محمد ندیم یوسف
پریس کلب کا بوڑھا بیری
پریس کلب کا بوڑھا بیری ایک ایسی تخیلاتی تحریر ہے جس میں ایک بے زبان کردار کو زبان دی گئی ہے ۔یہ کردار گذشتہ نصف صدی کا خاموش گواہ ہے۔ ذکر ہے یہ اس بوڑھے بیری کے درخت کا جو پریس کلب حیدرآباد پر سایہ فگن ہے اور جس نے اپنی عمر کے 50 سالوں کے دوران پریس کلب حیدرآباد کے سامنے ہونے والے تمام واقعات کو کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھا لیکن محرومی گویائی کے باعث کچھ بھی بولنے سے قاصر رہا بس دیکھتا ہی رہا۔۔۔۔ لیکن آج وہ بول رہا ہے،ہر بات جو اس نے دیکھی گذشتہ 50 سالوں میں ۔
٭ چلیں اب اصل گفتگوکا آغاز کرتے ہیں۔آپ سب سے پہلے یہ بتانا پسند کریں گے کہ آپ یہاں تک پہنچے کیسے؟اور اس مقام کو ہی اپنا مستقل ٹھکانہ بنانے کا خیال کیوں آیا؟
بیری :(تھوڑی دیر گلے کو کھنکھارکر صاف کرتے ہوئے )معاف کیجئے گا ،اصل میں عرصہ دراز سے خاموشی کے بعد بولنے میں کچھ دشواری محسوس ہو رہی تھی۔ہاں تو آپ نے میرے یہاں آنے اور مستقل ٹھکانہ بنانے کے حوالے سے پوچھا ہے ،توآپ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہاں تک پہنچنے میں میراکوئی کردار نہیں البتہ یہاں ٹھہرنے کا فیصلہ میرا تھاتقریبا50 سال قبل جب یہاں اس سڑک پر صرف سیشن کورٹ ریڈیو پاکستان اور اس کے مقابل پرو نیشل بینک کی عمارت ہوا کرتی تھی۔آبادی بہت کم اور ٹریفک نہ ہونے کے برابرتھی۔وہ گرمیوں کی دوپہر تھی ۔ ایک شخص نا معلوم کن خیالوں میںگم یہاں سے گذر رہا تھا۔تنہائی کی وحشت کو کم کرنے کے لیے اس نے کچھ بیر خرید لیے تھے۔ایک یہاں سے گذرتے ہوئے اس شحض نے بیر کھانے کے بعد اسکی گٹھلی ایک پتھرکا نشانہ لیکر اسکی جانب اچھال دی جوکچی زمین پرآکرٹھہر گیا ا ور کچھ عرصہ بعد جب ہواﺅں کے جھکڑ سے مٹی کی کچھ تہیںاس پر جمع ہوئیں اور ایک برسات کے بعد میرا ننھا وجود ظاہر ہوگیا۔رہی بات اس جگہ کو مستقل ٹھکانہ بنانے کی تواس کا جواب کسی اور موقع کے لئے رہنے دیں۔
٭آپ تو بڑی تفصیل میں چلے گئے۔گفتگوکچھ زیادہ طویل نہیں کرتے آپ؟بہرحال اب میں اصل موضوع کی طرف آنا چاہتا ہوں۔یہ بتائیے کہ آپ نے یہاں سب سے دلخراش منظر کون سا دیکھا؟
بیری :میرے عزیز !در اصل طویل خاموشی کے بعدجب کسی کو بولنے کا موقع ملتا ہے تو وہ یہی کرتا ہے جو میں کر رہا ہوں۔ بہرحال آپ کہتے ہیں تو میں اختصار سے کام لوںگا۔آپ کے سوال نے مجھے ایک بار پھر اسی کرب میں مبتلا کردیا جس سے میں 20سال قبل گذرا تھا۔وہ ستمبرکی ایک سوگوار سی دوپہر تھی جب شہدائے ٹنڈوبہاول کے لواحقین ۔انصاف کی تلاش میں پریس کلب کے سامنے پہنچے تو تمام فوٹو گرافرز اور رپورٹرز ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔مظاہرین میں ایک بوڑھی خاتون مائی جیندو اپنی 2 جواںسال بیٹیوں کے ساتھ بلک بلک کربین کررہی تھی۔ وہ غم سے نڈھال اپنے خاندان پر ہونے والے بدترین ظلم کی داستان صحافیوں کو سنا رہی تھی۔وہ بتا رہی تھی کہ کس درندگی کے ساتھ اس کے شوہر ،بیٹوں اور قریبی عزیزوں کو ایک قطار میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیاگیا ناصرف انہیں بے دردی سے قتل کیا گیا بلکہ میڈیا کے سامنے انہیں ڈاکو اور دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا۔وہ انصاف نہ ملنے پر بری طرح مایوس تھی۔بالآخر احتجاج کے دوران وہ دلخراش لمحہ بھی آیا جب انصاف سے مایوس مائی جیندو اور اسکی 2 جواں سال بیٹیوں نے تیل چھڑک کر خود کو آگ کی نذر کر دیا۔کچھ صحافی بچانے کے لیے دوڑے بھی لیکن جلتی آگ میں کون ہاتھ ڈالتا ہے۔کچھ دیر تڑپنے کے بعد تین لاشے زمین پر بے جان پڑے تھے ۔میں بہت مجبور تھا کچھ نہ کر سکا ،بس آئینہ کی طرح دیکھتا رہ گیا؟
٭انسانی بے حسی کا کوئی واقعہ جو آپ کے ذہن پر نقش ہوگیاہو ؟
بیری (سردآہ بھرتے ہوئے)میری سمجھ میں یہ نہیں آتاکہ آپ انسان تواشرف المخلوقات ہو پھر آپ لوگوںکے سینے میں دل پتھر کا کیوںہے ؟کیا منوبھیل سے اس کے بیوی بچے چھیننے والاسینے میں دل نہیں رکھتا ؟ اور کیا تمہاری حکومتیں اور نام نہاد NGOs اس قدر بے بس ہیں کہ وہ اس مجبور انسا ن کی مدد بھی نہ کرسکیں ۔یہیں میری چھاﺅ ں تلے اس نے کئی برس گذارے۔بہت سے مگرمچھ کے آنسو بہا نے والے میڈیا کے شوقین سیاستدان آئے ،اخبار ات اور چینلز کی کوریج حاصل کرنے کے لئے بہت سے دعوے کئے لیکن میرا دوست منو بھیل آج بھی انصاف سے محرم ہے۔
٭SRTC متاثر غلام محمد ڈیپر اور اس کے ساتھیوں کی کچھ خبردو؟
بیری:- (کچھ لمحے خالی نظروں سے اپنی جڑ کے قریب زمین کو دیکھتے ہوئے )ان بیچاروں کی خبر ضروردوںگا ۔ یہ خبر ہی تو تھی جو حکمرانوں کی طرف سے نہیں لی گئی اور وہ بیچارے خبر گیری کے انتظارمیں طویل عرصے تک اسی زمین پر بیٹھے رہے اور اسی انتظار میں ان میں سے بہت سے بوڑھی آنکھیں بند ہوگئیں ۔انکی زندگیاں ختم ہوگئیں لیکن حکمرانوں کی بے حسی ختم نہیں ہوسکی ۔مجھے یاد ہے کہ بوڑھے اور ریٹائرڈ SRTC ملازمین میں سب سے تواناغلام محمد ڈیپر ہی تھاجو حکمرانوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ہرروز احتجاج کا کوئی نیا اور اچھوتا ڈھنگ اختیار کرتا تھا ،تاکہ میڈیا والے یکسانیت کا نام دے کران کی خبر کو کِل نہ کردیں ۔اس طرح میڈیا والوںکو ایک اچھی خبر اور فوٹیج تو مل جاتی تھی لیکن اس کے بعد میں ہی دیکھتا تھا کہ وہ میڈیا کے تقاضے پورے کرنے کے بعد میری چھاﺅں تلے بیٹھ کر کتنی دیر کھا نستا اور اپنی سانسیں درست کرتا تھا۔ میں سوائے ٹھنڈی چھاﺅ ں دینے کے اسکے لئے کچھ نہیں کرسکتا تھا۔
٭ارے وہ بوڑھا نور محمد کون ؟تھا جو اکثر اپنے مطالبہ کے حق میں چند تصاویر لے کر گم سم گھنٹوں آپ سے ٹیک لگائے بیٹھا رہتا تھا؟
بیری :- ہاں خوب یا د دلایا آپ نے ،کافی عرصہ سے نظر نہیں آیا۔ مر گیا ہوگا بیچارہ۔شاید اس کی بے سکون زندگی کو موت ہی کے سہارے کی ضرورت تھی ۔اس کے ہاتھوں میں ہی نہیں بے رونق آنکھوں میں بھی اپنے پیاروں کی تصویر یں نظر آتیں تھیں جو تمہارے ایک ادارہ کی بد عنوانی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
٭ادارہ کی بد عنوانی کی بھینٹ ۔کیا مطلب؟
بیری ©:-ارے دوست !اگر اس ادارہ کے انسپکٹر اور دیگر متعلقہ افسران فر ض شنا سی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے برابر والی عمارت کا انہدام اپنی نگرانی میںکراتے تو نور محمد کا مکان اس طرح زمیں بوس نہ ہوتا۔کیا تم نہیں جانتے کہ اس طرح گھر میں سویا ہوا نور محمد کا پورا کنبہ زمین کا پیوند بن گیا ۔تم بھی ایک انسان ہوذرا سوچوجس شخص نے اپنے بیوی بچوں اور پوتے پوتیوں کے26 مسخ شدہ لاشے دیکھے ہوں توشاید موت ہی اس کے نا قابل برداشت غم کا علاج ہوسکتی ہے۔
٭پچھلے دنوں میں نے یہاں سے گذ ر تے ہوئے آپ کے قریب ہی ایک غریب سے خاندان کو کوئی احتجاج کرتے دیکھاتھا ،خاصے لوگ جمع تھے ۔ان کا کیا مسئلہ تھا ؟
بیری :- ارے بھائی ایسے مظاہرین تو سالہاسال سے ہر روز دیکھ رہا ہوں ۔ پتہ نہیں آپ کس کی بات کر رہے ہیں۔
٭ارے بابا !وہ جو بہت بوڑھے اور کمزور سے والدین تھے اور ان کے ساتھ 16 - 17سال کی خوبصورت لیکن بینا ئی سے محروم لڑکی تھی ۔
بیری :- ہاںہاں، یا د آگیا( کچھ دیر خاموش ر ہنے کے بعد)تم انسان لوگ میری سمجھ سے باہر ہو۔بعض اوقات تو انسانیت سے درندگی بھی شرماجاتی ہے۔تمہیںنہیںمعلوم اس کے ساتھ کیا ہوا ؟میں بتاتا ہوں ۔دراصل وہ خاندان حیدرآباد کے قریب واقع ایک گوٹھ میں رہائش پذیر ہے ۔بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے ضعیفی کے باوجود ماں باپ دونوں ایک زمیندارکی زمینوں پرکام کرتے تھے ۔لڑکی کی ایک ہفتہ بعد شادی تھی ۔برادری کا لڑکا ہونے کی وجہ سے قوت بصارت سے محرومی کے باوجود اس اللہ کے بندے نے لڑکی کو اس معذوری کے ساتھ بھی قبول کر لیا تھا ۔اس روز بوڑھے والدین حسب معمول مزدوری کے بعدتھکے ہارے گھر پہنچے ہی تھے کہ زمیندارکا لڑکااپنے 4 اوباش دوستوں کے ہمراہ گھر میں داخل ہوا اور بوڑھے والدین کورسیوںسے باندھنے کے بعد ایک کمرے کے چھوٹے سے مکان میں ان کی آنکھوںکے سامنے پانچوں درندوںنے ان کی پھول سی بچی کو باری باری بھنبھوڑ ڈالا ۔بوڑھے،کمزوراور لاچار والدین اس لمحے یہ سوچنے لگے کے کاش ان کی بیٹی کی بجائے وہ خود نابینا ہوتے تو آج یہ درند گی انہیںدیکھنے کو نہ ملتی ۔اتنا کہنے کے بعد بیری شدت جذبات سے کانپنے لگا،اس نے دیوانگی کے عالم میں اپنے پتے نوچ ڈالے ۔بہت سے پتے ہواﺅں میں تیر تے ہوئے دور تک بکھرگئے ۔
بیری کی غم ناک حالت دیکھ کر میںبھی غم اور غصے کی ملی جلی کیفیت میںکچھ لمحے گویا سکتے میںآگیا ۔لیکن پتوں پرکسی شخص کے چلنے سے پیدا ہونے والی چرچراہٹ کی آوازپر یکلخت پلٹ کر دیکھا تو فتح شاہ فراق کو اس طرف آتے دیکھا جس کے ایک ہاتھ میں سرخ وتازہ گلاب سے بھرا ٹوکرا تھا اور وہ وہاں سے گذرنے والے ہرشخص کو نہایت محبت بھری مسکراہٹ کے ساتھ گلاب کے پھول بانٹ رہا تھا ۔ابنِ آدم کے یہ دونوں روپ دیکھ کر میری گویائی جواب دے چکی تھی ۔اچا نک بے زبان بیری کی آواز میرے کانوں میںآئی ۔
"آپ کے جس سوال کا جواب میں دینے سے گریزکررہا تھا ،اس کا جواب یہ شخص یعنی فتح شاہ فراق ہی ہے جو واقعی ایک انسان ہے۔میں اسے برسوں سے دیکھ رہا ہوں۔انسانوں میں محبت اور بھائی چارگی کا پر چارکرنے والا یہ شخص گا ہے بگاہے یہاں آتا ہے اور بلا تفریق رنگ ونسل ،اور فرقہ ومسلک تمام انسانوں کو محبت کے پھول بانٹتا ہے ۔ میرے یہاںمستقل قیام کی واحد وجہ یہ شخص ہے،جو مجھے انسا نوںسے مایوس نہیں ہونے دیتا۔یا اللہ انسانوں کو اور بہت سے فتح شاہ فراق عطا فرما © "۔
میں نے بیری کی دعا پر آمین کہہ کر سر اٹھایا اور انٹرویو کا شکریہ اداکرنا چاہاتو میرے الفاظ فضا میں بکھر کر رہ گئے ۔،،،،،،،،،،
بیری دوبارہ خاموش ہو چکاتھا۔
Practical work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi
Practical work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi
No comments:
Post a Comment