مریم خان : فیچر
motivational ورک شاپز کا نیا ٹرینڈ۔۔۔
ہر انسان کو کسی بھی کام کو کرنے کے لئے motivation کی ضرورت ہوتی ہے چاہے بچہ ہو یا کوئی بڑا جب تک اسے اس کے کام کے لئے motivate نہ کیا جائے وہ اس کام کو بہ خوبی انجام ہی نہیں دے سکتا۔خصوصاََ طلباءکو motivation کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے تا کہ وہ اپنی زندگی کی منزلوں کو صحیح طرح طے کر سکیں اور آگے بڑھیں کیونکہ یہ ہی وقت انسان کا سب سے زیادہ چیزیں سیکھنے کا ہوتا ہے۔
کچھ عرصے پہلے کے زمانے پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ تب بھی طلبہ کو motivateکیا جاتا تھا ان کے استاد ،والدین اور ان کے دوست احباب کے ذریعے تب کوئی اکّا دکّا ہی آرگنائزیشن ہوا کرتی تھیں جو کچھ ہونہار طلبہ کو جمع کر کے کبھی کبھار اس قسم کی ورک شاپز کروایا کرتی تھیں۔پر اگر آج کے زمانے پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے جیسے ان ورک شاپز کا کوئی ٹرینڈ ہی بن گیا ہو۔لوگوں نے اس کو بھی ایک بزنس بنا لیا ہے۔ہزاروں قسم کی چھوٹی چھاٹی آرگنائزیشن بن گئی ہیں جو ورک شاپ کے نام پر طلبہ سے بے شمار فیس طلب کر لیتی ہیں۔پر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسی کونسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے طلباءکے لئے یہ ورک شاپز اتنی اہم ہوتی ہیں۔آج کل ہر دوسرے طالبِ علم کے لئے کسی بھی آرگنائزیشن سے جڑنا اتنا اہم کیوں ہو گیا ہے؟کیا واقعی ان ورک شاپز میں معلومات دی جاتی ہے؟یا بس شغل کے لئے طلبہ ورک شاپز میں جاتے ہیں؟ اس بات کو جاننے کے لئے میں نے ایک ورک شاپ میں جانے کا ارادہ کیا،بڑے زوروشور کے ساتھ اس کی تیاریاں چل رہی تھیں۔بظاہر دیکھنے میں لگتا تھا جیسے بہت معلوماتی پروگرام ہوگا۔طلباءکا بہت بڑا ہجوم وہاں موجود تھافوراََ ہی پروگرام کا ا ٓغاز ہو گیا۔ ابتداءتو اچھی تھی لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا مجھے اپنے سوالات کے جوابات ملتے گئے۔جتنے بھی طلباءتھے وہ سب وہاں ٹائم پاس کے لئے آئے تھے،ہر بندہ بد تمیزی میں لگا ہوا تھا۔اسپیکر آکے اپنی بات بول کے چلا جاتا لیکن کوئی نہ تو اس کی بات سن رہا تھا اور نہ سمجھ رہا تھا بس سب اپنے شغل میں مگن تھے۔ اور نہ ہی ان اسپیکر کو اس بات کی فکر تھی کہ طلبہ انکی بات سمجھ بھی رہے ہیں یہ نہیں وہ بھی بس ایک فارمیلٹی کے طور پر آکے لیکچر دے کے چلے جاتے تھے۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ یہ سب صرف اور صرف ڈرامے بازی ہوتی ہے۔اسپیکر بس پیسے کمانے کے لئے لیکچر دیتے ہیںاور آرگنائزیشن بس اپنی پبلسٹی کے لئے یہ ورک شاپز کرواتی ہیںتاکہ وہ ان ورک شاپز کے نام پر زیادہ سے زیادہ بزنس کر سکیںاور طلبہ اپنے ماں باپ کے قیمتی پیسے بے وقوفوں کی طرح ان ورک شاپز پر خرچ کر دیتے ہیں۔آج کل یہ ٹرینڈ اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا پر اس کو روکنا بہت ضروری ہے۔کیونکہ اصل motivation انسان کو اس کے گھر اور استاد سے ملتی اس کے لئے اسے کسی ورک شاپ کی ضرورت نہیں۔
بی ایس پارٹ تھری 2012
This practical work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi at Department of Mass Comm University of Sindh
No comments:
Post a Comment