Pages

Monday, 23 September 2013

Science exhibition waleed Ahmed

سائنس اےکزےبےشن
آخر وہ کونسی جہد تھی جس کی بدولت ابن الہےشم نے ہزار سال پہلے دنیا کا سب سے پہلا کےمرا بناےا ےا پھر بو علی سےنا کو پہلی بار انسانی آپریشن کے دوران انیستھسیا کے استعمال پر آمادہ کیا انہےں دنےا کا سب سے بڑا ماہر طبےعات بنایا اور وہ کےا وجہ تھی کہ اےڈےسن کو دنےا کا سب سے بڑا موجد مانا جاتا ہے ان سب عظےم انسانوں کے کارناموں کا راز ان کی جہد مسلسل اور عملی کوششوں مےں پنہا ں ہے ۔
آج ہماری نئی نسل مےں انہی عملی سرگرمیوں کا فقدان ہے۔جس کی وجہ سے ہمارا ملک وہ ترقی نہ کر سکا جس ک ہم مجاز تھے۔اس لئے طالب علموں میں عملی شعور بیدار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئز پروگرام ،سیمینار اور مختلف ایکزبیشن کا انعقاد کیا جائے۔تاکہ طالب علموں کو تعلیمی میدان کے ساتھ ساتھ عملی میدان میں بھی ترقی حاصل کرنے کا موقع مےسر ہواور وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں علمی و عملی میدان میں صرف کریں جس سے نہ صرف ان کی انکی معلومات میں اضافہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی نشوو نما بھی ہواور ان کو دیکھ کر دوسرے طالب علموںمیں بھی نصابی و غیر نصابی عملی میدان میں حصہ لینے کا شوق و جزبہ پیدا ہو۔
پاکستان میں بلخصوص سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں طالب علموں کے لئے ایسے نصابی و غیر نصابی اقدامات بہت کم کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ذہنی نشو ونما اورمعلومات میں اضافہ نہیں ہوتا لیکن جب بھی ان کے لئے ایسے عملی اقدامات کئے جاتے ہےں تو اس مےں طاب علموں کی بڑی تعداد بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے 
حےدرآباد کے شہر کے طلباءو طالبات کی زہنی نشوو نما و معلومات میں اضافے کے لئے ہےرآباد کے گورنمنٹ گرلز پاپائلٹ ہائی اسکول میں سائنس ایکزیبشن کا انعقاد کیا گیا جو تین دن تک جاری رہا جس میں حیدرآبادشہر کے مختلف اسکول و کالجز کے طالبعلموں نے نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیابلکہ اےسے پروجےکٹس پےش کیے جس کو دےکھ کر تعرےف کرے بنا نہ رہا جا سکا۔ اس اےکزےبےشن مےںطلبہ کی جانب سے پےش کیے گئے ماڈلز مےں اےک گرڈ اسٹےشن کا ماڈل تھا جس میں انہوں نے گرڈ اسٹےشن سے بجلی گھروں تک منتقل کرنے کا طرےقہ کار دکھاےا ۔اےک اسکول کی جانب سے دوائےاں بنانے کی فےکٹری کا منظر پےش کیا گےا کے دوائےاں کس طرح بنائی جاتی ہیںاور انھےں کس طرح بوتلوں مےں محفوظ کےا جاتا ہے اسی طرح اےک دوسرے اسکول کی جانب سے سےمنٹ بنانے کی فےکٹری کا ماڈل پےش کےاگےا اورمختلف اسکول و کالجز کے طلباءو طالبات نے آلو اور تانبے کی مدد سے توانائی پیداکر کے چلنے والا کےلکوٹر ،برقی گھنٹی،شمسی توانائی سے چلنے والی گھڑی اور نظام شمسی کے علاوہ مختلف لاجواب پروجےکٹس پےش کر کےااےگزےبےشن میںچار چاند لگادےئے ۔اس اےگزےبےشن میں دوسرے طالب علموں میں بھی عملی مےدان میںنت نئی کوششیں کرنے کا ارادہ کےا اوراس بات کا عزم کےا کہ وہ اپنی عقل و کوششوں سے دنےا کے عظےم سائنسدانوں کی طرح سائنسی دنےا میں مختلف کارنامے پیش کر کے اپنا اور ملک و قوم کا نام روشن کریں گے۔
اس سائنسی اےگزےبےشن کو عوامی اور سماجی حلقوں میں خاصی پذےرائی حاصل ہوئی اور طالبعلموں کی بھی بہت حوصلہ افزائی ہوئی ۔عوامی اور سماجی حلقوں نے اس بات کی امےد ظاہر کی کہ اس طرح کے نصابی اور غےر نصابیاقدامات وقتاًفوقتاً ہونا چاہئے تاکہ طالبعلموں کو اچھی و بہتر معلوماتی سرگرمےاں مےسررہیں اور اور اپنے تعلےم و ہنر میں مزےد نکھار پےدا کرسکیں۔

پروفائل :ڈاکٹر لطیف شیخ

پروفائل : ڈاکٹر لطیف شیخ 
کوشش ومحنت کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی بھی لازم ہے          
تحریر : ولید احمد خان
  کسی بھی انسان کو ترقی ورثے میں نہیں ملتی ترقی حاصل کرنے کے لئے انتھک محنت و جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے کسی بھی شخص کو آج تک ترقی با آسانی حاصل نہیں ہوئی۔ترقی و شہرت حاصل کرنے کے لئے دن رات ایک کرنا پڑتا ہے جب جا کر وہ شخص ترقی و شہرت کی منزل کی جانب بڑھتا ہے اس کی جیتی جاگتی مثال حیدرآباد کے مایہءناز اسکن اسپیشلسٹ ڈاکٹر لطیف شیخ ہیں ۔جنھوں نے متوسط گھرانے میں آنکھ کھو لی لیکن کبھی کوشش و محنت کا دا ©من نہیں چھوڑا 
اور اسی کوشش و محنت کے باعث وہ اس بلند و بالا مقام پر ہیں ۔

ڈاکٹر لطیف شیخ نے اس شعبے میں آنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ  ”بچپن ہی سے مجھے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا
 کیونکہ میں نے ہمیشہ دیکھا تھا کہ جب بھی کوئی بیمار شخص ڈاکٹر کے پاس جاتا تو وہ واپس صحتیاب ہو کر لوٹتا تھا اسی وجہ سے میرے دل میں تمنا جاگی کہ میں  بھی بڑا ہو کر ڈاکٹر بنوں او مریضوں کی بیماریاں دور کروں “۔

ڈاکٹر صاحب25اگست 1960کو ہالا میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام محمد شفیع اور
 ان کا کپڑوں کا کاروبار تھا ۔انھوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اردوپرائمری اسکول ہالا سے حاصل کی اور میٹرک ایم ۔جی گورنمنٹ ہائی اسکول ہالا سے کی اور ایس۔ آئی گورنمنٹ کالج ہالا سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیااس کے بعد لیاقت میڈیکل یونیورسٹی آف میڈیکل ہیلتھ سائنسز ((L.U.M.H.Sمیں 1982 میں داخلہ لیا اس دوران انتہائی مالی مشکلات کا شکار ہونے کے باوجود بھی انھوں نے کبھی بھی اپنی مالی پریشانیوں کو حصول تعلیم میں رکاوٹ بننے نہیں دیا اور ٹیوشن پڑہا کر اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کیا۔1985 میں دوران تعلیم شادی ہوگئی جس کے باعث حصول تعلیم میں کافی مشکلات در پیش ہوئیںپر ان کی اہلیہ نے ان کی بہت حوصلہ افزائی کی اور حصول تعلیم میں حائل نہیں ہوئی۔ انھوں نے 1987میں اپنی MBBS کی ڈگری حاصل کی۔
1990میں حیدرآباد منتقل ہوئے ا ور اپنا زاتی کلینک حیدرآباد کے شہر سرفراز کالونی میں قائم کیا جس میں اوسط درجے کے مریضوں کو خصوصی رعایتیں دی گئیں ۔ڈاکٹر لطیف شیخ1سالہ اسکن پوسٹ گریجویشن کے لئے آسٹریا گئے اور1996میں واپس آئے دوران پریکٹس ڈاکٹر فریدالدین نے بہت راہنمائی کی ڈاکٹر صاحب اپنے تجربے کو مزید وسیع کرنے کے لئے جرمنی ،پیرس،ہالینڈ کے علاوہ دوسرے مملک میں بھی گئے۔ ہالا ، ٹنڈوآدم، شہداد پور، ٹنڈوجام،اور حیدرآباد میں ڈاکٹر صاحب نے متعدد بار انفرادی طبی کیمپ لگائے اس کے علاوہ مختلف این۔جی۔اوز اور میڈیکل کیمپسز کے بھی طبی کیمپوں میں بھی اپنی خدمات پیش کیں ۔ڈاکٹر صاحب اس وقت حیدرآباد شہر کے مشہور ہسپتالوں میں اپنی کدمات انجام دے رہے ہےں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ متوسط طبقے کےلئے بھی بہت سے اقدامات کرتے ہیں ڈاکٹر لطیف شیخ ایک اچھے اخلاق اور شہرت کے حامل ہیں کیونکہ انہوں نے ہمیشہ کوشش و محنت کو اولیں ترجیح دی ہے اور وہ اس کی اہمیت کو بخوبی جانتے ہیں کہ ترقی حاصل کرنے کے لئے کوشش و محنت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ پر بھروسہ کرنا لازم ہے تاکہ ترقی کی راہ میں آنے والی تمام مشکلات کو با آسانی حل کیا جا سکے۔
تحریر : ولید احمد خان Issue:09
رول نمبر:91

روشنی کی پہلی کرن - پروفائیل

 پروفائیل
’روشنی کی پہلی کرن‘ 
سحرش سیّد رول نمبر ۰۶ 
دنیا میں ہر طرح کے لوگ بنائے ہیں اللہ نے کچھ تو بارہا کوشش کے باوجود کچھ نہیں کر پاتے کچھ نہ سوچے سمجھے بنا کسی پلاننگ کے ہی لوگوں کے لیئے مددگار اور وسیلہ بن جاتے ہیں ۔اسی طرح یہ دنےا کا کارخانہ رواںدواں ہے ہر شخص جو چاہتا ہے نہیں کر پاتا پر انسان کو کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔جب انسان خود کومضبوط بناتا ہے تو راہ کے ہر کانٹے خود ہی چھنٹ جاتے ہیںاور انسان کے زینہ با زینہ خود ہی قدم آگے بڑھتے جاتے ہیں ایک سے دو ےا دو سے گیارہ ہوتے جاتے ہیں اگر انسان یہ سوچے کے میںتنہاہوںوہ کچھ نہیںکرسکتا پہلا قدم تو کسی نہ کسی کو اٹھانا پڑتا ہے۔
ہمارے ملک میں ایسے بہت سے مسائل ہیںجن حل تو کیا ان کی طرف دیکھنا بھی ہماری حکومت کے لیئے محال ہے ان ہی میںکچھ ایسی بیمارےاں بھی ہیں جن کا کوئی سدِباب نہیںبلکہ مستقبل میں بھی کچھ دریغاں نہیں۔
ہیموفیلیا ایک ایسی بیماری ہے جس میںانسان کے جسم خون کا معادہ جنھیں پلیٹیلیٹس کہتے ہیںوہ انسانی جسم کی ضرورت کے مطابق نہیں بن پاتے۔پلیٹیلیٹس کا کام یہ ہے کہ اگر ہمیں کہیںچوٹ لگ جائے اور کوئی زخم ہو تو وہ ہمارے خون کو بہنے سے روکتے ہیںسوچے اگر وہ نہ ہو توہمارا خون لگاتار بہتا رہے اور پھر تو کوئی معجزہ ہی شاید ہمیں بچا سکے۔
کراچی جیسے شہر یعنی رواںدواںاور بھاگتی دوڑتی ذندگی میں ایک نارمل بلکہ کبھی توعام لوگوں سے بھی زیادہ ہمت سے کام لینے والے یہ ادھیڑعمر بلکہ یہ کہا جائے کہ بڑھاپے کی طرف بڑھتے ہوئے’مسٹر عبدالرحمن‘جن کی عمر تقریباً۶۵برس ہے
جب انھوں نے دنےا میں قدم رکھا اوران کے دودھ کے دانت گرے تو خون نے تھمنے کا نام ہی نہ لیا ان کے والدین کے لیئے یہ کچھ نئی بات نہ تھی کیونکہ ان سے پہلے بھی ان کے دو چشم وچراغ کو یہ بیماری پہلے ہی موت کے گھاٹ ا ©تار چکی تھی،انسانی ذات مایوس تو ہوتی ہی یقیناانکی بہت سی امیدیں ٹوٹیں ہونگی اور بہت سے اشک رواں ہو ئے ہونگے۔وقت آخر وقت ہے ہر زخم بھر ہی دیتا ہے ان کی ذندگی بھی عام ڈگر پر آ ہی گئی پراس طرح کے مریض کا خاصہ خیا ل رکھنا پڑتا ہے اس ہی ڈر اور خوف میں انھیں مڈل سے زےادہ اسکول نہ بھیجا گیا اور اعلی بلکہ درمےانی تعلیم بھی حاصل نہ کر سکے۔
یہ خود اس بیماری کے شکار تھے اس لیئے جانتے تھے اس کے مسائل اور ان کے حل بھی۔بہت سے لوگوں کوموت کے گھاٹ اترتے دیکھا تھا جن میں ان کے تین بھائی بھی تھے ۔یہ ایک متواسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے گھر کا پہیہ دوکان کے کرائے سے چل رہا تھا لیکن بیماری بھی اللہ نے دی تھی لیئے مایوس نہ ہوئے اورسوچا کے آنے والوں کے لیئے مسائل کم کیے جائے جب انسان ہمت کرتا ہے تو ربِ ذوللجلال ضرور ساتھ دیتا ہے۔
جب یہ تیس برس کی عمر تک پہنچے تب فاطمی فاﺅنڈیشن نے پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ سی پی اور ایف ایف پی اور سی پی شروع کی۔یہ اور بھی مریضوں کے ساتھ وہاں گئے اور ڈاکٹر حنیف ڈاگرہ سے ملے جو پاپولر انٹرنیشنل مینیجر تھے انھوں نے ہی انھیںڈاکٹر طاہر سلطان شمسی سے ملوایا اور وہاں ہی فیکٹر ایٹ اور نائن اینجیکشن کے بارے میں سنا۔ان ہی دنوں یہ ایک شدید زخم کا شکار ہوئے پر فیکٹر کے استعمال سے جلد افاقہ ہواتب انھوں نے سوچا کے یہ فیکٹر دوسرے مریضوں تک بھی ضرورپہنچنا چاہیے پر اس کی قیمت زیادہ تھی وقتِ ضرورت اسے عام مریض نہیں خرید سکتے تھے حکومت یا کوئی این جی او بھی یہ فیکٹر فراہم نہیں کرتی تھی۔
۴۹۹۱ میں انھوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کے ایک نیا سدِباب رکھا کراچی بلکہ پاکستان میں پہلی’ہیموفیلیا پیشنٹ ویلفئیر سوسا ئٹی‘قائم کی جوکہ ۵۹۹۱ میں بقاعدہ رجسٹرڈہوگئی اسی سال پہلا ’ورلڈ ہیموفیلیا ڈے ‘ بھی منایا گیا جس میں حکیم محمد سعید چیف گیسٹ کے طور پر تشریف لائے جس سے ان کی اور ہمت بڑھی۔
وہ ڈاکٹر طاہر کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے اس کارِ خیر میں ان کی بڑی مدد کییہ ایک واحد سوسائٹی ہے جو صرف ہیموفیلیا کے مریضوں کے لیئے ہےایچ پی ڈبلیو ایس نے بلامعاوضہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فیکٹر ایٹ اور نائن مریضوں کو فراہم کئےورلڈ فیڈریشن آف ہیموفیلیاکینیڈا نے انھیںچار سال کی ممبر شپ بھی دی اور یہ وہاںکے الیکٹیڈ ممبر بھی رہے جس کی ٹرسٹ سے کامیاب سرجریز بھی کی گئیڈائیریکٹر لائٹ یو ایس اے میڈم لاری کیلی نے انھیں ’لیڈر آف دا ڈئیر‘اور ان کی آرگنائیزیشن نے ۹۹۹۱ میں’لیڈر آ ف دا ائیر ‘کے اعزاز دیا۔جب بھی کسی ایمرجنسی کی صورت میں ایڈ کی ضرورت پڑتی ہے تو ہماری فوری مدد کی جاتی ہے ۔
ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کی بنا پر آج بھی یہ آرگنائےزےشن رواں دواںہے جو کہ ہر اس مریض کو فوراًبلامعاوضہ خون فراہم کرتی ہے ساتھ ہی فیکٹر بھی لگایا جاتا ہے۔
عبدالرحمن صاحب اس بیماری پر چار کتب بھی لکھ چکے ہیں جس میں بیماری کے بارے میں مکمل معلومات ہے جب انھوںنے یہ سو سائٹی قائم کی تھی یہ پانچ یا چھ ساتھی تھے پر اب تین سو سے زیادہ ممبر ہیں اور سب ہی اس بیماری کا شکار ہیں یہ خود اس ویلفیئر کے فاﺅنڈر اور جنرل سیکریٹری ہیں اور ان کا بھانجا بھی اس بیماری کا شکار ہے اوروہ یوتھ کو ڈیل کرتا ہے۔
ماشااللہ ان کی عمر ۶۵برس ہے پر وہ کہتے ہیں کہ ہم نے خود کو کبھی تھکا ہوا محسوس نہیں کیا چابیس گھنٹے میں کسی بھی وقت کسی کو ہماری اور ہمارے ادارے کی ضرورت پڑسکتی ہےجب کسی نوجوان کو موت کے منہ میں جاتے دیکھتے ہےں تو مایوسی کے بجائے ہمت بڑ ھتی ہے کہ جتنا کرتے ہیں اس سے بھی زیادہ کرینگے۔
ان کا اس بیماری سے متاثر مریضوں کےلیئے کہنا ہے کہ ہمت نہ ہاریں خود کو نارمل سمجھے اور سے رابطہ کریں سوسائٹی سے رابطہ کریں جتنا بھی ہم کر سکتے ہیں ضرور کرینگے۔ 


Interview: Plawasha

س۱:ا ¿پ نے اعلی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟اپ کی تعلیم کیا ہے؟ 
ج:میںنے گورنمنٹ اسکول سے تعلیم حاصل کی گورنمنٹ کالج سے انٹر کرنے کے بعدوہی سے بی کام کی ڈگری حاصل کی۔سندھ یونیور سٹی سے اکنا مکس میں ما سٹر کیا۔ اس کے بعدسندھ سند یونیورسٹی سے ہی © © © © ©ایم۔اے جرنلزم کیا۔تھیسس دیر میں جمع کروانے کی وجہ سے ڈ گری نہیں ملی۔
س۳:میڈ ےا میں ا ¿پکو دلچسپی کیوں ہوئی؟
جواب:ایم اے جرنلزم کرنے کے بعد میں جاب کی تلاش میں تھا۔میرا رابط بھائی کے دوست رئیس کمال سے ہوا جنگ اخبار میں کام کرتے ہیں خبر بنا کر دو ۔جب میں نے خبر بنائی انہیں پسند ا ¿ئی جب وہ خبر جنگ اخبارمیںشائع ہوئی تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔اس کے بعد مجھے اور دلچسپی پیدا ہوئی۔
س۳:آپ نے پہلی رپوٹنگ کس شمارے پر کی؟
ج:بچوں کے مسائل پر اور عورتوں کے مسائل پر اسکے علاوہ اور بھی دیگر اہم شمارے پر رپوٹنگ کی ہے۔
س۴: آپ کی نظر میں ایک اچھے رپوٹر کو کیسا ہونا چاہئے؟
ج:رپوٹر کواپنے شہر صوبے اور پورے پا کستان کے حساب سے معلوما ت ہونی چاہئے۔بغیر کسی مصلیحا ت یا دباﺅ کے عوام کے سا منے لے آئے۔میری نظر مین ایک اچھا رپو ٹر وہی ہے جس کے پاس ہر معلومات ہو۔
س۵:آپ کی نظر میںمیڈیاکیاہے؟
ج:میری نظر میں میڈیا بہت اچھا ہے میڈیا عوام کو ہر خبر سے با خبر رکھتا ہے۔میڈیا رسالت کاچوتھاستون ہے اور پاکستان کی موجودہ ترقی اور ادوروں کے استحکا
ہس۷:آگر آپ رپوٹرنہ ہوتے تو کیا ہوتے؟
ج:میں رپوٹر نہ ہوتا تو اچھا گٹارسٹ ہوتا مجھے گلو کا ری کا بہت شوق تھا۔
س۸:آپ کی کوئی ایسی خوا ہش جو پوری نہ ہوئی ہو؟ میڈیا کے حوالے سے؟
ج:میری خواہش ہے کہ میڈیا کے طلبہ کے لئے ایک ایسا ادارہ بناےا جائے جس مےں انہےں کام سکھاےا جائے ٹرےننگ دی جائے تا کہ انہیں جاب کے لئے مشکل نہ ہو ۔
س۹: میڈےا نے چار سالوں سے صدر آصف زرداری کو ہی ٹارگٹ کیوں بنا کر رکھا کرپشن کے حوالے سے؟
ج:صدر آصف زرداری نے آئےن کو بحال کرواےا اےن۔ایف۔سی ایوارڈ لے کر آئے۔
س۰۱: ماس کمیونکشن کے طلبہ کے لئے کوئی پیغام؟
ج: ماس کمیونکیشن کے طلبہ کو زیادہ سے زیادہ پریکٹیکل کام کروایا جائے کیوںکہ جب انٹرنشپ کے لئے آتے ہےں کام نہیں کر پاتے ۔طلبہ کو چاہیئے روزانہ اخبار پڑھیں خبریں دیکھیں اور موجودہ حالات سے با خبر رہیں۔

گرام میں کمی پھر بھی قیمتوں میں اضافہ

Name: Palwasha / Part III / Roll #. 56
(Article)

پلوشہ خان
بجٹ گرام میں کمی پھر بھی قیمتوں میں اضافہ
ہر گزرتے دن کے ساتھ ہی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔تمام تر کوششوں کے باوجود ٰہ اضافہ جاری ہے۔ اس بڑھتی ہوئی آبادی کو کھلانے کے لئے بھی پیسہ چاہیے، اور پیسے کےلئے ذریعہ معاش۔ ہمارے ملک کی آبادی کا 56 فیصد مڈل کلاس میں شمار ہوتا ہے۔ اور مڈل کلاس بندہ ہمیشہ اس بات پر دھیان دیتا ہے کہ کس طرح خرچے کنٹرول کئے جائیں۔اور اس کم آمدنی پر گھر کا گزارہ کیا جائے، تو اس حوالے سے اب وہ متبادل ذریعہ تلاش کرتا ہے اور گھر کے خرچوں کو پورا کرتا ہے، لیکن گھر میں عورتیں بھی تو ہوتی ہیں جنھیں شوق ہوتا ہے کہ وہ ہر لحاظ سے اچھی ہوں انسان جب بھی کسی کو دیکھتا ہے تو اس کی پہلی نظر عورت کے چہرے پر پڑھتی ہے اب عورتیں جہاں دوسری چیزیں شوق سے خریدتی ہیں وہاں سب سے زیادہ وہ کاسمیٹیک کی خریداری کرتی ہیں اب آتے ہیں اصل مدے ہر ہم آپ کو ایسے حقائق بتاتے ہیں جن سے آپ کو کاسمیٹیک پروڈکٹ کی بہت ساری چیزوں کی بھیانک حقیقت آپ کے سامنے آجائے گی۔ کافی سارے ہیرپرڈکٹ کو ہم نے مارکیٹ سروے کیا اور پھر اس حیرت انگیز حقیقت سے ایک پردہ اٹھایا اور ان کا کھلا سچ لوگوں کے سامنے لا کر دکھایا، جب ہم نے ہمارے کئے گئے سروے پر پرائس دیکھی اور کچھ عرصے پہلے کئے گئے سروے کی پرائس سے ملایا تو اس میں حیرت انگیز اضافہ دیکھا گیا، جب اس کا وزن چیک کیا گیا تو اس میں بھی کافی حد تک کمی دیکھی گئی، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہمیں زیادہ پیسوں میں کم چیز ملے اور ہم اپنی رضا خوشی سے وہ چیز بنا کسی پریشانی کہ خرید لیتے۔ 

آخر کیوں؟ اس کیوں کا جواب ڈھونڈنے نکلے تو مزید کچھ حیرت انگیز حقائق ہمارے سامنے آئے، پھر لوگوں کا ردعمل دیکھنے کے لائق تھا۔ ہم نے جب اس سوال کو عوام کے سامنے رکھا تو عوام کے جوابات بھی کچھ اس طرح تھے، ہم یہ پروڈکٹ خریدتے ہیں کیونکہ ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں اور یہ ہماری زندگی کا ایک حصہ ہے۔ اور اسے استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ ضروری ہے ہم اسے چھوڑ کر اپنا نقصان نہیں کر سکتے۔ ایک تو انھوں نے پروڈکٹ کی پرائس بڑھا دی دوسری اس کی مقدار بھی کم کردی، اگر یہی ہوتا تو یہاں تک بھی بات ٹھیک تھی پھر اب انھوں نے پروڈکٹ کے میعار کو بھی بیگاڑ دیا۔ چیزوں کی پرائس میں کمی بیشی کیلئے ایک بزنس کا قانون بھی ہوتا ہے۔ جسے (ڈیمانڈ اور سپلائے) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جب ڈیمانڈ بڑھتی ہے اور سپلائے کم ہو جاتی ہے کیونکہ ایک فیکٹری جو ریگولر 10,000 پروڈکٹ تیار کرتی ہے اور اچانک سے 1 لاکھ پروڈکٹ کی ڈیمانڈ آجائے تو وہ اسے کیسے پورا کرینگے۔ تو ظاہر ہی بات ہے جب پروڈکٹ شارٹ ہو جاتا ہے تو اس کی پرائس بھی بڑھتی ہے، اور ڈیمانڈ پوری کرنے کے چکر میں میعار بھی متاثر ہوتا ہے۔ لیکن یہاں پر کچھ اور بھی چیزیں ہیں جب یہ پرائس بڑھتی ہیں اور وہ ہیں گورنمنٹ کی جانب سے عائد کردہ بھاری ٹیکسز اس بات کا انکشاف sunsilk شیمپو کے کمپنی کے مینیجر نے اس وقت کیا جب ہم نے یہ سوال ان کے سامنے رکھ دیا انھوں نے مزید بتایا کہ ایک پروکٹ پر جو خرچہ آتا ہے وہ بہت زیادہ ہوتا ہے، اور اس کے علاوہ گورنمنٹ کے بھاری ٹیکسز بھی ۔ اگر ان سے ملائے جائے تو وہ قیمت اتنی بڑھ جائے گی کہ عام آدمی خریدنے سے قاصر ہو جائے گا، اس لئے کمپنی کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ قیمتوں کو کم سے کم رکھا جائے۔ اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہوتو یہ بوجھ عوام کو اٹھانا پڑھتا ہے۔
عوام کو اسے پرائس سسٹم کے خلاف بغاوت کرنی چاہیئے اور پروڈکٹ کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ تاکہ پروڈکٹ کمپنی اور گورنمنٹ ہوش کے ناخن لیں ، اور عوام سے زیادہ پیسے وصول کرکے کم چیزوں والی پروڈکٹ نہ خریدنی پڑیں۔ اور اس 
کے دور میں عوام سکون اور اطمینان کا سانس لے سکیں۔

Practical work was done under supervision of Sir Sohail Sangi

پریس کلب کا بوڑھا بیری


محمد ندیم یوسف
پریس کلب کا بوڑھا بیری
پریس کلب کا بوڑھا بیری ایک ایسی تخیلاتی تحریر ہے جس میں ایک بے زبان کردار کو زبان دی گئی ہے ۔یہ کردار گذشتہ نصف صدی کا خاموش گواہ ہے۔ ذکر ہے یہ اس بوڑھے بیری کے درخت کا جو پریس کلب حیدرآباد پر سایہ فگن ہے اور جس نے اپنی عمر کے 50 سالوں کے دوران پریس کلب حیدرآباد کے سامنے ہونے والے تمام واقعات کو کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھا لیکن محرومی گویائی کے باعث کچھ بھی بولنے سے قاصر رہا بس دیکھتا ہی رہا۔۔۔۔ لیکن آج وہ بول رہا ہے،ہر بات جو اس نے دیکھی گذشتہ 50 سالوں میں ۔

٭ چلیں اب اصل گفتگوکا آغاز کرتے ہیں۔آپ سب سے پہلے یہ بتانا پسند کریں گے کہ آپ یہاں تک پہنچے کیسے؟اور اس مقام کو ہی اپنا مستقل ٹھکانہ بنانے کا خیال کیوں آیا؟
بیری :(تھوڑی دیر گلے کو کھنکھارکر صاف کرتے ہوئے )معاف کیجئے گا ،اصل میں عرصہ دراز سے خاموشی کے بعد بولنے میں کچھ دشواری محسوس ہو رہی تھی۔ہاں تو آپ نے میرے یہاں آنے اور مستقل ٹھکانہ بنانے کے حوالے سے پوچھا ہے ،توآپ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہاں تک پہنچنے میں میراکوئی کردار نہیں البتہ یہاں ٹھہرنے کا فیصلہ میرا تھاتقریبا50 سال قبل جب یہاں اس سڑک پر صرف سیشن کورٹ ریڈیو پاکستان اور اس کے مقابل پرو نیشل بینک کی عمارت ہوا کرتی تھی۔آبادی بہت کم اور ٹریفک نہ ہونے کے برابرتھی۔وہ گرمیوں کی دوپہر تھی ۔ ایک شخص نا معلوم کن خیالوں میںگم یہاں سے گذر رہا تھا۔تنہائی کی وحشت کو کم کرنے کے لیے اس نے کچھ بیر خرید لیے تھے۔ایک یہاں سے گذرتے ہوئے اس شحض نے بیر کھانے کے بعد اسکی گٹھلی ایک پتھرکا نشانہ لیکر اسکی جانب اچھال دی جوکچی زمین پرآکرٹھہر گیا ا ور کچھ عرصہ بعد جب ہواﺅں کے جھکڑ سے مٹی کی کچھ تہیںاس پر جمع ہوئیں اور ایک برسات کے بعد میرا ننھا وجود ظاہر ہوگیا۔رہی بات اس جگہ کو مستقل ٹھکانہ بنانے کی تواس کا جواب کسی اور موقع کے لئے رہنے دیں۔
٭آپ تو بڑی تفصیل میں چلے گئے۔گفتگوکچھ زیادہ طویل نہیں کرتے آپ؟بہرحال اب میں اصل موضوع کی طرف آنا چاہتا ہوں۔یہ بتائیے کہ آپ نے یہاں سب سے دلخراش منظر کون سا دیکھا؟
بیری :میرے عزیز !در اصل طویل خاموشی کے بعدجب کسی کو بولنے کا موقع ملتا ہے تو وہ یہی کرتا ہے جو میں کر رہا ہوں۔ بہرحال آپ کہتے ہیں تو میں اختصار سے کام لوںگا۔آپ کے سوال نے مجھے ایک بار پھر اسی کرب میں مبتلا کردیا جس سے میں 20سال قبل گذرا تھا۔وہ ستمبرکی ایک سوگوار سی دوپہر تھی جب شہدائے ٹنڈوبہاول کے لواحقین ۔انصاف کی تلاش میں پریس کلب کے سامنے پہنچے تو تمام فوٹو گرافرز اور رپورٹرز ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔مظاہرین میں ایک بوڑھی خاتون مائی جیندو اپنی 2 جواںسال بیٹیوں کے ساتھ بلک بلک کربین کررہی تھی۔ وہ غم سے نڈھال اپنے خاندان پر ہونے والے بدترین ظلم کی داستان صحافیوں کو سنا رہی تھی۔وہ بتا رہی تھی کہ کس درندگی کے ساتھ اس کے شوہر ،بیٹوں اور قریبی عزیزوں کو ایک قطار میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیاگیا ناصرف انہیں بے دردی سے قتل کیا گیا بلکہ میڈیا کے سامنے انہیں ڈاکو اور دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا۔وہ انصاف نہ ملنے پر بری طرح مایوس تھی۔بالآخر احتجاج کے دوران وہ دلخراش لمحہ بھی آیا جب انصاف سے مایوس مائی جیندو اور اسکی 2 جواں سال بیٹیوں نے تیل چھڑک کر خود کو آگ کی نذر کر دیا۔کچھ صحافی بچانے کے لیے دوڑے بھی لیکن جلتی آگ میں کون ہاتھ ڈالتا ہے۔کچھ دیر تڑپنے کے بعد تین لاشے زمین پر بے جان پڑے تھے ۔میں بہت مجبور تھا کچھ نہ کر سکا ،بس آئینہ کی طرح دیکھتا رہ گیا؟
٭انسانی بے حسی کا کوئی واقعہ جو آپ کے ذہن پر نقش ہوگیاہو ؟
  بیری (سردآہ بھرتے ہوئے)میری سمجھ میں یہ نہیں آتاکہ آپ انسان تواشرف المخلوقات ہو پھر آپ لوگوںکے سینے میں دل پتھر کا کیوںہے ؟کیا منوبھیل سے اس کے بیوی بچے چھیننے والاسینے میں دل نہیں رکھتا ؟ اور کیا تمہاری حکومتیں اور نام نہاد NGOs اس قدر بے بس ہیں کہ وہ اس مجبور انسا ن کی مدد بھی نہ کرسکیں ۔یہیں میری چھاﺅ ں تلے اس نے کئی برس گذارے۔بہت سے مگرمچھ کے آنسو بہا نے والے میڈیا کے شوقین سیاستدان آئے ،اخبار ات اور چینلز کی کوریج حاصل کرنے کے لئے بہت سے دعوے کئے لیکن میرا دوست منو بھیل آج بھی انصاف سے محرم ہے۔
٭SRTC متاثر غلام محمد ڈیپر اور اس کے ساتھیوں کی کچھ خبردو؟
بیری:- (کچھ لمحے خالی نظروں سے اپنی جڑ کے قریب زمین کو دیکھتے ہوئے )ان بیچاروں کی خبر ضروردوںگا ۔ یہ خبر ہی تو تھی جو حکمرانوں کی طرف سے نہیں لی گئی اور وہ بیچارے خبر گیری کے انتظارمیں طویل عرصے تک اسی زمین پر بیٹھے رہے اور اسی انتظار میں ان میں سے بہت سے بوڑھی آنکھیں بند ہوگئیں ۔انکی زندگیاں ختم ہوگئیں لیکن حکمرانوں کی بے حسی ختم نہیں ہوسکی ۔مجھے یاد ہے کہ بوڑھے اور ریٹائرڈ SRTC ملازمین میں سب سے تواناغلام محمد ڈیپر ہی تھاجو حکمرانوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ہرروز احتجاج کا کوئی نیا اور اچھوتا ڈھنگ اختیار کرتا تھا ،تاکہ میڈیا والے یکسانیت کا نام دے کران کی خبر کو کِل نہ کردیں ۔اس طرح میڈیا والوںکو ایک اچھی خبر اور فوٹیج تو مل جاتی تھی لیکن اس کے بعد میں ہی دیکھتا تھا کہ وہ میڈیا کے تقاضے پورے کرنے کے بعد میری چھاﺅں تلے بیٹھ کر کتنی دیر کھا نستا اور اپنی سانسیں درست کرتا تھا۔ میں سوائے ٹھنڈی چھاﺅ ں دینے کے اسکے لئے کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ 
٭ارے وہ بوڑھا نور محمد کون ؟تھا جو اکثر اپنے مطالبہ کے حق میں چند تصاویر لے کر گم سم گھنٹوں آپ سے ٹیک لگائے بیٹھا رہتا تھا؟
بیری :- ہاں خوب یا د دلایا آپ نے ،کافی عرصہ سے نظر نہیں آیا۔ مر گیا ہوگا بیچارہ۔شاید اس کی بے سکون زندگی کو موت ہی کے سہارے کی ضرورت تھی ۔اس کے ہاتھوں میں ہی نہیں بے رونق آنکھوں میں بھی اپنے پیاروں کی تصویر یں نظر آتیں تھیں جو تمہارے ایک ادارہ کی بد عنوانی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
٭ادارہ کی بد عنوانی کی بھینٹ ۔کیا مطلب؟ 
بیری ©:-ارے دوست !اگر اس ادارہ کے انسپکٹر اور دیگر متعلقہ افسران فر ض شنا سی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے برابر والی عمارت کا انہدام اپنی نگرانی میںکراتے تو نور محمد کا مکان اس طرح زمیں بوس نہ ہوتا۔کیا تم نہیں جانتے کہ اس طرح گھر میں سویا ہوا نور محمد کا پورا کنبہ زمین کا پیوند بن گیا ۔تم بھی ایک انسان ہوذرا سوچوجس شخص نے اپنے بیوی بچوں اور پوتے پوتیوں کے26 مسخ شدہ لاشے دیکھے ہوں توشاید موت ہی اس کے نا قابل برداشت غم کا علاج ہوسکتی ہے۔ 
٭پچھلے دنوں میں نے یہاں سے گذ ر تے ہوئے آپ کے قریب ہی ایک غریب سے خاندان کو کوئی احتجاج کرتے دیکھاتھا ،خاصے لوگ جمع تھے ۔ان کا کیا مسئلہ تھا ؟
بیری :- ارے بھائی ایسے مظاہرین تو سالہاسال سے ہر روز دیکھ رہا ہوں ۔ پتہ نہیں آپ کس کی بات کر رہے ہیں۔
٭ارے بابا !وہ جو بہت بوڑھے اور کمزور سے والدین تھے اور ان کے ساتھ 16 - 17سال کی خوبصورت لیکن بینا ئی سے محروم لڑکی تھی ۔
بیری :- ہاںہاں، یا د آگیا( کچھ دیر خاموش ر ہنے کے بعد)تم انسان لوگ میری سمجھ سے باہر ہو۔بعض اوقات تو انسانیت سے درندگی بھی شرماجاتی ہے۔تمہیںنہیںمعلوم اس کے ساتھ کیا ہوا ؟میں بتاتا ہوں ۔دراصل وہ خاندان حیدرآباد کے قریب واقع ایک گوٹھ میں رہائش پذیر ہے ۔بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے ضعیفی کے باوجود ماں باپ دونوں ایک زمیندارکی زمینوں پرکام کرتے تھے ۔لڑکی کی ایک ہفتہ بعد شادی تھی ۔برادری کا لڑکا ہونے کی وجہ سے قوت بصارت سے محرومی کے باوجود اس اللہ کے بندے نے لڑکی کو اس معذوری کے ساتھ بھی قبول کر لیا تھا ۔اس روز بوڑھے والدین حسب معمول مزدوری کے بعدتھکے ہارے گھر پہنچے ہی تھے کہ زمیندارکا لڑکااپنے 4 اوباش دوستوں کے ہمراہ گھر میں داخل ہوا اور بوڑھے والدین کورسیوںسے باندھنے کے بعد ایک کمرے کے چھوٹے سے مکان میں ان کی آنکھوںکے سامنے پانچوں درندوںنے ان کی پھول سی بچی کو باری باری بھنبھوڑ ڈالا ۔بوڑھے،کمزوراور لاچار والدین اس لمحے یہ سوچنے لگے کے کاش ان کی بیٹی کی بجائے وہ خود نابینا ہوتے تو آج یہ درند گی انہیںدیکھنے کو نہ ملتی ۔اتنا کہنے کے بعد بیری شدت جذبات سے کانپنے لگا،اس نے دیوانگی کے عالم میں اپنے پتے نوچ ڈالے ۔بہت سے پتے ہواﺅں میں تیر تے ہوئے دور تک بکھرگئے ۔
بیری کی غم ناک حالت دیکھ کر میںبھی غم اور غصے کی ملی جلی کیفیت میںکچھ لمحے گویا سکتے میںآگیا ۔لیکن پتوں پرکسی شخص کے چلنے سے پیدا ہونے والی چرچراہٹ کی آوازپر یکلخت پلٹ کر دیکھا تو فتح شاہ فراق کو اس طرف آتے دیکھا جس کے ایک ہاتھ میں سرخ وتازہ گلاب سے بھرا ٹوکرا تھا اور وہ وہاں سے گذرنے والے ہرشخص کو نہایت محبت بھری مسکراہٹ کے ساتھ گلاب کے پھول بانٹ رہا تھا ۔ابنِ آدم کے یہ دونوں روپ دیکھ کر میری گویائی جواب دے چکی تھی ۔اچا نک بے زبان بیری کی آواز میرے کانوں میںآئی ۔
"آپ کے جس سوال کا جواب میں دینے سے گریزکررہا تھا ،اس کا جواب یہ شخص یعنی فتح شاہ فراق ہی ہے جو واقعی ایک انسان ہے۔میں اسے برسوں سے دیکھ رہا ہوں۔انسانوں میں محبت اور بھائی چارگی کا پر چارکرنے والا یہ شخص گا ہے بگاہے یہاں آتا ہے اور بلا تفریق رنگ ونسل ،اور فرقہ ومسلک تمام انسانوں کو محبت کے پھول بانٹتا ہے ۔ میرے یہاںمستقل قیام کی واحد وجہ یہ شخص ہے،جو مجھے انسا نوںسے مایوس نہیں ہونے دیتا۔یا اللہ انسانوں کو اور بہت سے فتح شاہ فراق عطا فرما © "۔
میں نے بیری کی دعا پر آمین کہہ کر سر اٹھایا اور انٹرویو کا شکریہ اداکرنا چاہاتو میرے الفاظ فضا میں بکھر کر رہ گئے ۔،،،،،،،،،،
 بیری دوبارہ خاموش ہو چکاتھا۔ 
Practical work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi

کریئر کاونسلنگ کی اہمیت

آرٹیکل: مریم خان
کریئر کاونسلنگ کی اہمیت
کیریئر کاونسلنگ ایسے عمل کو کہتے ہیںجس کے ذریعے طالب علموں کو اپنا کیرئیر بنانے اور اپنے لئے صحیح کیرئیر منتخب کرنے میں مدد ملتی ہے۔کیریئر کاونسلنگ میں ایسے پروگرامز ہوتے ہیں جس میں کانسلر طلباءکو یہ بتاتے ہیں کہ ان کی عملی زندگی کے لئے کونسی فیلڈ صحیح ہوگی یا کس فیلڈ میں وہ کامیابی حاصل کر سکتے ہیںجو ان کے انٹرسٹ،اسکلز اور ان کی قابلیت کے مطابق ہو۔
ہر طالب علم کے لئے کیریئر کانسلنگ بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ یہ ہی ان کے آنے والے مستقبل کی بنیاد ہوتی ہے۔اگر طالب علم صحیح وقت پر اپنے انٹرسٹ کے حساب سے فیلڈ کا انتخاب نہیں کرتے تو یہ آگے چل کر ان کے لئے بڑا مسئلہ بن جاتا ہے اور پھر ان کا پورا کیریئر تباہ ہو جاتا ہے۔موجودہ دور میں بھی کیریئر کانسلنگ کی کمی طلباءکا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔وہ اس بات کو سمجھ ہی نہیںپاتے کہ ان کے لئے کونسی فیلڈ بہتر ہے اور کونسی نہیںخاص طور پر میٹرک کرنے کے بعد طالب علم سب سے زیادہ اس پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔انہیں اس بات کا اندازہ نہیں ہو پاتا کہ کونسا مضمون انہیں سوٹ کرتا ہے۔ہر والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ بس ڈاکٹر یا انجینئر بنے ایسے لوگوں کے لئے باقی دوسری فیلڈز کوئی معنٰی ہی نہیں رکھتیںاور اسی وجہ سے وہ اپنے بچوں پر پڑھائی کے لئے دباﺅ ڈالتے ہیں۔کچھ بچوں کا تو جھکاﺅ ان ہی فیلڈز میں ہوتا ہے لیکن بعض بچے نہ چاہتے ہوئے بھی ماں باپ کے کہنے پر اپنے انٹرسٹ اور اسکلز کو بغیر جانے مضمون کا انتخاب کر لیتے ہیں۔یہ ہی ان کی سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے نتیجتا ًوہ اپنی مکمل توجہ ان سبجیکٹس کو نہیں دے پاتے اور ناکام ہو جاتے ہیں۔کیونکہ حقیقت یہ ہی ہے کہ جو کام آپ انٹرسٹ کے بغیر کرتے ہیں وہ کبھی بھی پوری توجہ سے نہیں ہو تااور پھر بگڑ جاتا ہے۔
 کریئر کاونسلنگ میں ضروری ہے کہ آپ کو تمام فیلڈز کے بارے میں بتاےا جائے۔ہر طلبہ کو اچھی طرح سے سمجھایا جائے کہ کس فیلڈ کا کیا اسکوپ ہوگاطلبہ کی صحیح رہنمائی کی جائے انہیں ان کے انٹرسٹ اور اسکلز کے مطابق مشورہ دیا جائے۔اگر طلبہ کی صحیح رہنائی نہیں ہوگی تو ان کا مستقبل تبا ہ ہو جائے گااور اس کا نقصان پورے معاشرے کا ہوگاکیونکہ یہ طلبہ ہی تو مستقبل میں ہمارے ملک کو ترقیاں حاصل کروائینگے۔اس کے بعد سب سے اہم چیز ہوتی ہے hardwork ۔جب آپ اپنی فیلڈ کا انتخاب کر لیتے ہیں تو پھر پوری محنت اور لگن کے ساتھ اس میں کامیابی حاصل کریں ،بغیر محنت کے کوئی شخص کامیاب نہیں ہوتا اسی لئے ہر فیلڈ میں hardwork سب سے ضروری ہوتا ہے۔بے روزگاری کی وجہ بھی کریئر کاونسلنگ کی کمی ہوتی ہے۔طلباءبغیر اسکوپ جانے فیلڈ منتخب کر لیتے ہیں پھر محنت سے اس میں کامیابی بھی حاصل کر لیتے ہیں لیکن جب عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو انہیںاس فیلڈ میں کوئی نوکری نہیں ملتی تب انہیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کس جگہ غلطی کی ہے۔
صحیح کیریئر کا انتخاب کرنا ضروریہے کیونکہ غلط فیلڈ میں جاکر آپ اپنے اندر موجودہ صلاحیتوں کو بھی کھو دیتے ہیں اور پھر آگے کوئی ترقی نہیں کر پاتے۔اسی لئے طلباءکی صحیح طرح رہنمائی کرنی چاہیئے۔
 طالب علموں کو چاہیئے کہ وہ اچھی طرح اس بات کو سمجھیں اور محسوس کریں کہ انہیں کن سبجیکٹس میں انٹرسٹ ہے اور وہ آگے چل کر کس طرح اس میں کامیاب ہو سکتے ہیںاور پھر اسی فیلڈ کا انتخاب کریں۔والدین اور اساتذہ کو چاہیئے کہ وہ طلباءپر کسی مخصوص فیلڈ کے لئے دباﺅ ڈالنے کے بجائے انہیں ہر فیلڈ کے اسکوپ کے بارے میں بتائیں ،انہیں ہر معلومات سے آگاہ کریں تاکہ انہیں فیصلہ لینے میں آسانی ہو ۔اس حوالے سے میڈیا ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔میڈیا کو چاہیئے کہ وہ کیریئر کانسلنگ کے پروگرامز دکھائیں اور ہر فیلڈ کے اسکوپ کے حوالے سے مکمل معلومات طلباءکے لئے فراہم کریں ۔اس کے علاوہ اسکول اور کالجز میں کیریئر کانسلنگ کی ورک شاپز رکھوائی جائیں اور طالب علموں کو سمجھنے میں مدد کی جائے کہ ان کے لئے کونسی فیلڈ بہتر رہے گی۔یہ ہی وقت ہوتا ہے صحیع فیصلہ لینے کا اور اسی پر طلباءکا پورا مستقبل ٹِکا ہوتا ہے۔
مریم خان اسٹوڈنٹ پارٹ تھری، ماس کام سندھ یونیورسٹی جام شورو، سال 2012
یہ پریکٹیکل کام سر سہیل سانگی کی زیر نگرانی کیا گیا

یُمنٰی ریاض۔ انٹرویو

یُمنٰی ریاض۔ بی ایس پارٹ 3۔ رول نمبر: 95
انٹرویو
مس نگہت زیبا نے ضلع سانگھڑ کے شہر شہدادپور سے اپنے ابتدائی ادبی و تعلیمی کیریئر کا آغاز کیا اور شہر کے ادبی حلقوں میں اپنی شناخت کروائی۔کئی رسوالوں و اخبارات میں اب تک آپکی بے شمار تحریریں شائع ہو چکی ہیں۔ اردو کی پروفیسر کی حیثیت سے کئی اسکول و کالجز میں پڑھا چکی ہیں۔ 2003 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ ”دھوپ کے پار“ کے نام سے بھی شائع ہو چکا ہے۔ آپ سندھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے Board of Studies کی رکن بھی ہیں۔ زبیدہ کالج کی پرنسپل و ہاسٹل نگران بھی رہ چکی ہیں۔ آج کل”گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج ہالا“ میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہیں۔
سوال: اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیے۔ گھر کے ماحول نے آپ کی کیسے تربیت کی اور آپ پہ کیا اثر ڈالا؟
جواب:میری تعلیم کی ابتداءمیرے والد صاحب سے ہوئی جو میرے سب سے اچھے استاد ہیں جن پہ مجھے آج تک فخر ہے۔ وہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ سات زبانوں کے ماہر تھے۔ مجھے قرآن شریف بمعہ ترجمے کے انہوںنے ہی پڑھایا۔میں نے شاعری و مضمون نگاری بھی اُن ہی سے سیکھی۔ اس کے علاوہ میں نے بہت چھوٹی عمر سے ہی اخبار پڑھنا اور اشعار کی تشریح کرنا سیکھ لیا تھا۔ اس کے بعد کی اپنی تمام ابتدائی تعلیم شہدادپور سے ہی حاصل کی ۔ بعدمیں بھی مجھے قدم قدم پر مہربان، شفیق اساتذہ کی رہنمائی ملتی رہی جنہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ اسی باعث میں سیلف میڈ ہونے پر یقین نہیں رکھتی ہوں کیونکہ میرے خیال سے رہنمائی کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ میں شروع میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی لیکن والد صاحب کی خواہش تھی کہ میں اردو کی پوفیسر بنوں۔ اس خواہش کو وپورا کرنے کی خاطر میں نے ایم اے اردو کا انتخاب کیا۔ میری تربیت اور تعلیم میں گھر کے اس ادبی ماحول کا ہی ہاتھ ہے اگر مجھے وہ ماحول میسر نہ ہوتا توآج میں شاید اس مقام تک نہ پہنچ پاتی۔ 
سوال: ہالا گرلز کالج کا قیام کب اور کن ضروریات کے تحت عمل میں لایا گیا؟
جواب: انٹیریئر میں کالج ویسے بھی بہت کم ہوتے ہیں اسی لئے ہالا میں بھی گرلز کالج بنانے کی ضرورت پیش آئی کیوں کہ ہالا کی بچیوں کو کوئی بھی گرلز کالج بہت دور پڑتا تھا۔ مٹیاری سمیت اُس وقت قریب میں کہیں بھی کوئی گرلز کالج نہیں تھا۔ ہالا سے بچیاں سکرنڈ ہی جا سکتی تھیں، شہدادپور جانے کا ان دنوں تصور ہی نہ تھا۔ کچھ لڑکیاں بوائز کالج میں داخلہ تو لے لیتی تھیں لیکن ریگولر کلاسز نہیں لے سکتی تھیں کیوں کہ ہالا کا ماحول ایسا نہیں ہے۔ ان حالات کی بناءپر ہالا میں گرلز کالج بنانے کی ضرورت پیش آئی اور یوں 1986میں گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج ہالا قائم ہوا۔
سوال:بطورگرلز کالج پرنسپل کے کسی پہ کیا فرائض و ذمہ داریاںعائد ہوتی ہیں؟
جواب: کسی بھی ادارے کو چلانے کے لئے ایڈمنسٹریشن کا سینس ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ آپ کا اپنی پیشے سے مخلص ہونا بہت ہی اہمیت رکھتا ہے۔ کالج میں ادبی سرگرمیوں کا انعقاد ہونا چاہئے کہ اس سے بچوں کو آگے آنے کا موقع ملتا ہے۔ ادارہ چاہے اسکول ہو یا کالج اس کو خلوص سے چلانا چاہئے اور اس مین ایسی صحت مند سرگرمیاں ہونی چاہئیں جس سے طالب علموں کو آگے آنے کا موقع ملے۔ اسٹاف کی تکلیفوں کا بھی احساس کرنا چاہئے۔ نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں پہ ضرور توجہ دینی چاہئے۔ صفائی اور پینے کے پانی کا مناسب انتظام ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ یہ سب ذمہ داریاں کسی بھی ادارے کے پرنسپل پر لاگو ہوتی ہیں۔
سوال: آپ مشاعروں میں باقاعدہ حجاب کے ساتھ شریک ہوتی رہی ہیں، وہاں آپ کو سب کی جانب سے کیسا رسپانس ملا؟کیا واقعی حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟
جواب: یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ یہ خود عورت پہ منحصر کرتا ہے کہ وہ خود کو نمایاں کرے یا حجاب کرے۔ بہت سی شاعرات ایسی بھی ہوتی ہیں جو ماڈل بن کر آتی ہیں انکو بھی لوگ سنتے ہیں اور حجاب، اسکارف والیوں کو بھی سنا جاتا ہے۔ میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ لوگ کلام پہ تعریف کرتے ہیں اور بے باکی پر ہوٹنگ کرتے ہیں۔بلکہ مجھے اس کا بہت فائدہ رہا کہ کبھی بھی لوگ مجھ سے ناجائز فری نہیں ہوتے، نہ ہی کبھی مجھ پہ ہوٹنگ کی گئی۔ ابھی بھی میری بے شمار سوشل، ویلفیئر اور ادبی سرگرمیاں ہوتی ہیں اور ہر جگہ میں نقاب و حجاب مین ہی ہوتی ہوں لیکن میں نے اپنا حجاب کبھی بھی نہیں چھوڑا۔ نہ ہی کبھی مجھے اس پہ شرم ےا ہچکچاہٹ محسوس ہوئی اور نہ ہی کسی کے اعتراض کا سامنا کرنا پڑا۔ بلکہ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ اسکی بدولت لوگ آپ کی زیادہ عزت کرتے ہیں۔
سوال:آپ کے خیال سے کیا لڑکیوں کے لئے علیحدہ تعلیمی ادارے ہونا ضروری ہیں؟
جواب: میں سمجھتی ہوں کہ اگر مخلوط تعلیم ہو تو اس میں مقابلے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ ہاںلیکن میٹرک تک تعلیم مخلوط نہیں ہونی چاہئے کہ وہ عمر اور ہوتی ہے۔ اس کے بعد جب بچہ شعور کی عمر میں داخل ہوتا ہے تو مخلوط تعلیم میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے لڑکیوں میں زیادہ اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ انہیں معاشرے میں چلنے کاسلیقہ آتا ہے اور وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ لوگوں میں اٹھ بیٹھ سکتی ہیں۔ لیکن یہ کہ عورت حجاب اور اپنی حدود میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کرے تو نہ تو کوئی اس کا بے جا مذاق اڑائے گا اور نہ ہی ناجائز فری ہونے کی کوشش کرے گا۔ اس کے علاوہ تمام تعلیمی ادرے، انکا ماحول، نصاب اور ان کا سلیبسس سب ایک ہی ہونا چاہئے۔
سوال:طالب علموں کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
جواب: بدقسمتی سے آج کل طالب علموں کا رجحان کھیل تماشوں کی طرف زیادہ ہے۔ ان سے میںیہ کہنا چاہوں گی کہ وہ پندرہ سال سے پینتیس سال تک عمر کے جو بیس سال ہیں اس عرصے کو ضائع نہ کریں اور ان سالوں میں ہی اپنا کیریئر بنا لیں تاکہ آپ معاشرے کے ایک مفید اور ذمہ دار شہری بن سکیں۔ بے جا مشغلوں کے بجائے سنجیدہ رویہ اختیار کریں کیونکہ یہ ہی وہ عمر ہے جس میں آپ اپنی قوتوں اور طاقتوں کا صحیح استعمال کر کے اپنے بڑھاپے کو بھی سنوار سکتے ہیں۔ 

زندگی اور ماحولیاتی الرجی

روزمرہ کی زندگی اور ماحولیاتی الرجی
جس طرح یہ دنیا ترقی کر رہی ہے ساتھ ساتھ اس کے مسائل بھی ترقی کرر ہے ہیںجدہر نظر دوڑائیں ہر کوئی مسائل میں گہرہ نظرآتا ہے۔اس ہی وجہ سے لوگوں نے عام ےا چھوٹی موٹی بیماریوں کی طرف دھیان دیناچھوڑدیا ہے۔
جس کی وجہ سے یہ بیماریاں خطرناک نوعیت اختیار کر لےتی ہیںجس طرح استھیمہ یا سانس کی بیماریاںبھی عام دیکھنے میں آتی ہیں جو کہ دےکھنے اور سننے میں تو مسا وی نوعیت کی بیماریہے لیکن اگر اس میںاحتےاط نہ کی جائے تو وہ انسان کو مفلوج بنا کر رکھ دیتی ہے۔
اسی لئیے اس انٹرویو کی مدد سے اس قسم کی بیماریوں کو سمجھنے کے لیئے اک چھوٹی سی کاوش کی گئی ہے۔ 
نام:ڈاکٹر شفیع شیخ
تعلیم ©:ایم بی بی ایس،ڈی ایل او ۔۔۔ ایف سی پی ایس(اسپیشلائیزیشن)
 ٓ ڈاکٹر شفیع شیخ پچیس سال سے اس مسیحائی شعبے سے وا بستہ ہیں۔ڈاکٹرصاحب کے والد بھی ڈ اکٹر تھے پر یہ اس شعبے میں حادثاتی طور پر آئے کارڈیو لو جسٹ بننا چاہتا تھے۔ 
س :ڈاکٹرصاحب الر جی کیا ہے؟
 ڈاکٹرصاحب ۔ کو ئی بھی فورا ًچیزریئیکشن کرتی ہے وہ الرجی کہلاتی ہے یہ کسی بھی چیز سے ہوسکتی ہے الرجی دو طرح ہوتی ہے۔کھا نے کے ذریعے مثال کے طور پرکچھ لوگوں کوکےلے سے،کچھ کو انڈے سے،کچھ کو چاول سے،اور کچھ کو مچھلی اور گائے کے گوشت سے۔اسی طر ح سا نس کے ذریعے یا ناک سے کچھ لوگوں کو مٹی سے،ہوا سے،پودوں سے،سگریٹ سے ،ہر قسم کے دھو ائیں سے،خوشبو ﺅں سے،پودوںسے،اور کچھ کو پردوں اور کا رپٹ سے حتی کہ اس بیماری کی کوئی خاص وجہ نہیں ہو تی یہ ما حولیاتی تبدیلی سے لے کر قوت © مدافعت کی کمی سے بھی الرجی ہو سکتی ہے۔
َِِِِِِِِِ ¿ µ µس آیا ےہ ایک ہی بیما ری ہے ےا مختلف بیماریوں کے نام۔
 ڈاکٹرصاحب ۔ ایک ہی بیماری ہے لوگوں میں مختلف نوعیت سے پا ئی جاتی ہے ای این ٹی کے لحا ظ سے اصل میں سا نس کے راستے ہی ہو تی ہے۔
س ©:کیالرجی ایک وبہ کی طرح پھیل رہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ :نہیں،بلکل نہیںلیکن ہماری ما حولیاتی آلودگی کی وجہ سے جلد پھیل رہی ہے۔
س :الرجی دوسری بیماریوں سے کس طرح مختلف ہے۔
ڈاکٹرصاحب ۔: الرجی مٹی کے مخصو ص نو عیت کے زرات جنہیں ہا ﺅس ڈسٹ ما ئٹ کہتے ہےں ان کی وجہ سے پھیلتی ہے جو خا ص طو ر پر مختلف ہیں۔
س :اس کے ارلی اور لا سٹ اسٹےجیزکےا ہیں؟
ڈاکٹرصاحب ۔: شرو ع میں بس چھینکیں آ تی ہے مثا ل کے طو ر پراگر کسی کو مٹی سے الرجی ہے اور اس نے بچاﺅ نہ کیا ان کی بیما ری خطر ناک حد اختےارکر جاتی ہے اگر اس پر شروع میں تو جہ نہ دی جائے تو ےہ آگے جا کر اےستھیما سویرٹی کو بڑ ھا تی ہے۔
س :آ ےا کیا پو لیو شن کی وجہ سے الرجی فروغ پا رہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: جی ہاں ، ےہ بہت بڑی وجہ ہے ہما رے ملک کا بڑھتا ہوا ٹریفک اوردھواں بیما ری کو فروغ دے رہا ہے آ خر ہم احتےاط کے علاوہ کر بھی کےا سکتے ہیں۔
س :اس کی بڑ ھتی ہو ئی وجو ہات۔
ڈاکٹرصاحب ۔: خا ص طو ر پر ہما ری ماحولیاتی آلو دگی اور کچھ خا ص نہیں،دیکھا جائے تو ہر ملک میں ہی یہ بیماری کسی نہ کسی طرح پھیل رہی ہے بس شکل اور وجوہات الگ ہے۔
س :الرجی ایک فرد سے دو سرے فرد کو منتقل ہوتی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: نہیں ، یہ لگنے اور فرد بہ فرد منتقل ہونے والی بیماری بلکل نہیں ہے،یہ جلدی الرجی سے خاصی مختلف ہے۔
س :یہ وہ بیماری ہے جو ہمارے ملک کی اکثریت میں پارہی ہے۔
ڈاکٹرصاحب ۔ :نہیں ،لیکن اس سے بچنا بھی نا ممکن نظر آتا ہے۔ہم گھر سے نکلنا چھوڑ تو نہیں سکتے،مٹی سے الرجی ہے تو صفائی کرنا چھوڑ ا تو نہیںجاسکتا ان ہی بے احتےاطیوںکی وجہ سے یہ فروغ پارہی ہے۔
س :کیا اس کا علاج بھی دوسری بیمارےوںکی طرح سہل ہے؟  
 ُڈاکٹرصاحب ۔ : کافی سستا اور مفید ہے ،پہلے کچھ ٹیٹسٹ کئیے جاتے ہیںاگر ایک ےا دو چیزوں سے الرجی ہوتو ویکسین بنا کر ا س سے علاج کیا جاتا ہے جسے’ ہا ئیپوسینٹائیزیشن‘ کہتے ہیں یہ علا ج بہت مفید ہے پر جن لوگوں کو زےادہ چیزوں سے ہو ان کے لئیے نہیں ۔
س :بچوں اور بوڑھوں میں اس کی کیا نوعےت ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: بچوں اور بوڑھوں میں اس کی نوعےت تقریباًایک جیسی ہے کیونکہ دونوں ہی میں قوتِ مدافعت کم ہوتی ہے،بوڑھے بھی بچوں کی طرح خود کو بیماری سے نہیں بچا سکتے۔
س :کیامو سمی اثرات بھی اس کے بڑھنے کی وجہ ہو سکتے ہیں؟
ڈاکٹرصاحب ۔: ہاں جب سرد ہوائیں چلتی ہیں تو وہ بھی الرجی کی خا ص وجہ بنتی ہیں۔
س :اس موضوع کو کم اجاگر کیا جاتا ہے جب کے ےہ بہت تیزی سے پھیل رہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ : ہمارے ملک کا المےہ ہے کہ جب تک پانی سر سے نہ گزر جائے ہم کسی چیز پر توجہ نہےں دیتے اگر کسی فرد کو الرجی ہوتی ہے تو وہ جب تک ڈاکٹر کا رُ خ نہیں کرتا جب تک سانس لینا محال نہ ہو جائے۔ اگر اس بیماری کوکنٹرول کرنا ہے توشروع میں ہی اس کا علاج کیا جائے مستقل دوایﺅ ں اور علاج سے لیکن ساتھ ساتھ احتےاط بھی لازمی ہے۔
س :کیا پودے بھی الرجی کی وجہ بن سکتے ہیں؟
ڈاکٹرصاحب ۔: جی ہاں،بہت زیادہ جن لوگوں کو پودوں سے الرجی ہوتی ہے تو پھر انھیں گھر سے پودوں کو دور کرنا پڑتا ہے،کبھی کبھی تو ہم گھر ےا شہر بھی تبدیل کرنے کا مشورہ دےتے ہیں۔
س :کو ئی خا ص نوعیت کی الرجی جو ہمارے علاقے سندھ سے تعلق رکھتی ہو؟
ڈاکٹرصاحب ۔: ’ڈسٹ الرجی ‘کیونکہ ہمارے یہاں مٹی اور صفائی پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے ویسے بھی ہمارا شہر پہاڑی علاقہ ہے تو ہوائیں بھی چلتی ہیں جومٹی اُڑنے کا سبب بنتی ہیںجس کی وجہ سے ہمارے علاقے میں سب سے زیادہ ڈسٹ الرجی پائی جاتی ہے۔
س: لوگوں میں اس بیماری کی اوئیرنیس۔
ڈاکٹرصاحب ۔ : کافی حد تک لوگ اس بیماری کو سمجھ گئے ہیں ،لگاتار آگاہی بھی ہو رہی ہے احتیاط بھی کرنے لگے ہیں
س:کیا یہ بیماری سرے سے ختم ہوسکتی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: اگرانسان میںکسی چیز کی حساسیت پیدا ہو جائے تو وہ ہمیشہ رہتی ہے اسے دوائیوں سے دبایا تو جاسکتا ہے پر ختم نہیں کیا جاسکتا اس سے دوری ہی اختیار کرنا آسان سا حل ہے ورنہ پھر یہ بیماری آگے جا کرسانس کی نوعیت اختیار کر لیتی ہے۔
س :کیا الرجی میں اینٹی بایو ٹکس یا عام ادوایات سے علاج ہوتا ہے یا اس کے لئیے خاص ادوایات کی ضرورت پڑ تی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ : اس کے لئیے خاص اینٹی الرجک سے علاج کیا جاتا ہے جنھیں سائنسی زبان میں ’اینٹی اسٹیمن ‘کہتے ہیں۔
س :کیا ڈاکٹر حضرات اپنا کردار اس بیماری کے خلا ف ادا کررہے ہیں کیونکہ عموماًدیکھنے میں آ یا ہے کہ دوائیاں مہنگی اور علاج طویل ہوتا ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ : ڈاکٹر حضرات مثبت طور پر اس بیماری کے خلاف اپناکردار اداکررہے ہیں جیسے پہلے سرجیکل آپریشن یعنی گوشت جلانے کی مشین کا خاصہ استعمال تھاپر دیکھئیں آجکل یہ بس رکھی رہتی ہے۔
مارکیٹ میں ایسے اسپرے اور نئی دوائیاں(اینٹی الرجک)آ گئی ہیںجس کی بدولت سرجیکل آپریشنز کی ضرورت نہیں پڑتی اور مریض کو ان دواﺅں اور اسپرے سے خا صہ آ رام آ جا تا ہے۔
س :اس بارے میں پاکستان میں دی جا نے والی تعلیم سے آپ مطمئن ہیں ؟
ڈاکٹرصاحب ۔: کافی حد تک۔
س :کیا پاکستانی لیول ہم جدید سا ئنسی تجربات سے مستفید ہورہے ہیں ؟
ڈاکٹرصاحب ۔: اس بارے میں بہت سے تجربات کئیے جارہے ہیںجس طرح یہ بیماری پھیل رہی ہے اس طرح تحقیقات بھی ہورہی ہیں۔
س :کیا آپ ماس میڈیا کے کرد ار سے مطمئن ہیں کہ وہ لو گوں میں آگاہی پیدا کررہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔ : یہ مسئلہ تو بہت چھوٹا سا ہے پھربھی ماس میڈیا اپنا پورا کردار ادا کر رہی ہے۔مختلف چینلز،مارننگ شوزاور میگزینز سب اپنے اپنے طور پر حق ادا کر رہے ہیں۔
س :کےا حکومت اس قسم کی بیماری کے سدِباب کے لیئے کوئی عملی اقدامات کررہی ہے؟
ڈاکٹرصاحب ۔: اسلام آباد میں جب شہتوت کا موسم آتا ہے تووہاں اس کے با ریک زراّت جنہیں ’پولینز‘کہتے ہیں۔جن کی وجہ سے الرجی والے افراد کو کا فی مسئلہ ہوتا ہے توباقاعدہ ٹی وی پر بتایا جاتا ہے کہ ان دنوں ایسے لوگ احتےاط کریں کم سے کم گھر سے باہر نکلیں۔
س :اسٹوڈنٹس اور آﺅٹ ڈور کام کرنے والے اس سے کس طرح بچ سکتے ہیں؟
ڈاکٹرصاحب ۔:اگر آپ کو زرہ بھی ڈسٹ الرجی یاپولیوشنالرجی ہے توماسک استعمال میںلیںبس احتیا ط ہی کر کے آپ ناگزیر حالات سے بچ سکتے ہیں۔ا

 Written by Sehrish Syed Roll No 60
This practical work was arried in MA prev Mass Comm Sindh University, Jamshoro

لباس انسان کی پہچان

سحرش سیّد۰
ایماے پریویس
آرٹیکل
’لباس انسان کی پہچان بن کررہ گےا ہے‘
دنےا میں وجودِآدم سے ہی لباس کی اہمےت وافادےت معٰنی رکھتی ہے لباس کی تاریخی اہمےت کا اندازہ لگانا نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن سی بات ہے۔ 
تارےخ دانوں کے مطابق۰۰۰۰۳بیسی قبل ہڈےوں سے سوئی بنا کر کپڑے تیار کیے جاتے تھےاس سے اس بات کا اندازہ لگاےا جا سکتا ہے کہ کپڑوں کواپنی سہولت کے مطابق ڈھالنے کا کام کتنا پرانا ہےموجودہ دور میںلباس اپنی مختلف ارتقاءسے گزر چکا ہے لبا س پہلے اپنے جسم کو ڈاھنپنے اورماحول سے بچنے کے لئیے استعمال کیاجاتاتھاپر اب وقت کے ساتھ ساتھ مختلف مراحل سے گزرنے کے بعداس نے اپنی افادیت میںپہلے سے کئی گناہ اضافہ کر لیا ہے۔
ابتدائی دنوں میںکپڑے پہننے والے کو آرام و اطمینان پہچا نے کے لئیے استعمال ہوتے تھے © © ©جےسے سردی میںموسم کی تیزی اور ٹھنڈ سے بچنے کے لئیے لوگ زےادہ سے زےادہ کپڑے استعمال میںلےتے ہیںاور گرمی میںسورج کی تپش سے بچنے کے لئیے اور گرم ہواﺅںسے خود کو محفوظ کرنے کے لئیے کپڑوںکا استعمال کرتے ہیںلیکن سردی میں کپڑوں کا زےادہ استعمال کیا جاتا ہےجےسے کوٹ،دستانے،موزے اور بہت سی ایسی چیزیںجنھیں ہم زیادہ تر گھر سے باہر ہی استعمال میں لیتے ہیں
اس پر نہ صرف علاقے ،رہن سہن،ثقافت اورتہذیب نے اپنا اثر ڈالا ہے بلکہ موجودہ دور میںلباس نے ایک مخصوص صورت اختیار کرلی ہے پہلے لباس صرف کسی علاقے کی ترجمانی کرتا تھاپر اب لباس کی ثقافتی حیثیت میں آہستہ آہستہ کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔
لیکن پھر بھی لباس اپناثقافتی اور سماجی کرداربھی ادا کر رہا ہےجیسے ہر علاقے میں کام کی نوعےت اور مرد اور عورت کے فرق کو بھی ظاہر کرتا ہے جو کہ مغرب میںاب نہ ہو نے کے برابر ہے اور ہم بھی وقت کے ساتھ ساتھ کھو رہے ہیں۔
مغربی دنیا میںلباس نے اپنی ثقافتی حیثےت نہ صرف کھو دی ہے بلکہ صرف اور صرف فیشن تک محدود ہو کر رہ گیا ہے لیکن ہمارے معاشرے میںلباس کی چند ثقافتی خصوصیات اب بھی باقی ہے لوگ جدت کے ساتھ ساتھ ثقافتی رنگ کو بھی اپنے پہناوے میں نہ صرف دیکھنا پسند کرتے ہیںبلکہ شوق سے ثقافت اورجدت کے امتزاج کو اپنا رہے ہیں۔
لباس ہماری حفاظت کرتا ہے بہت سی ایسی بیرونی چیزوںسے جوہمارے جسم کو نقصان پہنچا سکتی ہے جیسے بارشیں ،برف باری اور تیز ہوائیں،اسی طرح سماجی برائیوں سے بھی روکتا ہے جسم کے جس حصے کو اسلام میں ڈانپنے کا حکم ہے لباس سے ہی ہم اسے ڈانپتے ہیںلباس ہی مرد عورت کے فرق کو واضح کرتا ہے جس طر ح ہمارے مذہب میں پردے کا حکم۔
پہلے لباس انسان اپنی ضرورت کے تحت استعمال کرتا تھاپر اب
’لباس انسان کی پہچان بن کے رہ گےا ہے‘
لباس ہمارے عہدے ،کردار اور حیثیت کو بھی ظاہر کر تا ہے جیسے اگر کوئی شخص خوش لباس ہو تو ہم اس کو دیکھتے ہی اسکا اچھا خاکہ بنالیتے ہیں۔
اسلامی نکتہءنظر سے بھی لبا س کی بڑی اہمیت ہے جسے ہم نے خود بھی متعین کیا ہوا ہے اگر نماز کے لئیے کسی کو مسجد جانا ہے تو اس کی اوّلین ترجیح یہ ہوگی کہ وہ شرعی لباس ذیب تن کرے اور اسی طرح دوسرے مذاہب میں بھی لوگ لباس کا اہتمام کرتے ہیںاسی طرح جنگی لباس،کھلاڑیوں کے لباس اور تعلیمی اداروں میں یونیوفارم ہوتے ہیںتاکہ وہ یکجاں لگے اور ان کا مالی فرق نہ معلوم ہو۔
لباس کی دنیا ہمیشہ بدلتی رہتی ہے،جیسے نئی ثقافتی تبدیلیاں اور نئی ایجادات جسے فیشن کا نام دےا جاتا ہے لباس میں وقت کے ساتھ ساتھ جتنی بھی تبدیلیاںیا جدت آتی جائے لباس اپنی سماجی اور انسانی قدر نہیںکھو سکتا کیونکہ انسان ہو نے کے ناتے لباس کی اپنی اہمیت اور افا دےت ہے جسے کوئی فیشن یا معاشرہ تبدیل نہیں کرسکتا۔
This practical work was carried by Sehrish Syed MA prev, in 2012, Mass Comm, under supervision of Sir Sohail Sangi

خوشبو

خوشبو
خوشبو ایک احساس ہے جو انسانی روح کو معطر اور سکون فراہم کرتی ہے۔خوشبو لفظ دواسم سے مل کر و جو د پذیر ہو اہے۔ خوش بو یعنی وہ بو جو خوشی فراہم کرے یقینی طور پر دیکھا جائے تو ایسا ہی ہے کہ انسان کسی بھی خوشبو سے دلی طور پر خوشی کا احساس محسوس کرتا ہے خوشبو کا استعمال کب اور کہاں کیا جانے لگا اس بارے میں مختلف آراءجومود ہے ۔ اگر موجودہ معاشرے کو دیکھا جائے تو جل فول لفظ ملک پیر س کا خیال کی ذہن میں آتا ہے ۔جہاں دنیا کی بہترین خوشبوو ¿ں کا شہر ہے دنیا کی مہنگی ترین خوشبو بھی یہی ایجاد کی جاتی ہے جن میں سے Live Chirstine & Jar Perfume Paris جو اپنی ثانی نہیں رکھتی ، خوشبو نہ صرف انسان کی ذہنیت بڑھاتی ہے بلکہ اس میں پاکیزگی کا وہ عنصر شامل ہے جو کہ ہر جاذب نظر انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور یہ راہ سے گزرنے والے یہ شخص کے لیے ایک احساس چھوڑی جاتی ہے کہ وہ اس سے محزوز ہو ئے بغیر نہیں رہ سکتا اور یہ کہا جائے تو کم نہ ہو گا کہ خوشبو نہ صرف اپنا وجود رکھتی ہے بلکہ ہ ردوسرے وجود کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔
خوشبو کا استعمال مختلف طریقوں اور اقسام میں کیا جاتا ہے اس کا تعلق صرف عطر یا پر فیوم تک محیط نہیں بلکہ انسان کے بہت سے عوامل میں اس کی بہت بڑی حیثیت ہے۔
بولنے میں دیکھا جائے تو ماو ¿تھ فریشنر ، ماحول کی بات کی جائے تو ایئر فریشنر کپڑوں کی بات ہو تو کلونز جسم کی بات ہو تو باڈی اسپرے ، کھانے کی بات ہو تو الائیچی ، ہر ادھنیا ، جائیفل ، خوشی کی بات ہو تو پھول اور اگر غم یا موت کی بات ہو تو کا فوریا قیمتی خوشبو دار لکٹری ساگو ان گو کہ کوئی بھی خوشبو کی اہمیت کو ذرہ بھی کم نہیں کرسکتے۔
بھوک میں اٹھتی ہوئی کھانے کی بو انسان کی لذت کے عنصر کو مزید بڑھادیتی ہے ۔ کپڑے یا جسم سے آنے والی خوشبو انسان کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتی ہے ماحول سے آنے والی خوشبو انسان کو دوستی اور اپنائیت کا احساس دلاتی ہے حتی کہ انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک انسان کا خوشبو سے بہت گہر ا تعلق ہے خوشبو صرف عطر یا لیکوڈ مادے کا نام نہیں بلکہ خوشبو وہ عنصر ہے جوکہ انسان اپنی ماں اور اپنے چاہنے والوں میں محسوس کرتا ہے گو کہ انسان میں سے سونگھنے کی اتنی تیز نہیں مگر پھر بھی وہ مختلف بوو ¿ں میں تفریق کر سکتا ہے۔
اللہ نے اپنی دوسرے مخلوقات میں شاید ان کو سونگھنے کی ہم سے بہتر حسن عطا کی ہے جس طرح جانور مختلف بوو ¿ںکو سونگھنے ہیں ہو ئے میلوں کا سفر طے کر لیتے ہیںاور اس مقام پر خوش اسلوبی سے پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں موضوع انسان اور جانور کی حسن کا مقابلہ کرنے کی نہیں بلکہ ہم خوشبو کی اہمیت اور قدر قیمت پر بات کر رہی ہے۔
پیرس جو کہ اس دور میں خوشبو و ¿ں کا شہر کہا جاتاہے زمانہ جہالت میں یہ لو گ مہینوں نہیں نہاتے تھے اور اپنے جسم سے اٹھنے والی بو کو دبانے کیلئے انھوںنے مختلف خوشبوو ¿ںکا استعمال شروع کیا اور اگر اسلامی تاریخ کا مشاہدہ کیا جائے بلاشبہ پہلا خیال اسی شخصیت کا آتا ہے جو آخر الزماں ہیں آپ ﷺ نے نہ صرف پاکیزگی اور طہارت کو مذہت کانصف حصہ قرار دیا بلکہ آپ اُس ذات پاک کا ایک بہترین حصہ ہے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ کے جسم مبارک سے جاری ہونے والے پسینہ مبارک اکھٹا کرکے اسے اس زمانے کے لوگ اسے عطر کے طور پر جما کر کے خوشبو کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ آپ سے مصاحفہ کر نے والے صحابی آپ کے جسم سے آنے والی خوشبو اک عرصے رہتی تھی۔
گو کہ ہمارے معاشرے میں بھی خوشبو کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی طور پر بھی کسی دوسرے معاشرے سے کم نہیں اور ہم عطر اور مختلف خوشبو جات کا استعمال نہ صرف اس صدی میں کر رہے ہیں بلکہ شاید یہ کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ انسان اپنے وجود میں آنے سے ہی خوشبو کے عنصر سے محذوز ہو رہا ہے بلکہ خوشبو کی اہمیت کو بخوبی جانتا ہے۔
ذہنی ہو یا جسمانی ، مادی ہو یا روحانی خوشبو کے مقام کو کسی پیمائش سے ناپنا اب تک آسا ن نہیں۔
پھول کو شایداپنی خوشبو سے ہی پذیرائی حاصل ہے ورنہ گلاب کا مقام بادشاہوں سانہ ہوتا۔
تمام استعمال میں آنے والے خوشبو مختلف عناصر میں پائی جاتی ہے۔ اور یہی مختلف عناصر انسان کو دوسرے سے مختلف بناتے ہیں۔
خوشبو انسان کے کردار کا آئینہ ہوتی ہے کہ جو کہ سامنے والے کو اسکی شخصیت سے متعارف کراتی ہے گو کہ آپکے کیے ہوئے لفظوں سے سامنے آنے والا آپ سے متعارف ہو چکا ہو تا ہے۔
ماحول سے پیدا ہو نے والی خوشبو آپ کو اس ماحول سے ایسی آشنائی دیتی ہے کہ آپ اس بات کا اندازہ با خوبی لگا سکتے ہیں کہ اس مقام پر ہونے والے عمل کی کیفیات کیا ہے۔
کارخانے یا کسی مخصوص چیز کی دکان سے آنے والی خوشبو، مسجد یا عباد ت گاہ سے اٹھی ہوئی خوشبو اپنا ایک علیحدہ وجود رکھتی ہے۔
بارش میں زمین اٹھتی ہوئی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو میرے اور اندھے انسان کو بھی بنا ھیگے ہی بارش کا وہی احساس وہی ہے جو کہ تمام احساس رکھنے والے کو محسوس ہوتا ہے۔
گو کہ انسان معاشرے میں خوشبو کی قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خوشبو طہارت کا پہلا احساس ہے جو کہ اس پاکیزہ شخص میں سے آتی ہے جو ک اپنا مقام انسانیت کی معراج پر پاتا ہے غالباً دنیا کے تمام افراد ایسے شخص سے ضرور ملنا پسند کرتے ہیں جن کے وجود سے آنے والی خوشبو ان کے وجود کو اپنی طرف مائل کرتا ہوا پانی ہے۔
یہ خود کار لمحے جس میں انسان بذات خود تو کوئی عمل نہیں کر رہا ہوتا بلکہ سامنے والے کی روح سے اٹھتی ہوئی خوشبو اس کو اپنی طرف مائل کر رہی ہوتی ہے جس کا بہترین نمونہ آپ ﷺ کے بعد ہماری ماں اور تمام بزرگانِ دین شخصیات ہیں ۔

 Written by Sehrish Syed Roll No 60
This practical work was arried in MA prev Mass Comm Sindh University, Jamshoro

حکومت ،الیکشن اور ووٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

حکومت ،الیکشن اور ووٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
     اگلی حکومت کس کی ہے ےہ طے کرنا تو عوام کا کام ہی ہے لیکن کیا واقعی حکو مت عوام کی مر ضی کے مطابق ہوگی؟الیکشن جو عوام کی مرضی جاننے کے لیے کروائے جا رہے ہیں ۔کہا جا رہا ہے کہ نئی حکومت انقلاب لائے گی ۔انقلاب ،تبدیلی یہ الفاظ بہت کھوکھلے اور بے معنی ہیں کیونکہ ہمارے ےہان وعدے تو بہت بڑے بڑے کیے جاتے ہیں لیکن ہوتا کچھ نہیں۔ ہر بار عوام پر’ امید ہوتی ہے اور ہر بار امید توڑتی ہے ۔کیا یہ انقلاب ملک کے بگڑتے ہوئے حالات کا بہتر کر سکے گا ملک میں پھیلی بدامنی،لوٹ مار اور بگڑتے ہوئے حالات کو ٹھیک کر سکے گا لیکن ایسا ہونا مشکل ہی نہیں نا ممکن نظر آتا ہے کیونکہ جب سے پاکستان بنا ہے الیکشن بھی ہوتے رہے ہیں اور حکومتیں بھی بنتی رہی ہیں مگر تاریخ گواہ ہے کہ کسی حکومت نے بھی اس ملک کی حالت بدلنے اور ملک میں درپیش مسائل کو حل کرنے کی سرے سے کو شش ہی نہیں کی ورنہ پاکستان کا حال یہ نہ ہوتا ۔ملک کے گنے چنے لوگ جو جو حکومت کرنے کے لیے الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں وہ ہر بار وہ ہی وعدے کرتے ہیں جہ وہ پہلے کر چکے ہوتے ہیں لیکن ان وعدوں کو پورا کرنا وہ بھول جاتے ہیںکیونکہ ان کو تو کرسی چاہیے وہ تو مل گئی پھر وعدوں کا کیا ! 
ہماری عوام بھی تو کتنی بھولی بھالی ہے جو بار بار انھیں لوگوں کو منتخب کرتی ہے ۔عوام کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو واقعی حکومت کرنے کے اہل ہوںاور ملکی معاملات کو ایمانداری اور احسن طریوے سے نبھا سکے ۔
ووٹ انقلاب لانے کا اہم ذریعہ ہے ۔اور ووٹ کی حیثیت امیدوار کے بارے میں گواہی کی سی ہے ۔چونکہ ووٹر جس کو ووٹ دے رہا ہے وہ دراصل اس امیدوار کے بارے میں گواہی دے رہا ہے کہ واقعی یہ شخص ملک میں انقلاب لائے گا اس لیے ووٹ اس کو دیا جائے جو اس کا صحیح حقدار ہے۔ محض ذاتی تعلقات کی بنا پر جھوٹ پر مبنی ووٹ دینا جائز نہیں
غلط آدمی کو ووٹ دینا بد دیانتی بد ترین صورت ہے۔ اس لیے ہمیں بھی اپنا قیمتی ووٹ ڈالتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم جس کو ووٹ دے رہے ہیں وہ کس قدر قابل شخص ہے ۔اگر ہم ایسے کو ووٹ دیں جو واقعی ایماندار ہو تو اس بات کی ہمیں خود بھی خوشی ہو گی کہ ہمارا ووٹ ضائع نہیں گیا اور اگر ہم نے کسی ایسے آدمی کو ووٹ دیا جو ایماندار بھی نہیںتو اس کا حساب اللہ کو ہمیں بھی دینا ہوگا کیونکہ اس کی طرف سے جتنے بھی غلط کام اس میں ہم برابر کے شریک ہونگے۔

 Written by Sehrish Syed Roll No 60
This practical work was carried in MA prev Mass Comm Sindh University, Jamshoro

زندگی ،خیالات اور ہم

تحریر: رضااللہ غوری
ایم اے پریوئس رول نمبر ۲۵ ماس کام ڈپارٹمنٹ سندھ یونیورسٹی
زندگی ،خیالات اور ہم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    زندگی کہنے کو ایک مختصر سا لفظ ہے ۔لیکن اس لفظ کی گہرائی بہت عجیب ہے۔ہم اپنے ارد گرد بے شمار چیزوں کو دیکھتے ہیں اور غور کرتے ہیں جس سے ہمارے خیالات وتصورات بنتے ہیں۔اسی طرح ہم اپنی زندگی پر بھی غور کریں تو ہماری زندگی میں بھی ایسے نشیب و فراز وآتے ہیں جن کی بنیاد پر ہم اپنے خیالت کو بدلتے رہتے ہیں زندگی میں ہم بہت کچھ سوچتے ہیں بہت سی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور انھیں منصوبہ بندی کے تحت ہم اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں ۔ہر شخص اپنے مستقبل کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لیے بہت سی جدوجہد کرتا ہے ۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے ہم جیسا سوچتے ہیں وہ ہوتا نہیں۔ ہر بار ہم اپنی بنائی ہوئی منصوبہ بندی میں کامیاب نہیں ہو پاتے ۔اس میں کچھ غلطیاں تو ہماری اپنی ہی ہوتی ہیں اور کچھ اس کا تعلق ہماری قسمت سے بھی ہوتا ہے ۔ کیونکہ کہ ضروری نہیں کہ جو کچھ ہم نے سوچا ہو وہ ہی کچھ ہماری قسمت میں بھی لکھا ہو۔ اور ویسے بھی ہر کام ربِ کریم کی مصلحت اور رضا شامل ہے ۔ لیکن ہم لوگ شاید یہ بات سمجھتے ہی نہیں اور ا پنی قسمت کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اور مایوس ہونے لگتے ہیں۔ دراصل مایوسی انسان کے اندر اس زندگی کی ان چیزوں کی وجہ سے ہی آتی ہے جو وہ اپنے ارد گرد دیکھتا ہے پھر انھی کی بنا پر اپنی خواہش پیدا کرتا ہے۔ وہ خیالوں میں انھی چیزوں کے ارد گرد گھومتا ہے جو اُسے اپنے اطراف کی دنیا میں نظر آتی ہیں ۔ اسی لیے تو زندگی خواہشوں کی وجہ سے مایوسی بن جاتی ہے ۔ حا لانکہ مایوسی تو کفر ہے ۔ اور انسان کو کوئی حق نہیں پہنچتا مایوس ہونے کا ۔
اللہ نے بار بار انسان کو حکم دیا ہے کہ اے انسان اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ۔ دراصل ہماری زندگی میں ہم ہر لمحہ کسی نہ کسی خواہش کو جنم دیتے ہیں وہ خواہشات جو کبھی ختم ہی نہیں ہوتی اس لیے ہماری مایوسی بھی اس قدر بڑھتی جاتی ہے حالانکہ ہمین اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھنا چاہیے ۔ کہ اللہ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ۔ ان بے شمار نعمتوں کے باوجود انسان احساسِ کمتری میں مبتلا رہتا ہے ۔ ہمین اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔ انسان کو چاہیے کہ وہ خواہشات رکھے لیکن ان خواہشات کو اپنے اوپر حاوی نہ کرے اور اگر وہ خواہشات کو اپنے اوپر حاوی نہیں کرے گا اور اپنے مستقبل پر بھروسہ رکھے گا تو مایوسی خود بہ خود ختم ہوتی چلی جائی گی ۔ کیونکہ کہ خیالات کی دنیا تو انسان کی خود کی تخلیق ہوتی ہے لیکن انسان کی اصل دنیا اصل زندگی اللہ کی تخلیق ہے ۔ اس لیے سارے کام اللہ ہی کی مرضی سے ہوتے ہیں ۔ 


میرا بھی ایک ووٹ ہے

سحرش سید ۰۶
ایم۔اے پاس
تیسرے اشارے کے لیئے
میرا بھی ایک ووٹ ہے

ہمارا ملک دن بدن باایمانی،نہ انصافی،غربت،افلاساور جس کی لاٹھی اس کی بھینس جیسے مسائل میں گھرا ہوا ہےہر کوئی اپنی کھینچو اپنی اوڑھو میں لگا ہوا ہےکسی کو کسی کی پرواہ نہیں مطلب جب اپنا کام نکل رہا ہے تو کیوں کچھ کریں جیسا چل رہا ہے چلنے دو جب دوسرے کچھ نہیں کرے تو ہم کیوں کریں؟
اتنی لمبی تمہید بانھنے کا مطلب اتنا سا ہے کہ ہم اپنا فرض اور حق ہوتے ہوئے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ ایک میرے کرنے سے کیا ہوگا اس بات کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب مجھ سے میرے ساتھی نے پوچھا ووٹ کس کو دوگے میں اک دم گڑبڑا کر رہ گئی کیوں؟ اس لیئے کے میں اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں اپنی اتنی بڑی زاقت کہ بالائے طاق رکھ کرہم صرف اور صرف مسائل گنوانے اور ان کا رونے میں لگے رہتے ہیں۔
 جب سو میں سے ایک نکال دو سو نننانوے ہوجاتے ہیں تو ایک ایک مل کر سب متحد ہو کر کیوں کر ہر برائی کو اچھا ئی میں تبدیل نہیں کرسکتے۔مسلمان ہونے کے ناتے بھی ہمیں یہ درس دیا جاتا ہے کہ اتحاد میں برکت ہے لیکن اس کے لیئے بھی ہم میں سے کسی ایک کو پہلا قدم اٹھا نا پڑ یگا اگر ہر ایک اپنی ذمہ داری پوری کرے توگھر کیا ،شہر کیا،ملک کیا،پوری دنیا کو فتح کیا جاسکتا ہے۔
 گرتے ہیںشہسوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ قفل کیا لڑے جو گھٹنوں کے بل چلے 
یہ ایک ووٹ جو ایک حق کے ساتھ ساتھ ہمارا اولین فرض بھی ہے ہمیں چاہیئے کہ ہم اسے اپنی پوری ایمانداری کے ساتھ استعمال میں لائے ووٹ کس کو دینا ہے یا نہیں دینا ہے اس کا فیصلہ آج کل کے دور میں کوئی نہیں کر پارہا الیکشن سے مہلے تو ہر ایک اچھا لیڈر اور اہمارا خیر خواہ ہی لگ رہا ہوتا اتنی رنگینیاںاور پالشیڈ سپنے دکھائے جاتے ہیںکہ ہر کوئی ووٹ کا حقدار لگ رہا ہوتا ہے
 گھوم پھر کر میرا ذہن پھر وہیں اٹک جاتا ہے ووٹ دوں تو دوں کس کو یہ ہمارا حق سے ز یادہ فرض ہے کیونکہ قطرہ قطرہ ہی دریا بنتا ہے۔اچھا لیڈر نہیں،ہمارالیڈر نہیں،یا کوئی اچھا ہی نہیں سو اس کا آ سان حل ہماری قوم یہ نکالتی ہے کہ کسی کو ووٹ ہی نہ دیا جائے اپنے اس حق سے محروم ہو کر ہم اندھے بہرے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
 دنیا کو اگر چھوڑ بھی دیا جائے تو ہمارا دین بھی ہمیںیہی کہتا ہے کہ حق کا ساتھ دیاجائے حق آ کر رہے گا اور باطل مٹنے کے لیئے ہی ہے ہمارے مذہب میں بھی برائی کے خلاف آواز نہ اٹھانے والا بھی برا ئی کا مر تقی ہے ، اچھائی کا ساتھ دینے کا حکم دیا گیا ہے پر ہم اپنے دین کو بالا ئے طاق رکھ کر اپنے ہی اصو لو ں پر کار بند ہیں ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظلم ہے تو ہم میں سے بہت سے یہی کہےنگے کہ ہم ووٹ ہی نہیں دیتے ،برا ئی کے خلاف اول ترین جہاد اس کے خلاف قدم اٹھانا ہے ، اس سے کم تر اسے برا کہنا ہے،اور آخری اسے صرف اور صرف اسے دل میں کہنا تو ہم سب اپنا اولین فرض کیو نکر ادا نہیں کرتے۔۔۔
 اگر عام فہم الفا ظ میں کہا جائے تو ہم پاتستا نی اب تک گہری نیند سو رے ہیں ،آ خر کب تک سو تے رہینگے کوئی آکر ہمیں ہمیشہ کے لیئے نہیں سلا دیتا۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کوخیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
 اس تگ وپیش کے بعد میں اس مقا م پر پہنچی ہوں کہ ایک با شعور اورشہری ہونے کہ ناتے مجھے اپنا ووٹ ضرور دینا چاہیے چاھے میرا منتخب کردہ امیدوار کامیاب ہو کہ نہیں پر مجھے اپنے فرض سے منہ نہیں موڑنا۔
 یقینا میں نے آپ کا قیمتی وقت لیا پر کیا کرتی کچھ نہ کچھ تو لکھنا تھا تو میںاپنا موقف آپ کے سامنے واضح کرچکی اب دیکھنا یہ ہے کہ 


 Written by Sehrish Syed Roll No 60
This practical work was arried in MA prev Mass Comm Sindh University, Jamshoro

Thursday, 19 September 2013

رباب رفیق ملک

خواہشوں کے تلاطم پر نہ جا۔۔۔
رباب رفیق ملک
ایک فلسفی کا قول ھے ٓاپ وہ نہیں جو ٓاپ سمجھتے ہیں بلکہ ٓاپ وہ ہیں جو ٓاپ سوچتے ہیں۔ دراصل انسان کی شخصیت اس کی سوچ اور خواہشات کی عکاسی کرتی ہے۔ انسان وہ ھی کچھ سوچتا ھے جو وہ چاہتا ھے وہ ہی کچھ تصور کرتا ہے جس کی وہ خواہش کرتا ہے۔ غرض خواب بھی اپنی خواہشات اور آرزو کے مطابق ہی دیکھتا ہے۔
خواہشات انسانی زندگی میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔خواب ، آرزو، خواہشات زندگی گزارنے کے عوامل ہیں۔ مگر بعض اوقات یہ عوامل حد سے تجاوز کر جاتے ہیں، جسکے نتیجے میں انسان خواہش پر خواہش کرتا چلا جاتا ہے اور نہ صرف خواہش کرتا ہے بلکہ انکی تکمیل کے لیے ہر وقت کوشاں بھی رہتا ہے۔
شوپن ہار کہتا ہے؛ انسان صرف ایک پیدائشی خوش فہمی کا شکار ہے کہ ہمیں اس دنیا میں صرف خوش رہنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اور یہ ہی خوش فہمی خواہشات کا جنم دیتی ہے۔لہذا انسان خوش سے خوش تر ہونے کی جستجو میں اپنی موجودہ خوشیوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ ایک مشہور کہاوت ہے جب خو شیاں آ پ کے دروازے پر دستک دے رہی ہوتی ہیں تو اس وقت آ پ بند دروازے کے پیچھے کھڑے اس کے کھلنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ عموما ´ ایسا ہوتا بھی ہے انسان اپنی خواہشوں کے پیچھے ایسا اندھا ہو جا تا ہے کہ اسے موجودہ خوشیوں اور ٓا ¿سائشوں کا دھیان ہی نہیں رہتا اور اس بے دھیانی میں وہ انھیں بھی گنوا دیتا ہے۔ اس طرح نہ تو موجودہ خوشیاں دسترس میں رہتی ہیں اور نہ ہی خواہش۔اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انسان اپنی خواہشوں کو خود پر اتنا سوار کر لیتا ہے کہ وہ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنا شروع کر دیتا ہے ایسے خواب جو انکی خواہشات کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں۔سیگمینٹ فرائیڈ کہتا ہے کہ ©؛ خواب ذہن کی پیداوار ہیں، خواب تسکینِ خواہشات یا تکمیلِ آرزو کے لیے بھیس بدلی ہوئی کوششیں ہیں ۔ لِہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ خواب ، آرزو، خواہشات ایک ہی منزل کے مسافر ہیں۔ کچھ لوگ اپنی خواہشات کی ترجمانی اپنے قلم ، الفاظ ِ، اور تحریر سے بھی کرتے ہیں ۔۔
اکثر افراد خواہشوں کے معاملے میں حد سے زیادہ سنجیدہ ہوتے ہیں انھیں ہر قیمت پر اپنی خواہشات کو پانا ہوتا ہے، جبکہ کچھ لوگ اس معاملے میں قسمت پر ےقین رکھے تکمیلِ خواہش کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔ انھی میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنکی خواہشیں تو محدود ہوتی ہیں مگر باوجود اس کے وہ انھیں حاصل نہیں کر پاتے، اسکی وجہ ےا تو محدود وسائل ہوتے ہیں ےا پھر قسمت کی ستم ظریفی۔۔ ابنِ اِ نشاءکہتے ہیں!
ٰٓٓایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
ٰٓایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا
جی مچلتا تھا ایک ایک شے پر مگر
جیب خالی تھی ، کچھ مول نہ سکا
لوٹ آ یا لئے حسرتیں سینکڑوں
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں۔۔۔
خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے
آ ج میلا لگا ہے اسی شان سے
آ ج چاہوں تو اک اک دکاں مول لوں
آ ج چاہوں تو اک سارا جہاں مول لوں
نارسائی کا اب جی میں ڈھڑکا کہاں
ُپر وہ چھوٹا سا، الہڑ سا لڑکا کہاں۔۔۔۔۔
اس سے ےہ بات واضح ہوتی ہے کہ خواہشات محدود مدت کے لیے ہوتی ہیں ، مگر نارسائی کا دکھ لا محدود ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے کہا گیا ہے 
خواہشوں کے تلاطم پر نہ جا۔۔۔




حیدر آباد کا پکا قلعہ

فیچر: حیدر آباد کا پکا قلعہ
ہر چیز کی اپنی کوئی نہ کوئی خاصیت ہوتی ہے چاہے وہ بڑا شہر ہو یا چھوٹا یہ خاصیت شہر کی نمائندگی کرتی ہے یا یہ کہ سکتے ہیں کہ شہر کی خاصیت اس کی پہچان ہوتی ہے۔ جیسا کہ کراچی میں قائد اعظم کا مزار،لاہور میں مینار پاکستان اور اسلام آباد میں باد شاہی مسجد ان شہروں کی خاصیت ہیں اسی طرح حیدر آباد کی پہچان بھی چند چیزوں سے ہوتی ہے۔جن میں سے ایک مشہور جگہ پکا قلعہ ہے۔اس کا شمار حیدر آباد کی قدیم اور تاریخی عمارتوں میں ہو تا ہے۔
شاہی قلعہ جو کہ اب پکا قلعہ کے نام سے جانا جاتا ہے یہ ایک چٹان گنجے پر کلہوڑو حکمران میاں غلام شاہ کلہوڑو نے سن1768میں اسکو تشکیل دیا۔یہ قلعہ تقریبا تیس ایکڑ زمین پر تعمیر کیا گیا ہے۔میاںغلام شاہ نے حیدر آباد بنایا اور اس کو دارلخلافہ قرار دیا اور یہاں کچھ عمارتیں ایسی کھڑی کی گئی تھیں جو کہ عام شہریوں کے استعمال کے لیے تھیں۔لیکن جب سندھ پر ٹالپور کی حکومت آئی تو ٹالپور حکمران میر فتح علی خان خدآباد چھوڑ کر حیدر آباد کی طرف آنکلے تھے۔ٹالپوروں کے اس دور حکومت میں قلعہ کافی خستہ اور بری حالت میں ہو گیا تھا۔جب سن1843کی جنگ میں میروں کو شکست ہوئی تو انگریزوں نے اس قلعہ پر قبضہ کر لیاتھا کچھ ہی عرصے میں وہاں ہونے والے حملوں سے قلعے اور ارد گرد کی عمارتوں کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی اور انگریزوں نے باقی خستہ عمارتوں کو گرا کر وہاں اپنی فوج کے قیام اور اسلح وغیرہ کے لیے کمرے تعمیر کر دیئے تھے۔پکا قلعہ میں داخل ہونے کا صرف ایک ہی راستہ ہے جو کہ شاہی بازار کی طرف سے نکلتا ہے۔جہاں میروں کے خزانے کی عمارتیں موجود ہیں اور وہاں کی گلیاں بھی کافی تنگ ہیں۔اس کے شمال مشرق میں کمروںکے مکمل کواٹرز موجود ہیں۔آج بھی قلعہ کا یہ منظر دیکھ کر تاریخ کی جھلک نظر آتی ہے۔یہ قلعہ آج سیاحوں اور پاکستانی شہریوں کے لیے دلچسپی کا باعث بن چکا ہے۔اب اسکی موجودہ حالت بہت خراب ہوگئی ہے کیونکہ بارشوں کا پانی اس کی دیواروں میں جمع ہو گیا ہے۔نکاسی آب ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے اس کی حالت اور بری سے بری ہوتی جا رہی ہے۔اس قلعہ کی بری حالت کے زمہ دار ہم لوگ خود ہیں۔اس کے ارد گرد لوگوں نے کئی ہوٹلز اور دکانیں وغیرہ قائم کی ہوئی ہیں جو کہ سرا سر غلط اور غیر قانونی ہیں۔قلعہ کا شمالی مشرقی حصہ بہت ہی خستہ حالت میں ہے اور اسے فوری طور پر مرمت کی ضرورت ہے۔حکومت اور یہاں کے شہریوں کو ایک ایسا قدم اٹھانا چائیے جس سے اس کے تاریخی پہلو کو قائم رکھتے ہوئے اس کی حالت بہتر کی جائے اور قانونی طور پر بھی اسے حکومت کے حوالے کیا جائے تاکہ حیدر آباد کے اس قیمتی اثاثے کوتباہ و برباد ہونے سے بچایا جا سکے۔اس کام میں حیدر آباد کے لو گوں کو بھی حکومت کا ساتھ دینا چائیے،حکومت کے بنے ہوئے قانون کی پاسداری کر نی چائیے اور اپنے حیدر آباد کی اس خوبصورت اور تاریخی جگہ کو بچا کر اور خوبصورت بنانا چائیے۔

محمد صدیق

            عزم و ہمت کی زندہ مثال
 یُمنٰی ریاض۔ بی ایس پارٹ 3۔ رول نمبر: 95
بڑھاپے کی عمر انسان کی زندگی کا وہ دور ہوتا ہے جب انسان فکر معاش سے آزاد اور کسی قدر مطمئن زندگی بسرکرتا ہے۔ تاہم کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اس عمر میں بھی گھر والوں کا پیٹ بھرنے کی خاطر محنت مشقت پرپر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ ایسے ہی با ہمت لوگوں میں محمد صدیق کا شمار ہوتا ہے جو گزشتہ 30 سالوں سے گلی گلی دال سیو بیچنے کا محنت طلب کام کر رہے ہیں۔ محمد صدیق1937 میں ہندوستان کے ایک چھوتے سے گاﺅں ُکتیانہ میں پیدا ہوئے۔ اس لحاظ سے آپ ماشاءاللہ ست ©ر کی دہائی سے بھی اوپر پہنچ چکے ہیں۔ یہ عمر عموماً آرام کرنے کی ہوتی ہے لیکن محمد صدیق کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو عمر کو محنت کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیتے اور اپنی و اپنے گھر والوں کی ضروریات کے لئے اس عمر میں بھی سخت محنت سے نہیں کتراتے۔ آپ پاکستان بننے کے بعد محض10 سال کی عمر میں کھوکھر محلے میں آ کر آباد ہوئے اور گھر والوں کی ضروریات کی خاطر تعلیم ادھوری چھوڑ کر پرچون کی دکان پر کام کرنا شروع کیا۔ چھ عرصے بعد ہوٹل میں ملازمت شروع کر دی لیکن بد قسمتی سے یہاں بھی زیادہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اسی اثناءمیں آپ کی شادی ہو گئی اور آپ نے اپنے سسر کے ہمراہ شادی کے برتن بیچنے کا کام شروع کیا لیکن اس میں بھی کسی خاص فائدے سے محروم ہی رہی۔ یکے بعد دیگرے آپ نے نے کئی کام اختیار کئے اور زیادہ فائدے نہ ہونے کے باعث سب پیشے چھوڑتے رہے۔ آپ نے بچوں کے لئے جھولا بھی چلایا جو پاکستان میںپہلاجھولاتھا۔کچھ سال آئسکریم بھی بیچی۔ بعدازاں برتن کا ٹھیلا بھی چلاتے رہے۔ بالاآخر سب کاموں سے تھک ہار کردال سیو لے کر رزق حلال کی تلاش میں گھر سے نکل پڑے اور آج تک اس راہ کے مسافر ہیں۔آپ روز صبح ساڑھے آٹھ بجے ہی مال لینے کی خاطر گھر سے نکل جاتے ہیں اور گیارہ بجے تک انتظار کرتے ہیں۔ گیارہ بجے کے بعد آپ ہیرآباد اورکالی موری تک گلی گلی جا کر اپنی تیز اور منفردآواز میںگاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنا شروع کرتے ہیں اور سردی، گرمی، ضعیف العمری کی پرواہ کئے بغیر تین بجے تک یہ کام کرتے ہیں ۔ اس کے بعد آپ ٹھیکیدار کو روز کی کمائی کا حساب دیتے ہیں۔ تین بجے بھی آپ اپنی اُجرت لے کر سیدھے گھر نہیں جاتے بلکہ وہیں سے دال کی مزید تھیلیاں لے کراس کے گھر کے سامنے بھی بیچتے ہیں جس سے انہیں کچھ اضافی رقم بطور ایڈوانس مل جاتی ہے۔ اور پھر مغرب کے بعد آپ تھکے ہارے اپنے گھر کا قصد کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ سخت معمول ایک عام اور مضبوط انسان کو تھکا دینے کے لئے کافی ہے لیکن بلند حوصلہ محمد صدیق یقینا ایک عام انسان سے بہت بڑھ کر ہیںجبھی تو گزشتہ 40 سالوں ہمت اور طاقت کے ساتھ مشقت طلب اس پیشے سے وابستہ ہیں اورعلاقے میں ایک جانی پہچانی شخصیت تصور کئے جاتے ہیں ان کی ہمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ لمس ہسپتال تک پیدل اپنا ٹھیلا لے کر بھی جا چکے ہیں ۔ کچھ سال پہلے اپنے ایک بھتیجے کے توسط سے 1حج کی سعادت بھی حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی بلند اور منفرد آواز دور ہی سے انہیں ممتاز کرتی ہے۔ اپنے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لئے آپ اردو کے علاوہ سندھی، گجراتی اور پشتو میں بھی مزے سے آوازیں لگا کر سب کو محظوظ کرتے ہیں۔مشکلات سے بھری زندگی میں ایک اور مشکل اس وقت آئی جب آپ ایک آنکھ کے آپریشن کے سلسلے میں ہسپتال داخل ہوئے۔ آپریشن تو ہو گیا لیکن سانحہ 27 دسمبر کے بعد ہسپتال والوں نے سب مریضوں سے ہسپتال کو خالی کروا لیا۔ یوں آپ بھی آنکھ پربندھی پٹی کے ہمراہ گھر آئے لیکن ناکافی خوراک اور ادویات کی عدم دستیابی کے باعث آنکھ کی تکلیف سے گزرنا پڑا۔ آخر گھر والوں کی بھوک سے مجبور ہو کر اور ڈاکٹروں کی ہدایات کے برعکس آپریشن کے تیسرے چوتھے روز ہی کڑی دھوپ میں کمانے نکل پڑے۔ ڈاکٹرز کی ہدایات نظرانداز کرنے کا یہ خمیازہ بھگتنا پڑا کہ آپریشن شدہ آنکھ کی بینائی کمزور ہوتے ہوتے بالآخر بالکل ہی ختم ہو گئی۔ اس سب کے باوجود آپ اب تک اپنے ہاتھ سے رزق حلال کمانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کام میں ملنی والی عزت اور مشہور ہونے کے باعث محمد صدیق اب یہ کام چھوڑنے کو تیار نہیں۔ 
تما م تر مصائب و آلام اور مشکلات سے گزرنے کے باوجود محمد صدیق ایک با ہمت، بلند حوصلہ اور زندہ دل انسان ہیں جو سب کو محنت کر کے رزق حلال کمانے کا درس دیتے ہیں۔ آپ کی زندگی ہم سب کے لئے ایک سبق ہے کہ چاہے حالات جیسے بھی کیوں نہ ہو جائیں اگراللہ کی ذات پر کامل یقین و بھروسہ ہو اور ہمت و حوصلے سے کام لیا جائے تو پھرنا ممکن اور مشکل حالات سے نبرد آزما ہونا کچھ خاص مشکل نہیں۔ بالخصوص محمد صدیق ان لوگوں کے لئے ایک جیتی جاگتی مثال ہیں جو اپنی خود ساختہ مجبوریوں کو بنیاد بنا کر دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے میں زرا شرم نہیں کرتے اور دوسروں سے اپنی ہتک خود کرواتے ہیں۔ 

پروفائل, الہی بخش بانبھن

  پروفائل 
      الہی بخش بانبھن  نائمہ ممتاز بھٹی
   ( ڈپٹٰی کنٹرولر اےف اےم۱۰۱ حےدرآباد)
 براڈکاسٹنگ کی دنےا مےں بہت سی شخصےات نے اپنی محنت،کاوشوں اور بہترےن پروڈکشن سے اپنا آپ منواےا ہے۔اور رےڈےو پاکستان مےں اپنی اےک الگ شناخت بنائی ہے
انہی مےں مشہور برادکاسٹر اور رائٹر الہی بخش بھی ہےں الہی بخش۹۵ ۹۱ مےں ضلع خےرپور مےرس کے گاﺅں نےر ٹھری مےرواہ مےںپےدا ہوئے ´۵۷۹۱
مےں مےٹرک اور۰۸۹۱ مےں بی اے پاس کےا اور ۳۸۹۱ مےں شاہ عبداللطےف ےونیورسٹٰی خےرپور سے بےن الاقوامی تعلقات مےں اےم۔اے کی ڈگری حاصل کی۔اسی سال کے آخر مےں رےڈےو پاکستان مےں بطور پروڈےوسر تعےنات ہوئے۔۴۸۹۱ سے رےڈےو پاکستان حےدرآباد سے باقاعدہ کام کا آغاز کےا۔
الہی بخش بانبھن اےک نہاےت محنتی اور با صلاحےت پروڈےوسر رہے بہت کم عرصے مےں بہترےن پروگرامز پرودےوس کئے اور رےڈےو کے مختلف شعبوں مےں بڑی خدمات انجام دےں اور گلوبلائزےشن کے اس دور مےں رےڈےو کے وقار کو قائم رکھنے مےں انتھک محنت کی ،آپ کے مشہور پروگرامز جنہےں تمام سندھ مےں پذےرائی ملی اُن مےں سگھڑےن ستھ،بارڑن جی باری،سرئی سانجھ،سب رنگ،صبح مہران،مارون لاءوغےرہ شامل ہے۔اور رےڈےو پاکستان حےدرآباد کے مشہور کوئزپروگرام لوچےن سی لھن کو عروج پر پر پہنچانے کا سہرا بھی جناب الہی بخش کے سر جاتا ہے۔اس پروگرام کے ذرےعے لسنرز مےں ذہنی شعور و آگہی اور کُتب بےنی کا بھر پور شوق اُجاگر ہوا۔ےہ پروگرام رےڈےو حےدرآباد کا سب سے زےادہ چلنے والا کوئز پروگرام ہے
الہی بخش بانبھن خود بھی بہترےن اور خوبصورت آواز کے مالک ہےں بہت سے پروگرامز مےں خود کمپئرنگ کے فرائض بھی انجام دئےے اور خود شاعری بھی کرتے ہےں اور کہانےاں بھی لکھتے تھے جو عبرت ،آفتاب،ھلال پاکستان اور مہران اخبار مےں چھپتی رہی ہےں اسکے علاوہ آپکی اےک کتاب © © ©’کاﺅنون جی کاھ ‘ بھی شائع ہو چکی ہے جو بچوں کے لئے کہانےوں پر مشتمل ہے
الہی بخش بانبھن پُروقار شخصےت کے مالک ہےں اور دوست و احباب کا اےک بڑا حلقہ رکھتے ہےںرےڈےو پاکستان کے خدمتوں کے اعتراف مےں
کئی اےوارڈز سے بھی نوازا گےا۸۸۹۱ مےں سندھ ےونےورسٹی مےں منعقد © بےن الاقوامی سندھی کانفرنس مےں بہترےن کورےج اےوارڈ حاصل کےا اسکے علاوہ عبداللہ اےوارڈ،سندھ فنکار اےوارڈ اور مہران وےلفئر کیطرف سے بھی بہترےن پروڈےوسر کا اےوارڈ حاصل کر چکے ہےں ،۳۹۹۱ مےں    رےڈےو پاکستان حےدرآباد کی سالگرہ کے موقع پر بہترےن پروڈےوسر کا اےوارڈ بھی آپکو ملا
الہی بخش بانبھن نے دو سال ۵۰۰۲ تا ۷۰۰۲ تک رےڈےو پاکستان ژوب بلوچستان مےں اور اےک سال ۸۰۰۲ تا ۹۰۰۲ رےڈےو پاکستان مٹھی   تھرپارکر مےں بحثےت اسٹےشن ڈائرےکٹر اپنی خدمات انجام دےں اور تھر اور بلوچستان کے کلچر،ثقافت،تہذےب و تمدن کو رےڈےو پروگرامز کے ذرےعے اُجاگر کرنے مےں اہم کردار ادا کےا اور ۰۱۰۲ تا ۱۱۰۲ تک رےڈےو پاکستان کراچی مےں بطور اسٹےشن دائرےکٹر تعےنات رہے
اس وقت آپ رےڈےو پاکستان حےدرآباد اےف اےم۱۰۱ پر بحثےت دپٹی کنٹرولر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہےں اور جدےد تقاضوں کے مطابق پروگرامز مےں جدت لا رہے ہےں۔بلاشبہ رےڈےو پاکستان مےں الہی بخش کی خدمات قابل ستائش ہےں   

سید زبیر علی جعفری


محمد ندیم یوسف 
 ینئرصحافی
سید زبیر علی جعفری
اک عہد رخصت ہوگیا

22 ستمبر کی ایک سوگوار سی شام تھی جب یہ دل خراش خبر سماعت سے ٹکرائی کہ زبیر جعفری انتقال کر گئے۔ذہن و دل نے بمشکل اس حقیقت کو تسلیم کیا۔گویا زبیر جعفری بھی اب گذشتگان میں شامل ہوگئے۔
یہ ایک دل سوز حقیقت ہے کہ گلستان قلم و قرطاس ایک سرعت کے ساتھ خوش رنگ گلوں سے محروم ہورہاہے۔زبیر جعفری باغ صحافت کا ایک ایسا پھول تھے جنہوں نے اپنی مہک سے ان ہاتھوں کو بھی معطر کیا جو انہیں مسلنے کے لیے بڑھے۔وادی سندھ کا شہر حیدرآبادہمیشہ سے ہی قلمکاروںکے لیے بہت زرخیزخطہ رہا ہے۔یہاں سے نمو پانے والے ستاروں نے ایک عرصہ تک صحافت کے افق پر اپنی درخشندگی کے باب رقم کئے۔زبیر جعفری کی موت سے ایک و سیع حلقہ احباب دل گرفتہ ہے ،وہ نہایت ملنساراور کثیر الجہت شحضیت کے مالک تھے اور ان کی کمی تا دیر محسوس کی جائے گی۔
سید زبیر علی جعفری 1952 میں حیدرآباد سندھ کے ایک دینی و علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔حصول تعلیم کے دوران ہی صحافت میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ ابتدائی طور پرکچھ نگار شات مختلف اخبارات و رسائل کو ارسال کیں اشاعت نے ان کے ارادوں کو مزید پختہ کر دیا۔اوائل عمری میںہی تحریر کو وہ پختگی حاصل ہوئی جو بہت سوں کوعمرطویل گذارنے کے بعد بھی نہیں ملتی۔ صحافت کا باقاعدہ آغاز 1970 میں اس وقت کے انتہائی معروف فلمی رسالے " نگار" سے کیا۔70 کی دہائی میں فلمسٹار محمد علی اور زیبا کی جوڑی پردئہ سیمیں کی جان تصور کی جاتی تھی اور کسی فلم میں ہونا اس فلم کی کامیابی کی ضمانت تصور کیا جاتا تھا ۔شہرت کی بلندی اور مصروفیت کار دونوں ہی اس فلمی جوڑی اور لاکھوں مداحوں کے درمیان حد فاصل تھے ۔ زبیر جعفری نے اس مشکل چیلنج کو قبول کرتے ہوئے" نگار" کے لیے پہلا انٹرویو ہی ان دونوں کا کر ڈالا۔انٹرویو کی مقبولیت نے زبیر جعفری کو یکلخت مقامی سے قومی سطح پر پہنچادیا۔اس دوران مضامین اور انٹرویو ہفت روزہ " نور جہاں " اور دیگر معروف اخبارات و رسائل میں بھی شائع ہوتے رہے۔مزاج تحریر پر اختیار تھا لہذا ہر قسم کی تحریر اس شعبہ سے دیرینہ وابستگی کو ظاہر کر تی تھی۔ انہوں نے اس دوران بچوں کے ادب پر بھی کام کیا۔اور 1975 میں بچوں کے مقبول رسالے " ہو نہار" میں حیدرآباد سے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔انہوں نے اپنی کہانیوں اور مضامین میں تفریح کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت اور حب الوطنی پر بھی خصوصی توجہ دی۔
  فلمی صحافت سے وابستگی کے باعث اس وقت کے تقریبا تمام ہی ادا کاروں اور فلمسازوں سے گہرے مراسم ر ہے۔انہی راہ و رسم کے نتیجہ میں نوجوان زبیر جعفری کے دل میں بھی اداکاری کا شوق پیدا ہوا۔شکل و صورت اور قد کاٹھ کے حوالہ سے بھی اللہ نے بڑی فیاضی سے کام لیا تھا ۔لہذا ایک فلم " ندی کنارا" کے لیے بطور ہیرو منتخب ہو گئے۔فلم میں اس وقت کے تمام بڑے نام شامل تھے۔لیکن والد محترم کی نا پسندیدگی کو محسوس کرتے ہوئے نا صرف اس فلم سے کنارہ کشی اختیار کی بلکہ فلمی صحافت کو بھی خیر باد کہہ دیا ۔
سابق صدر جنرل ضیاءالحق کی حکومت میں ایک مذہبی رسالہ کی پیشکش ہوئی جس کو قبول کرتے ہوئے انہوں نے 14 اگست 1984 کوماہنامہ " عقیدت " حیدرآباد کا اجراءکیا جو 28 سال گذرنے کے باوجود تا دم مرگ تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔(اور بعداز مرگ ان کے زیر سایہ تر بیت پانے والے فرزند منور جعفری اسے جاری رکھے ہوئے ہیں )۔یہ رسالہ سیرت طیبہ اور بزرگان دین کے افکار و کردار کے علاوہ دینی اقدار و اخلاقیات کی ترویج اور معاشر ے میں پھیلی بے راہ روی کے خلاف جہاد میں ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہاہے۔ملت اسلامیہ کی راہنمائی کے لیے اکابر ین اسلامیہ کے ایام پیدائش و وصال ،اسلامی تہواروں اور قومی ایام کے مواقع پر خصوصی ایڈیشن کا اجراءاس رسالہ کی امتیازی شناخت ہے۔
ما ہنامہ عقیدت کی کامیابی کے بعد یکم جنوری 1989کو ہفت روزہ "کاروان وطن" کا اجراءکیا جو کامیابی کے ساتھ تا حال اپنی اشاعت جاری رکھے ہوئے ہے۔ بعدازں 22 نومبر 1990 کو ایک اور ہفت روزہ " ارض پاک " کا اجراءکیا اور یہ بھی بغیر کسی تعطل کے تا حال شائع ہو رہا ہے۔زبیر جعفری نے ایک ماہنامہ اور 2 ہفت روزہ رسائل کے اجراءکے دوران اپنے بڑے فرزندمنور جعفری کو مسلسل ساتھ رکھ کر ان کی صحافتی تربیت کی اور صحافت کی بار یکیوں سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ رکھا ۔وہ اب ایک روزنامہ اخبار " ہلال وطن " کے اجراءکی تیاریوں میں مصروف تھے،لیکن زندگی نے اس کا موقع نہیں دیا۔
زبیر جعفری امن کے پیامبر اور اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے۔وہ فرقہ واریت اور لسانی تعصبات کے خلاف نا صرف قلمی بلکہ عملی جدوجہد بھی کرتے رہے۔وہ حیدرآباد میں جمعیت علمائے پاکستان کے پہلے رکن بنے اور نظام مصطفٰی ﷺکے لیے دن رات کو ششیں کیں ۔1972 ءمیں " انجمن غلامان مصطفٰیﷺ" کی بنیاد ڈالی اور اس کے پہلے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے ۔ اس انجمن کے تحت محرم الحرام کے دوران ذکر شہدائے کر بلا کی سالانہ مجالس ،خلفائے راشدین کے ایام پر جلسے اور عید میلادالنبی ﷺکے حوالہ سے جلسے اور جلوسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ اوراق مقدسہ کو شرعی طریقے سے سمندر یا دریا میں ٹھنڈا کرنے کا اہتمام بھی اسی انجمن کے تحت کیا جاتا ہے۔
زبیر جعفری 1972 میں ضلعی امن کمیٹی کے بنیادی رکن بھی منتخب ہوئے اور شہر میں محرم الحرام ،ربیع الاول اور دیگر اہم مواقع پر امن و امان کے قیام کے لیے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی معاونت کرتے رہے۔وہ بنیادی طور پر ایک سماجی خدمت گار تھے۔ ان کی یہ سوچ تھی کہ 
میں مسافر ہوں،مرا کام سفر کرنا ہے ضرورت مندوں کے کام آنا فطرت تھی،وہ ذاتی حیثیت میں بھی فلاح انسانی کے لیے سرگرداں رہتے جبکہ ان امور کو زیادہ منظم انداز میں انجام دینے کے لیے مختلف فلاحی تنظیموں کو بھی فعال کیا۔وہ 1985 میں برادری رنگریزان (مارواڑی)پاکستان کی پنچائیت کے سر براہ منتخب ہوئے اور برادری کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیشہ سر گرداں رہے۔انہوں نے 1995 میں برادری کے غریب اور نادار لوگوں کی مدد کے لیے ایک فلاحی ادارہ" فلاح و بہبود " کی بنیاد رکھی ۔اس ادارہ کے تحت سینکڑوں غریب لڑکیوں کی شادی ،جہیز کی فراہمی ،علاج ،معالجہ اور مالی امداد کی جاچکی ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔وہ ایک بلڈبینک کے قیام کی تیاریوں میں بھی سر گرداں تھے لیکن زندگی نے انہیں مہلت نہ دی۔
سید زبیر علی جعفری22 ستمبر2012 کو شام 7 بجے خالق حقیقی سے جا ملے۔انہوں نے پسماندگان میں ایک بیوہ ،3 بیٹوں ،2 بیٹیوں اور بے شمار دوست احباب کو سوگوار چھوڑا۔
بچھڑا وہ اس طرح کہ رت ہی بدل گئی
 اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

سندھ میں تسلسل سے ظاہر ہوتے پولیو کیسز

سندھ میں تسلسل سے ظاہر ہوتے پولیو کیسز،،،،، ذمہ دار کون؟

یہ خبر انتہائی تشویش ناک ہے کہ سال رواں کے پہلے 9 ماہ کے دوران ہی سندھ کے مختلف علاقوں میں 7 پولیو کیسز ظاہر ہوچکے ہیں اعداد و شمار بتاتے ہیںکہ گذشتہ سال ملک بھر میں ظاہرہونے والے پولیو کیسز کی تعدادکل 197 تھی۔اگر ہم اس تعداد کا موازنہ اپنے پڑوسی ملک بھارت سے کریں تو ہمیں بجا طور پر شرمندگی کا احساس ہوگا۔پاکستان سے کئی گنا زائد آبادی رکھنے والے اس ملک میں یہ تعداد محض ایک کیس تک محدود رہی۔بادی النظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فرائض سے غفلت کا جوکلچر ہمارے بیشتر اداروں میں جڑ پکڑ چکا ہے اس سے اب صحت شعبہ بھی محفوظ نہیں رہ سکاہے،اور اگر واقع ©ی ایسا ہی ہے تو ہمیں کسی بہت بڑے ارضی سماوی امتحان کے لیے خود کو تیار کرلینا چائیے۔
پولیو جیسے موذی مرض کے خاتمہ کے لیے عالمی ادارہ صحت کی انتہائی سنجیدہ کوششوں اور خطیر مالی معاو نت کے باوجود مقصد میں ناکامی بلاشبہ ایک لمحہ فکر یہ ہے ۔یہ غور طلب بات ہے کہ دیگر غریب اور پسماندہ ممالک کے بر خلاف پاکستان میں پولیو ویکسی نیشن کے سینکڑوں راﺅ نڈز ہونے کے بعد بھی تسلسل کے ساتھ پولیو کیسزکا ظاہر ہونا ہمیں یہ د عوت فکر د یتا ہے کہایک نیک مقصد کے لیے چلائے جانے والی مہم کی ناکامی کے اسباب معلوم کئے جائیں اور جانبداری کی بجائے اصل حقائق کو سامنے لائیں ۔ حقائق سے پہلو تہی یا سچائیوں سے چشم پوشی بھی ہماری غیر جانبدارانہ تحقیق کو متاثر کر سکتی ہے۔عالمی ادارہ صحت کی تحقیق کے مطابق انسداد پولیو مہم کے گذشتہ راﺅ نڈ کے دوران صرف سندھ میں 33780 والدین نے اپنے بچوں کو پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پلوانے سے انکار کیا اور اپنے اس موقف پر سختی سے قائم رہے ،یہی نہیں بلکہ گڈاپ کے علاقے میںتو عالمی ادارہ صحت اور یونسیف کے اسٹاف پر حملے کرکے ان کے دفاتر تک بند کرا دیئے گئے۔والدین کے انکار اور گڈاپ حملہ کے نتیجہ میں 4 لاکھ 43 ہزار 231 بچے پولیو ویکسن سے محروم رہے۔انکاری والدین دراصل وہ لوگ ہیں جن کے ذہنوں میںیہ خیال جگہ بنا چکا ہے کہ پولیو ویکسین کے نام پر جو دو ابچوں کو پلائی جارہی ہے وہ دراصل بندش نسل کی دوا ہے جو اسلام کے پھیلاﺅ اور مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد سے خوف زدہ مغرب کی سازش ہے۔مذکورہ طبقہ فکر کے خیال میں یہودو نصارہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور پولیو ویکسین انکی ایک انتہائی گہری سازش ہے ۔پولیو کیسز ظاہر ہونے کی دیگر بہت سی وجوہات میں اہم وجہ پولیو عملہ کی فرائض سے غفلت کی وہ روایتی بیماری بھی ہے جس میں ہر دوسرا پاکستانی مبتلا ہے۔
ملک میں پولیو مہم کے دوران ورکرز کا سب سے بڑا حصہ لیڈی ہیلتھ ورکرز (L.H.W) پر مشتمل ہوتا ہے ۔یہ خواتین ورکرز گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو ویکسین پلاتی ہیں۔لیکن گذشتہ کئی سالوں سے مذکورہ خواتین ورکزکے احتجاجی مظاہرے میڈیا کی زینت بن رہے ہیں کا نٹریکٹ پرکام کرنے والی ان ہزاروں ورکز کا موقف ہے کہ یہ نا صرف کئی کئی ماہ کی تنخواہوں اور دیگر مروجہ مراعات سے محروم ہیں بلکہ انہیں نامساعد حالات کار کا بھی سامنا ہے ۔اگر انسداد پولیومہم میں مرکزی کردار اداکرنے والی ان خواتین ورکز کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جائے گا تو مثبت نتائج کا خواب شایدکبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ 
جبکہ دوسری جانب حکومت سندھ کے دعوے یہ ہیں کہ وہ اس موذی مرض کے خاتمہ کے لیے اپنی بھر پور کوشش کر رہے ہیں ۔اس ضمن میں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد نے چند روز قبل ضلعی سطح پر پولیو مہم کا افتتاح بھی کیا۔اس مہم کے دوران صوبہ سندھ کے 15 ضلعوں میں 5 سال تک کے42 لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے۔اس مہم کے لیے 3581 ٹیمیں تشکیل دی گئی جبکہ ان ٹیموں کی نگرانی کے لیے 660 ایریا انچارج مقرر کئے گئے تھے۔محکمہ صحت نے مہم کو مﺅ ثر بنانے اور دور افتادہ علاقوں میں رہائش پذیر بچوں تک ر سائی کو ممکن بنانے کے لیے پولیو ورکرز کو 1261 موٹر سائیکلیں اور 203 کاریں بھی فراہم کیں ۔سندھ سے پولیو کے خاتمہ کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے 200 ملین روپے کی گرانٹ کا اعلان کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کے دیئے گئے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہیں ۔
عالمی ادارہ صحت ،وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کی کو شش اپنی جگہ لیکن اس موذی مرض سے آئندہ آنے والی نسلوں اور پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ من حیثیت القوم یہ ہما ری اخلاقی و قومی ذمہ داری ہے کہ ہر شحض اپنی حیثیت میں خلوص دل کے ساتھ اپنا حق ادا کرے۔اگر کوئی والدین اپنی کم علمی یا غلط راہنمائی کی وجہ سے انسداد پولیو مہم کی نا کامی کا سبب بن رہے ہیں تو ان کے عزیز و اقارب اور علاقے میں موجود با شعور افراد اکا فرض بنتا ہے کہ وہ انہیں سمجھائیں کہ آج انکی معمولی سی ہٹ دھرمی کے نتیجہ میں ان کا بچہ زندگی بھر کے لیے معذوری سے دوچار ہوسکتا ہے ۔اسلامی معاشرہ ہونے کی وجہ سے ہمارے یہاں علمائے دین کی باتوں کو نا صرف زیادہ توجہ کے ساتھ سنا جاتا ہے بلکہ ان پر بہت حد تک عمل بھی کیا جاتاہے ۔لہذا علمائے کرام کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے ذہنوں سے ابہام کا خاتمہ کریں ۔اگر کسی بھی علاقہ میں پولیو ٹیم کے ساتھ چند گھنٹوںکے لیے علاقہ کے معززین،بزرگ اور امام مسجدپولیو ٹیموں کی معاونت کرلیں اور تعاون نہ کرنے والے والدین کے پاس چلے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ والدین انکی بات نہ مانیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرہ کا ہر شحض اس عظیم کام میں اپنا کردار ادا کرے اور اگر ایسا ہوگیا تو وہ دن دور نہیں جب اس صوبے اور اس ملک کو پولیو جیسے موذی مرض سے چھٹکارہ مل جائے۔ورنہ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی ایسے بہت سے راﺅ نڈز بے معنی و مصرف ثابت ہونگے۔اور خاکم بہ دہن ملک میں بیٹ بال کی ٹک ٹک سے زیادہ بیساکھیوں کی ٹھک ٹھک کی آواز سنائی دے گی ۔یہ آواز ہمیں بہت قریب سے بھی سنائی دے سکتی ہے۔

سیوریج ، حیدرآباد کا سب سے بڑا مسئلہ

سیوریج ، حیدرآباد کا سب سے بڑا مسئلہ ؟

وطن عزیز پاکستان کا ایک اہم اور وادی سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد جو اپنی مسحورکن ہواﺅں اور سرمئی شاموں کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک امتیازی مقام رکھتا ہے ۔ماضی کے بہت سے حکمرانوںکی عدم توجہی اور اداروں کی مجرمانہ چشم پوشی کی وجہ سے یہ عظیم تاریخی شہر دن بہ دن اپنی عظمت رفتہ سے محروم ہو رہا ہے۔آنے والی ہر حکومت نے دعوے تو اسے پیرس بنانے کے کئے لیکن افسوس کہ ان میں سے کوئی بھی حکمران اسے پیرس تو کیا حیدرآباد تک نہ بنا سکا،وہ حیدرآباد جو اپنے تاریخی و ثقافتی حوالوں کے علاوہ اپنے سرسبز راستوں، پر بہار باغوں اور سحر انگیز ہواﺅں سے عبارت تھا۔حکمرانوں کے دعوے محض انتخابی دعوے ثابت ہوتے ر ہے،اور حیدرآباد بتدریج گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوتا رہا۔
شہر کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور تلاش معاش کے لیے شہر کا رخ کرنے والے نو وار دوں کی وجہ سے حیدرآباد ایک گنجان شہر تو بن گیا لیکن حکمرانوں اور ذمہ دار اداروں نے اسے آبادی کے مطابق شہری سہولیات سے ہم آہنگ نہیں کیا ۔موجودہ حیدرآباد ایک دیہی اور تین شہری تعلقوںلطیف آباد ،سٹی اور قاسم آباد پر مشتمل ہے، تعلقہ سٹی کے بیشتر علاقے قدیم حیدرآباد پر مشتمل ہیں ۔ جن میں ہیرا آباد ،پھلیلی ،پریٹ آباد ،لیاقت کالونی ،کچا قلعہ اور پکا قلعہ و غیرہ خاصے گنجان اور قدرے بلندی پر واقع ہیںجبکہ تعلقہ لطیف آباد اور قاسم آباد کسی حد تک کشادہ لیکن لیکن نسبتََا نشیبی علاقے کہے جا سکتے ہیں ۔
شہری سہولیات فراہم کر نے والے دو اہم اداروں یعنی بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد (HMC )اور ادارہ ترقیات حیدرآباد(HDA)کا کردار ہمیشہ سے قابل تنقید رہا ہے ۔چند دیگر ذمہ داریوں کے علاوہ صفائی ستھرائی اور فراہمی و نکاسی آب سمیت نئی تعمیرات کی منصوبہ بندی انہی اداروں کے فرائض میں شامل ہے ۔حیدرآباد کے عوام ہمیشہ سے ہی ان اداروں کی نا قص منصوبہ بندی غیرتسلی بخش کارکردگی اور شہری مسائل سے چشم پوشی کے باعث پریشان رہے ہیں۔گلی کوچوں حتی کہ اہم گذر گاہوں پر کچرے کے ڈھیر، نا جائز تجاوزات،منصوبہ بندی سے عاری تعمیرات کبھی قلت آب کی شکایت تو کبھی آلودہ پانی کا شکوہ۔لیکن ان سب مسائل سے زیادہ اہم اور بنیادی مسئلہ جو شہر حیدرآباد کو در پیش رہاہے ،وہ ہے سیوریج یعنی نکاسی آب کا مسئلہ۔ابلتے گٹروں اور بہتی نالیوں نے حیدرآباد کی رہی سہی خوبصورتی کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔شہر کے بعض علاقے تو سال کے 6 مہینے جو ہڑ کا منظر پیش کرتے ہیں ۔خصوصا لطیف آباد یونٹ نمبر 2 کا علاقہ سیوریج کے مسائل کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ یونٹ نمبر 9,10,11,12 کے علاقے بھی اکثر اوقات اسی مسئلہ سے دوچار رہتے ہیں ۔
دوسری جانب تعلقہ قاسم آباد سیوریج کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ تسلیم کیا جاتا ہے۔روزمرہ سیوریج کے مسائل تو مسلمہ ہیں ہی لیکن جب موسم برسات شروع ہوتا ہے تو گو یا شہریان حیدرآباد ایک کڑے امتحان کے لیے خود کو تیار کر لیتے ہیں ۔موسم برسات شروع ہونے سے قبل متعلقہ اداروں کی جانب سے بھر پور تیاریوں کے بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں، لیکن یہ تمام دعوے برساتی پانی پر لکھی تحریر ثابت ہوتے ہیں۔برساتی پانی سڑکوں ،گلیوں اور میدانوں کے ساتھ ساتھ گھروں میں داخل ہوکر نا صرف معمولات زندگی معطل کرکے رکھ دیتا ہے بلکہ قیمتی گھریلو سامان کی بر بادی کا باعث بھی بنتا ہے۔
اسکی تازہ مثالیں 2005 اور 2007 اور اسکے بعد کی برساتیں ہیں ۔ناقص سیوریج سسٹم کی وجہ سے کئے ہفتوں اور نشیبی علاقوں میں تو کئی ماہ تک برساتی پانی کا انخلاءممکن نہیں ہو سکا ۔کچھ متاثرہ لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ برساتی پانی محض دھوپ سے ہی خشک ہوکرختم ہوا متعلقہ اداروں کی کارکردگی صفررہی۔سیوریج کی شکایات کے حوالہ سے واسا حکام کا موقف ہے کہ واسا اپنے تمام تر و سائل کو بروئے کار لاکر شہرکوسیوریج کے مسائل سے نجات دلانے کے لیے ہمہ وقت سرگرادں ہے لیکن بعض علاقوں میں سیوریج کے معمولی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں،جنہیں بہت جلد دور کردیا جاتا ہے ۔ اور ان مسائل کے پیدا ہونے کی وجہ بھی لوگوں کا غیر ذمہ دارانہ طرز عمل اور تیزی سے بڑھتے ہوئے کثیر المنزلہ پلازاﺅںکی تعمیرہے ۔واسا اپنے موقف کی وضاحت اس طرح کرتا ہے کہ بعض غیر ذمہ دار لوگ کوڑا کرکٹ کچرا دانوں میں ڈالنے کی بجائے سیوریج لائنوں میں بہا دیتے ہیں جو زیادہ مقدار میں ہونے کی وجہ سے لائینوں میں رکاوٹ کا سبب بنتاہے۔خاص طور پر پولی تھن کے شاپنگ بیگ سیوریج لائینوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں ۔
سیوریج کے مسائل کی ایک اور اہم وجہ شہر کا عمودی پھیلاﺅ ہے۔یعنی بڑھتی ہوئی آبادی کی رہائشی ضروریات کے لیے نئی آبادیاں بنانے کی بجائے موجودہ گنجان آبادیوں میں ہی 150 سے 300 گز کے مکانات پر کثیر المنزلہ پلازہ بنادئیے جاتے ہیں۔یعنی جتنا رقبہ اوسطا 6 سے7 افراد کے لئے
 استعمال میں تھا وہاں اب50 سے 100 افراد رہائش پذیر ہیں ۔لیکن پلازہ کی سیوریج لائن اسی قطر کی ہے جو6,7 ،افراد کے لیے ڈالی گئی تھی ۔نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ سیوریج کا پانی اوور فلو ہوکر سڑکوں پر جمع ہوگا۔
سیوریج کے مسائل کے حوالہ سے قاسم آباد سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ نظر آتا ہے متمول آبادی ہونے کے باوجود یہاں بیشتر علاقے سیوریج کے گندے پانی میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہاں بڑے پیمانے پرتعمیر ہونے والے رہائشی پلازہ ہیں،جن کی تعمیر میں دولت پر ست بلڈر مافیا نے سیوریج کے مناسب انتظام کو کوئی اہمیت نہیں دی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سیوریج سسٹم کے خرابیوں کو دور کرنے کے لیے تکنیکی ماہرین کی مد سے جامع سروے کا اہتمام کیا جائے تاکہ سیوریج کی حقیقی خرابیوں کی نشاندہی ہوسکے۔بعدازاں مناسب حکمت عملی کے ذریعہ ان خرابیوںکا سد باب کیا جائے۔اس کام کے لیے واساکو یقینی طور پر ایک خطیر رقم درکار ہوگی جوکہ موجود ملکی حالات کے باعث سرکاری طور پر ملنا کچھ مشکل ہی نظر آتا ہے۔یہاں شہریوں کو اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے فراہمی و نکاسی آب کے بلوں کی ادائیگی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اگر حیدرآباد کے شہری واسا بلوں کی بروقت ادائیگی کو اپنا شعاد بنالیں تو حیدرآباد کے سیوریج سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کرنا نا ممکن نہیں۔ اگر ہمیں حیدرآباد کی عظمت رفتہ کی بحالی درکار ہے تو ہمیں بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔