا سے،پودوں سے،سگریٹ سے ،ہر قسم کے دھو ائیں سے،خوشبو ﺅں سے،پودوںسے،اور کچھ کو پردوں اور کا رپٹ سے حتی کہ اس بیماری کی کوئی خاص وجہ نہیں ہو تی یہ ما حولیاتی تبدیلی سے لے کر قوت © مدافعت کی کمی سے بھی الرجی ہو سکتی ہے۔
َِِِِِِِِِ ¿ µ µس آیا ےہ ایک ہی بیما ری ہے ےا مختلف بیماریوں کے نام۔
ڈاکٹرصاحب ۔ ایک ہی بیماری ہے لوگوں میں مختلف نوعیت سے پا ئی جاتی ہے ای این ٹی کے لحا ظ سے اصل میں سا نس کے راستے ہی ہو تی ہے۔
س ©:کیالرجی ایک وبہ کی طرح پھیل رہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ :نہیں،بلکل نہیںلیکن ہماری ما حولیاتی آلودگی کی وجہ سے جلد پھیل رہی ہے۔
س :الرجی دوسری بیماریوں سے کس طرح مختلف ہے۔
ڈاکٹرصاحب ۔: الرجی مٹی کے مخصو ص نو عیت کے زرات جنہیں ہا ﺅس ڈسٹ ما ئٹ کہتے ہےں ان کی وجہ سے پھیلتی ہے جو خا ص طو ر پر مختلف ہیں۔
س :اس کے ارلی اور لا سٹ اسٹےجیزکےا ہیں؟
ڈاکٹرصاحب ۔: شرو ع میں بس چھینکیں آ تی ہے مثا ل کے طو ر پراگر کسی کو مٹی سے الرجی ہے اور اس نے بچاﺅ نہ کیا ان کی بیما ری خطر ناک حد اختےارکر جاتی ہے اگر اس پر شروع میں تو جہ نہ دی جائے تو ےہ آگے جا کر اےستھیما سویرٹی کو بڑ ھا تی ہے۔
س :آ ےا کیا پو لیو شن کی وجہ سے الرجی فروغ پا رہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: جی ہاں ، ےہ بہت بڑی وجہ ہے ہما رے ملک کا بڑھتا ہوا ٹریفک اوردھواں بیما ری کو فروغ دے رہا ہے آ خر ہم احتےاط کے علاوہ کر بھی کےا سکتے ہیں۔
س :اس کی بڑ ھتی ہو ئی وجو ہات۔
ڈاکٹرصاحب ۔: خا ص طو ر پر ہما ری ماحولیاتی آلو دگی اور کچھ خا ص نہیں،دیکھا جائے تو ہر ملک میں ہی یہ بیماری کسی نہ کسی طرح پھیل رہی ہے بس شکل اور وجوہات الگ ہے۔
س :الرجی ایک فرد سے دو سرے فرد کو منتقل ہوتی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: نہیں ، یہ لگنے اور فرد بہ فرد منتقل ہونے والی بیماری بلکل نہیں ہے،یہ جلدی الرجی سے خاصی مختلف ہے۔
س :یہ وہ بیماری ہے جو ہمارے ملک کی اکثریت میں پارہی ہے۔
ڈاکٹرصاحب ۔ :نہیں ،لیکن اس سے بچنا بھی نا ممکن نظر آتا ہے۔ہم گھر سے نکلنا چھوڑ تو نہیں سکتے،مٹی سے الرجی ہے تو صفائی کرنا چھوڑ ا تو نہیںجاسکتا ان ہی بے احتےاطیوںکی وجہ سے یہ فروغ پارہی ہے۔
س :کیا اس کا علاج بھی دوسری بیمارےوںکی طرح سہل ہے؟
ُڈاکٹرصاحب ۔ : کافی سستا اور مفید ہے ،پہلے کچھ ٹیٹسٹ کئیے جاتے ہیںاگر ایک ےا دو چیزوں سے الرجی ہوتو ویکسین بنا کر ا س سے علاج کیا جاتا ہے جسے’ ہا ئیپوسینٹائیزیشن‘ کہتے ہیں یہ علا ج بہت مفید ہے پر جن لوگوں کو زےادہ چیزوں سے ہو ان کے لئیے نہیں ۔
س :بچوں اور بوڑھوں میں اس کی کیا نوعےت ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: بچوں اور بوڑھوں میں اس کی نوعےت تقریباًایک جیسی ہے کیونکہ دونوں ہی میں قوتِ مدافعت کم ہوتی ہے،بوڑھے بھی بچوں کی طرح خود کو بیماری سے نہیں بچا سکتے۔
س :کیامو سمی اثرات بھی اس کے بڑھنے کی وجہ ہو سکتے ہیں؟
ڈاکٹرصاحب ۔: ہاں جب سرد ہوائیں چلتی ہیں تو وہ بھی الرجی کی خا ص وجہ بنتی ہیں۔
س :اس موضوع کو کم اجاگر کیا جاتا ہے جب کے ےہ بہت تیزی سے پھیل رہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ : ہمارے ملک کا المےہ ہے کہ جب تک پانی سر سے نہ گزر جائے ہم کسی چیز پر توجہ نہےں دیتے اگر کسی فرد کو الرجی ہوتی ہے تو وہ جب تک ڈاکٹر کا رُ خ نہیں کرتا جب تک سانس لینا محال نہ ہو جائے۔ اگر اس بیماری کوکنٹرول کرنا ہے توشروع میں ہی اس کا علاج کیا جائے مستقل دوایﺅ ں اور علاج سے لیکن ساتھ ساتھ احتےاط بھی لازمی ہے۔
س :کیا پودے بھی الرجی کی وجہ بن سکتے ہیں؟
ڈاکٹرصاحب ۔: جی ہاں،بہت زیادہ جن لوگوں کو پودوں سے الرجی ہوتی ہے تو پھر انھیں گھر سے پودوں کو دور کرنا پڑتا ہے،کبھی کبھی تو ہم گھر ےا شہر بھی تبدیل کرنے کا مشورہ دےتے ہیں۔
س :کو ئی خا ص نوعیت کی الرجی جو ہمارے علاقے سندھ سے تعلق رکھتی ہو؟
ڈاکٹرصاحب ۔: ’ڈسٹ الرجی ‘کیونکہ ہمارے یہاں مٹی اور صفائی پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے ویسے بھی ہمارا شہر پہاڑی علاقہ ہے تو ہوائیں بھی چلتی ہیں جومٹی اُڑنے کا سبب بنتی ہیںجس کی وجہ سے ہمارے علاقے میں سب سے زیادہ ڈسٹ الرجی پائی جاتی ہے۔
س: لوگوں میں اس بیماری کی اوئیرنیس۔
ڈاکٹرصاحب ۔ : کافی حد تک لوگ اس بیماری کو سمجھ گئے ہیں ،لگاتار آگاہی بھی ہو رہی ہے احتیاط بھی کرنے لگے ہیں
س:کیا یہ بیماری سرے سے ختم ہوسکتی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: اگرانسان میںکسی چیز کی حساسیت پیدا ہو جائے تو وہ ہمیشہ رہتی ہے اسے دوائیوں سے دبایا تو جاسکتا ہے پر ختم نہیں کیا جاسکتا اس سے دوری ہی اختیار کرنا آسان سا حل ہے ورنہ پھر یہ بیماری آگے جا کرسانس کی نوعیت اختیار کر لیتی ہے۔
س :کیا الرجی میں اینٹی بایو ٹکس یا عام ادوایات سے علاج ہوتا ہے یا اس کے لئیے خاص ادوایات کی ضرورت پڑ تی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ : اس کے لئیے خاص اینٹی الرجک سے علاج کیا جاتا ہے جنھیں سائنسی زبان میں ’اینٹی اسٹیمن ‘کہتے ہیں۔
س :کیا ڈاکٹر حضرات اپنا کردار اس بیماری کے خلا ف ادا کررہے ہیں کیونکہ عموماًدیکھنے میں آ یا ہے کہ دوائیاں مہنگی اور علاج طویل ہوتا ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ : ڈاکٹر حضرات مثبت طور پر اس بیماری کے خلاف اپناکردار اداکررہے ہیں جیسے پہلے سرجیکل آپریشن یعنی گوشت جلانے کی مشین کا خاصہ استعمال تھاپر دیکھئیں آجکل یہ بس رکھی رہتی ہے۔
مارکیٹ میں ایسے اسپرے اور نئی دوائیاں(اینٹی الرجک)آ گئی ہیںجس کی بدولت سرجیکل آپریشنز کی ضرورت نہیں پڑتی اور مریض کو ان دواﺅں اور اسپرے سے خا صہ آ رام آ جا تا ہے۔
س :اس بارے میں پاکستان میں دی جا نے والی تعلیم سے آپ مطمئن ہیں ؟
ڈاکٹرصاحب ۔: کافی حد تک۔
س :کیا پاکستانی لیول ہم جدید سا ئنسی تجربات سے مستفید ہورہے ہیں ؟
ڈاکٹرصاحب ۔: اس بارے میں بہت سے تجربات کئیے جارہے ہیںجس طرح یہ بیماری پھیل رہی ہے اس طرح تحقیقات بھی ہورہی ہیں۔
س :کیا آپ ماس میڈیا کے کرد ار سے مطمئن ہیں کہ وہ لو گوں میں آگاہی پیدا کررہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ : یہ مسئلہ تو بہت چھوٹا سا ہے پھربھی ماس میڈیا اپنا پورا کردار ادا کر رہی ہے۔مختلف چینلز،مارننگ شوزاور میگزینز سب اپنے اپنے طور پر حق ادا کر رہے ہیں۔
س :کےا حکومت اس قسم کی بیماری کے سدِباب کے لیئے کوئی عملی اقدامات کررہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: اسلام آباد میں جب شہتوت کا موسم آتا ہے تووہاں اس کے با ریک زراّت جنہیں ’پولینز‘کہتے ہیں۔جن کی وجہ سے الرجی والے افراد کو کا فی مسئلہ ہوتا ہے توباقاعدہ ٹی وی پر بتایا جاتا ہے کہ ان دنوں ایسے لوگ احتےاط کریں کم سے کم گھر سے باہر نکلیں۔
س :اسٹوڈنٹس اور آﺅٹ ڈور کام کرنے والے اس سے کس طرح بچ سکتے ہیں؟
ڈاکٹرصاحب ۔:اگر آپ کو زرہ بھی ڈسٹ الرجی یاپولیوشنالرجی ہے توماسک استعمال میںلیںبس احتیا ط ہی کر کے آپ ناگزیر حالات سے بچ سکتے ہیں۔ا
Written by Sehrish Syed Roll No 60
This practical work was arried in MA prev Mass Comm Sindh University, Jamshoro