Pages

Thursday, 19 September 2013

انٹرویو: حیات علی شاہ بخاری

عائشہ انعم
انٹرویو: حیات علی شاہ بخاری
تعارف:حیا ت علی شاہ نے صحا فت کے میدان میں ۷۶۹۱ءریڈیو پاکستان سے آغاز کیا اسکے بعد کراچی خیرپور میں کام کیا پھر سندھی فلموں کا دور آیا ،فلمیں بن رہی تھی کہ کراچی چلے گئے چند فلمیں اسسٹ کیں محبوب ،مٹھا، چنچل ماں ، جیسی فلمیںبھی اسسٹ کی اور پھر لاہور چلے گئے اوروہاں عنایت بھٹی سے ملے جو بڑے فلم ساز اور گلو کار تھے لاہور میں بھی آپ نے بڑی کاسٹ کی فلمیں کیں ۔
س:صحافت کے شعبے میں دلچسپی کےسے پیدا ہوئی؟
ج:ابتدا میں فلم انڈسٹری سے تعلق کی بناءپر صحافت میں دلچسپی پیدا ہوئی۔بعد میں پاکستانی فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہو نے لگی تو یہ شعبہ چھو ڑ کر پوری محنت اور لگن سے محنت سے صحافت کے میدان میںقدم رکھا اور بڑی جدوجہد کے بعد اپنا مقام بنایا۔
س:صحافی کی اصل ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں ؟آپکی نظر میں ؟
ج:صحا فی اصل ذمہ داری عوام کوصرف باخبر کرنا نہیں بلکہ لوگوں کی سوچ کو تبدیل کرنا بھی ہے مگر خیال رہے یہ تبدیلی مثبت رُخ کی جانب ہو آجکل لوگوں کے ذہنوں میں کسطرح خوف وہراس بھرتا جارہا ہے یہ رویہ کسی بھی طور مناسب نہیں ہیں ہمارے یہاں کے ہر ادارے کی طرح اب صحا فت بھی شفاف نہیں رہی ہے اکثر صحافی اپنے مفاد کی خاطر کام کر رہے ہیں ورنہ عموماً ایسا نہیںہوتا۔
س:آپ نے میڈیا کے ہر شعبے میں کام کیا تینوں میں کیا فرق دیکھتے ہیں ؟
ج: میڈیا کے ہر شعبے کا اپنا مزاج ہے ذاتی طور پر الیکٹرونک میڈیا زیادہ پسند ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہوجائے وہ پرنٹ میڈیا کامقابلہ نہیں کرسکتا مثال کے طور پر اگر کسی وجہ سے آپ الیکٹرو نک میڈیا کا کوئی پروگرام نہیں دیکھ سکیںتوآپ کسی چینل کے اعلٰی حکام کو پرو گرام ریپیٹ کرنے کا نہیں کہہ سکتے اور یوں آپ یوں آپ اس پرو گرام کو دیکھنے سے محروم ہوجاتے ہیںجبکہ پرنٹ میڈیا کا یہ فائدہ ہے کہ اگر آپ نے کچھ نہ بھی پڑھا ہو تو وہ اخبا ر وہاں آ پ کے پاس ہو نے کی صورت میں مواد آپکے پاس ہوگا اسطرح ریڈیو بھی اب موبائل فون میں سماں گیا ہے جسے آپ جب چاہو سن سکتے ہو ۔ریڈیو کی نا کامی کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اب بھی پرا نے طریقے سے چلا آرہا ہے ہمارا ریڈیو اپنی فرمائش یا اپنا نام سننے کو لیئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے ممالک میںریڈیو ماحول سے باخبر رکھنے اور معلومات دینے کا اہم ذریعہ ہے۔
س © © © © : سندھی ڈراموں کے منفی اثرات کے بارے میں کیا کہیں گے؟
ج:سندھی ڈراموں میں دکھایا جانے والا یہ منفی تاثر بلکل غلط دکھایا جارہا ہے ہمارے یہاں دوسرے کئی مسائل ہیں ان چینلز کو ان حقییقی مسائل پر کام کرنا چاہیئے جس سے ناظرین کوئی مثبت سبق حاصل کریں جو انکی عملی زندگی میں بھی کام آسکے لیکن بد قسمتی سے سندھی چینلز پر جو ڈرامے بنائے جاتے ہیں اس کے زریعے سب لوگوں کی سوچ تبدیل کرنے کے بجائے انہیں اور منفی اثر دیا جارہا ہے۔ڈرامہ نگاروںکو چاہیئے کہ وہ لوگوں اپنے کام سے اچھی سوچ دیںمشرقی سوچ کو ابھا ریں اور مشرقی ماحول دیں۔
س ©: نئے پرانے لوگوںکے ساتھ کام کیا ، کون زیادہ ذمہ دار ہیں؟
ج:صحافت میں جو نئے لوگ آئے ہیںوہ اچھے ہیں اور بہت محنت کرنے والے ہیں ، اور اب انہیں چاہیئے کہ وہ اچھا اور مثبت کام کرکے اپنی ایک الگ شناخت بنائیں ، اِرد گرد کا ماحول دیکھ کر گھبرا نہ جائیں بلکہ جو وہ کرنا چاہتے ہیں دو سروںکے دباﺅ میںآ ئے بغیر وہ کر کے دکھائیں ، اپنی مرضی پر چلیں بھیڑوں کا شکا ر نہ بنیں نیچرل رہیں اور ہر چیزاصل میں جیسی ہے اسے ویسا ہی سب کے سامنے پیش کریں،نئے آنے والوں کوچا ہیئے کہ وہ اپنے مشاہدات کے مطابق معاشرے کو مثبت روپ میں ڈاھالنے کی کوشش کریں، ہان اگر آپ کے جھوٹ سے کسی کو جائز فائدہ ہورہا ہے تو بولیں لیکن اگر کسی کا نقصان ہورہا ہے تو ہر گز نہ بولیںکسی کا جائز مفاد اگر اس جھوٹ سے وابستہ ہو تو بھلے جھوٹ بول دیں چاہے کچھ بھی ہوجائے۔
س:نئے آنے والے لوگوں کیا مشورہ دیں گے؟
ج:کچھ باتوں میں تو پرانے لوگ ذمہ دار لگتے ہیںجبکہ کچھ میں نئے آنے والے،نئے آنے والوں میںپیسہ کمانے کا جوذہن بن رہا ہے ہو بہت براہے اور ایسا نہیں ہوناچاہیئے،بےشک نئے آنے والو ں کی اکثریت بھی اپنے پیشے میں مخلص ہے پر کہیں کہیں ذاتی مفاد کی وجہ سے وہ یہ غلط کام کر بیٹھتے ہیں یہ شعبہ پیسے کمانے کا نہیں ، اگر پیسے کمانے ہیںتو دوسرے شعبوںمیں جائےںکیونکہ یہ بڑا ذ مہ داری کا شعبہ ہے کیونکہ اس میں آپکو پوری قوم کی تعمیر کرنا ہوتی ہے اور ان کے ذہنوں کو
Aisha Anam is student of BS part-iii in 2012 میچور کرنا ہوتا ہے اگر اس میں آپ نے تھوڑی سی بھی غلط بیانی سے کام کیا تو پھر پورے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا۔ 
Practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi. Department of Mass Communication University of Sindh

No comments:

Post a Comment