Pages

Thursday, 19 September 2013

نول رائے مارکیٹ ٹاور

سحرش سیّد 

 نول رائے مارکیٹ ٹاور 
عمارتیں ہرقوم کی تاریخ ،تہذیب وتمدن،روایات،معاشرتی اقدار اوروہاںکے رہنے والوںکی سوچوں کا عکس ہوتی ہے ۔جب ہم کسی ملک ےا شہر جاتے ہیں تو سب سے پہلے اس ملک کی موجودہ حالت یعنی ڈھانچے کو دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیتے ہیںکہ ےہاں لوگ،ان کی ذہنیت اور حکو متی سطح پر یہ ملک دنیا کے نقشے پرکیا اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ےہ اہم عمارتیں ہی ہیں جن کی وجہ سے ہزاروں سیاح اور تاریخ داں مختلف ملکوں کا رُخ کرتے ہیں تاکہ وہ ان کے بارے میںمکمل معلومات حاصل کرکے دوسرے لوگوں پہنچاتے ہیں۔
 حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہرہے جہاں کئی ایک تاریخی عمارتیں اور تالپوروں کے مقبرے فن تعمیر سکا شاہکار ہیں۔ ہم یہاں نول رائے ٹاور کا زکر کریں گے جو عرف عام میں مارکیٹ گھنٹہ گھر یا ٹاور کے طور پر جانا جاتا ہے۔
ٹاور کے نام سے ہمارے ذہن میںایک اونچی اور بڑی عمارت کاخاکہ بنتا ہے پر گھنٹہ گھر اےک درمیانے درجے کی پر دیکھنے میںنظروںکوٹہرادینے والی عمارت ہے جس کا تعمیراتی ڈھانچہ انگریزوںکے مذہبی اور ثقافتی اقدار کو نماےاںکرتاہے ۔
گرہام بیل کی مشہور ایجاد وقت کی پیمائش کاآلہ جسے عام لفظوں میںگھڑی یا گھڑیال کہتے ہیںنول رائے ٹاور مارکیٹ پر آویزاںہے انگریزوں کی غلامی کے تحفے اپنی جگہ پر مگر یہ ان کی اچھی کا وشوں کو ےاد دلاتا ہے ۔یہ ٹاور ایک باب کی اہمیت رکھتا تھا اور وقت کی پیمائش میں لوگوںکے لیے کار آ مد ثابت ہوا کرتا تھاکیونکہ اس وقت لوگوں پاس دورِحاضر کی طرح وقت کے پیمائش کے آلے نہیں ہوا کرتے تھے،لوگ اندازوںاور دوسری سمتی پیمائشوںسے وقت کو جانئے کی کوشش کیا کرتے تھے جو کہ نہ صرف مشکل بلکہ مستند بھی نہیںہواکرتا تھا۔
 محقق اور صحافی رحیم بخش برق نے سندھ کے مختلف شہروں میں موھود ٹاوروں پر تحقیق کی۔ ان کی تحقیق پر مشتمل ہفتیوار پروگرام کا ریڈیو پاکستانسے بھی نشر ہوا کرتا تھا۔ان کے مطابق ٹاورزانگریزوں نے تمام اہم شہروں میں جےسے سکھر، شکارپور،جیکب آباد،کراچی اورہمارے شہر حیدرآباد میں بنائے تھے۔یہ ۴۱۹۱ میں تعمیر کیا گیا جوآج تک مارکیٹ کی خاص پہچان ہے اسی وجہ سے یہ علاقہ ٹاور مارکیٹ کے نام سے مشہور ہے۔
شمال سے جنوب کی طرف شہر میں آتی ہوئی راہ میں مارکیٹ کا یہ دروازہ اپنی مثال آپ ہے۔ قدیم وجدید طرزِتعمیر کا شاہکار ایک باب نما شکل کا ہے عین وسط میں گھڑیال لگا ہواہے جو کہ کچھ ماہ پہلے الارم کے ساتھ کام کیا کرتا تھا پر اہلِ محلہ کی پریشانی کے سبب اس کو پھرسے ویران کر دیا گیا اورےوں اب پھر سے صرف ایک تاریخی عمارت رہ گئی ہے جس کی بد نصیبی سے دونوں سمت ہی کی حالتِ زار بھی کچھ خستہ ہورہی ہے۔
دونوں جانب گوشت مارکیٹ واقع ہے مشرقی بازو پر سبزی بازار اور مغربی بازو پرپان مارکیٹ،مرغی مارکیٹ اور سابقہ ایلائٹ سینیما عمارت ہے۔ریڑھی والوں کا اپنا سا جادوئی انداز ہے جو کہ ہر راہ گزر کو متاثر کررہا ہے اشیاءخریدنی ہو ےا نہ خریدنی ہوپر آپ کو بازار سے گزرتے ہوئے ہی اچھی خاصی معلومات مل جاتی ہے۔کسی بھی ریڑھی والے کا کوئی دام نہیںکوئی دس پانچ کم کرنے میں مان جاتا ہے کسی سے اچھی خاصی رعایت مل جاتی ہے گو کہ ریڑھی والے بھی اچھی خاصی مارکیٹنگ کی ٹرمنولوجی کو جانتے ہیں جیسی شخصیت ہو ویسی قیمت لگاتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے کی گئی مرمت نے اس عمارت کو پھر سے جاذبِ نظر ضروربناےا ہے اوپر کا حصہ سرخ رنگ کا حامل ہے اور بقیہ حصے پر کریم رنگ کےاگیا ہے۔جو بھی ہے ان ہی تاریخی عمارتوں سے ہمار ی تاریخی یادیں وابستہ ہے جو ہمارے بعد آنے والوں کو بھی اس جگہ کی تاریخی قدروقیمت کو اجاگر کرتی ہو ئی نظر آئینگی۔ 
M.A Previous in 2012
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

No comments:

Post a Comment