عزم و ہمت کی زندہ مثال
یُمنٰی ریاض۔ بی ایس پارٹ 3۔ رول نمبر: 95
بڑھاپے کی عمر انسان کی زندگی کا وہ دور ہوتا ہے جب انسان فکر معاش سے آزاد اور کسی قدر مطمئن زندگی بسرکرتا ہے۔ تاہم کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اس عمر میں بھی گھر والوں کا پیٹ بھرنے کی خاطر محنت مشقت پرپر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ ایسے ہی با ہمت لوگوں میں محمد صدیق کا شمار ہوتا ہے جو گزشتہ 30 سالوں سے گلی گلی دال سیو بیچنے کا محنت طلب کام کر رہے ہیں۔ محمد صدیق1937 میں ہندوستان کے ایک چھوتے سے گاﺅں ُکتیانہ میں پیدا ہوئے۔ اس لحاظ سے آپ ماشاءاللہ ست ©ر کی دہائی سے بھی اوپر پہنچ چکے ہیں۔ یہ عمر عموماً آرام کرنے کی ہوتی ہے لیکن محمد صدیق کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو عمر کو محنت کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیتے اور اپنی و اپنے گھر والوں کی ضروریات کے لئے اس عمر میں بھی سخت محنت سے نہیں کتراتے۔ آپ پاکستان بننے کے بعد محض10 سال کی عمر میں کھوکھر محلے میں آ کر آباد ہوئے اور گھر والوں کی ضروریات کی خاطر تعلیم ادھوری چھوڑ کر پرچون کی دکان پر کام کرنا شروع کیا۔ چھ عرصے بعد ہوٹل میں ملازمت شروع کر دی لیکن بد قسمتی سے یہاں بھی زیادہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اسی اثناءمیں آپ کی شادی ہو گئی اور آپ نے اپنے سسر کے ہمراہ شادی کے برتن بیچنے کا کام شروع کیا لیکن اس میں بھی کسی خاص فائدے سے محروم ہی رہی۔ یکے بعد دیگرے آپ نے نے کئی کام اختیار کئے اور زیادہ فائدے نہ ہونے کے باعث سب پیشے چھوڑتے رہے۔ آپ نے بچوں کے لئے جھولا بھی چلایا جو پاکستان میںپہلاجھولاتھا۔کچھ سال آئسکریم بھی بیچی۔ بعدازاں برتن کا ٹھیلا بھی چلاتے رہے۔ بالاآخر سب کاموں سے تھک ہار کردال سیو لے کر رزق حلال کی تلاش میں گھر سے نکل پڑے اور آج تک اس راہ کے مسافر ہیں۔آپ روز صبح ساڑھے آٹھ بجے ہی مال لینے کی خاطر گھر سے نکل جاتے ہیں اور گیارہ بجے تک انتظار کرتے ہیں۔ گیارہ بجے کے بعد آپ ہیرآباد اورکالی موری تک گلی گلی جا کر اپنی تیز اور منفردآواز میںگاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنا شروع کرتے ہیں اور سردی، گرمی، ضعیف العمری کی پرواہ کئے بغیر تین بجے تک یہ کام کرتے ہیں ۔ اس کے بعد آپ ٹھیکیدار کو روز کی کمائی کا حساب دیتے ہیں۔ تین بجے بھی آپ اپنی اُجرت لے کر سیدھے گھر نہیں جاتے بلکہ وہیں سے دال کی مزید تھیلیاں لے کراس کے گھر کے سامنے بھی بیچتے ہیں جس سے انہیں کچھ اضافی رقم بطور ایڈوانس مل جاتی ہے۔ اور پھر مغرب کے بعد آپ تھکے ہارے اپنے گھر کا قصد کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ سخت معمول ایک عام اور مضبوط انسان کو تھکا دینے کے لئے کافی ہے لیکن بلند حوصلہ محمد صدیق یقینا ایک عام انسان سے بہت بڑھ کر ہیںجبھی تو گزشتہ 40 سالوں ہمت اور طاقت کے ساتھ مشقت طلب اس پیشے سے وابستہ ہیں اورعلاقے میں ایک جانی پہچانی شخصیت تصور کئے جاتے ہیں ان کی ہمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ لمس ہسپتال تک پیدل اپنا ٹھیلا لے کر بھی جا چکے ہیں ۔ کچھ سال پہلے اپنے ایک بھتیجے کے توسط سے 1حج کی سعادت بھی حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی بلند اور منفرد آواز دور ہی سے انہیں ممتاز کرتی ہے۔ اپنے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لئے آپ اردو کے علاوہ سندھی، گجراتی اور پشتو میں بھی مزے سے آوازیں لگا کر سب کو محظوظ کرتے ہیں۔مشکلات سے بھری زندگی میں ایک اور مشکل اس وقت آئی جب آپ ایک آنکھ کے آپریشن کے سلسلے میں ہسپتال داخل ہوئے۔ آپریشن تو ہو گیا لیکن سانحہ 27 دسمبر کے بعد ہسپتال والوں نے سب مریضوں سے ہسپتال کو خالی کروا لیا۔ یوں آپ بھی آنکھ پربندھی پٹی کے ہمراہ گھر آئے لیکن ناکافی خوراک اور ادویات کی عدم دستیابی کے باعث آنکھ کی تکلیف سے گزرنا پڑا۔ آخر گھر والوں کی بھوک سے مجبور ہو کر اور ڈاکٹروں کی ہدایات کے برعکس آپریشن کے تیسرے چوتھے روز ہی کڑی دھوپ میں کمانے نکل پڑے۔ ڈاکٹرز کی ہدایات نظرانداز کرنے کا یہ خمیازہ بھگتنا پڑا کہ آپریشن شدہ آنکھ کی بینائی کمزور ہوتے ہوتے بالآخر بالکل ہی ختم ہو گئی۔ اس سب کے باوجود آپ اب تک اپنے ہاتھ سے رزق حلال کمانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کام میں ملنی والی عزت اور مشہور ہونے کے باعث محمد صدیق اب یہ کام چھوڑنے کو تیار نہیں۔
تما م تر مصائب و آلام اور مشکلات سے گزرنے کے باوجود محمد صدیق ایک با ہمت، بلند حوصلہ اور زندہ دل انسان ہیں جو سب کو محنت کر کے رزق حلال کمانے کا درس دیتے ہیں۔ آپ کی زندگی ہم سب کے لئے ایک سبق ہے کہ چاہے حالات جیسے بھی کیوں نہ ہو جائیں اگراللہ کی ذات پر کامل یقین و بھروسہ ہو اور ہمت و حوصلے سے کام لیا جائے تو پھرنا ممکن اور مشکل حالات سے نبرد آزما ہونا کچھ خاص مشکل نہیں۔ بالخصوص محمد صدیق ان لوگوں کے لئے ایک جیتی جاگتی مثال ہیں جو اپنی خود ساختہ مجبوریوں کو بنیاد بنا کر دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے میں زرا شرم نہیں کرتے اور دوسروں سے اپنی ہتک خود کرواتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment