خواہشوں کے تلاطم پر نہ جا۔۔۔
رباب رفیق ملک
ایک فلسفی کا قول ھے ٓاپ وہ نہیں جو ٓاپ سمجھتے ہیں بلکہ ٓاپ وہ ہیں جو ٓاپ سوچتے ہیں۔ دراصل انسان کی شخصیت اس کی سوچ اور خواہشات کی عکاسی کرتی ہے۔ انسان وہ ھی کچھ سوچتا ھے جو وہ چاہتا ھے وہ ہی کچھ تصور کرتا ہے جس کی وہ خواہش کرتا ہے۔ غرض خواب بھی اپنی خواہشات اور آرزو کے مطابق ہی دیکھتا ہے۔
خواہشات انسانی زندگی میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔خواب ، آرزو، خواہشات زندگی گزارنے کے عوامل ہیں۔ مگر بعض اوقات یہ عوامل حد سے تجاوز کر جاتے ہیں، جسکے نتیجے میں انسان خواہش پر خواہش کرتا چلا جاتا ہے اور نہ صرف خواہش کرتا ہے بلکہ انکی تکمیل کے لیے ہر وقت کوشاں بھی رہتا ہے۔
شوپن ہار کہتا ہے؛ انسان صرف ایک پیدائشی خوش فہمی کا شکار ہے کہ ہمیں اس دنیا میں صرف خوش رہنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اور یہ ہی خوش فہمی خواہشات کا جنم دیتی ہے۔لہذا انسان خوش سے خوش تر ہونے کی جستجو میں اپنی موجودہ خوشیوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ ایک مشہور کہاوت ہے جب خو شیاں آ پ کے دروازے پر دستک دے رہی ہوتی ہیں تو اس وقت آ پ بند دروازے کے پیچھے کھڑے اس کے کھلنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ عموما ´ ایسا ہوتا بھی ہے انسان اپنی خواہشوں کے پیچھے ایسا اندھا ہو جا تا ہے کہ اسے موجودہ خوشیوں اور ٓا ¿سائشوں کا دھیان ہی نہیں رہتا اور اس بے دھیانی میں وہ انھیں بھی گنوا دیتا ہے۔ اس طرح نہ تو موجودہ خوشیاں دسترس میں رہتی ہیں اور نہ ہی خواہش۔اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انسان اپنی خواہشوں کو خود پر اتنا سوار کر لیتا ہے کہ وہ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنا شروع کر دیتا ہے ایسے خواب جو انکی خواہشات کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں۔سیگمینٹ فرائیڈ کہتا ہے کہ ©؛ خواب ذہن کی پیداوار ہیں، خواب تسکینِ خواہشات یا تکمیلِ آرزو کے لیے بھیس بدلی ہوئی کوششیں ہیں ۔ لِہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ خواب ، آرزو، خواہشات ایک ہی منزل کے مسافر ہیں۔ کچھ لوگ اپنی خواہشات کی ترجمانی اپنے قلم ، الفاظ ِ، اور تحریر سے بھی کرتے ہیں ۔۔
اکثر افراد خواہشوں کے معاملے میں حد سے زیادہ سنجیدہ ہوتے ہیں انھیں ہر قیمت پر اپنی خواہشات کو پانا ہوتا ہے، جبکہ کچھ لوگ اس معاملے میں قسمت پر ےقین رکھے تکمیلِ خواہش کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔ انھی میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنکی خواہشیں تو محدود ہوتی ہیں مگر باوجود اس کے وہ انھیں حاصل نہیں کر پاتے، اسکی وجہ ےا تو محدود وسائل ہوتے ہیں ےا پھر قسمت کی ستم ظریفی۔۔ ابنِ اِ نشاءکہتے ہیں!
ٰٓٓایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
ٰٓایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا
جی مچلتا تھا ایک ایک شے پر مگر
جیب خالی تھی ، کچھ مول نہ سکا
لوٹ آ یا لئے حسرتیں سینکڑوں
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں۔۔۔
خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے
آ ج میلا لگا ہے اسی شان سے
آ ج چاہوں تو اک اک دکاں مول لوں
آ ج چاہوں تو اک سارا جہاں مول لوں
نارسائی کا اب جی میں ڈھڑکا کہاں
ُپر وہ چھوٹا سا، الہڑ سا لڑکا کہاں۔۔۔۔۔
اس سے ےہ بات واضح ہوتی ہے کہ خواہشات محدود مدت کے لیے ہوتی ہیں ، مگر نارسائی کا دکھ لا محدود ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے کہا گیا ہے
خواہشوں کے تلاطم پر نہ جا۔۔۔
No comments:
Post a Comment