پروفائل اورنگذیب منظور
مجبوری کے ہاتھوں ہیجڑا بننا پڑا
یوں تو مجبوری انسان سے بہت کچھ کروا دیتی ہے اور مجبور انسان اپنا ضمیر تک بیچنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور اس مجبوری کے تحت اسکو کیا سے کیا نہیں کرنا پڑتا اور وہ یہ نہیں سوچتا کہ وہ جو قدم اٹھا رہا ہے اس کا کیا انجام ہوگا ۔ایسے ہی ایک مجبور شخص کی پروفائل ہے جو حالات کی وجہ سے ہیجڑا بننے پر مجبور ہو گیا ۔یہ شخص پہلے لڑکا تھا پر حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہیجڑا بن گیا ۔
اس شخص کا نام اورنگذیب ہے اورنگذیب کے والد کا نام منظور ہے اورنگذیب ۵نمبر عسائیوںکی کالونی میں رہائش پذیر ہے ۔اورنگذیب نے بلکل نہیں پڑھا ،اورنگذیب کے بھائی HDAمیں گورنمنٹ ملا زم ہیں ۔اورنگذیب کی امی محمدی ہسپتال میں ملازمہ تھی پر طبیعت خراب رہنے کی وجہ سے انھیں ریٹیرمنٹ مل گئی ،پھر اورنگذیب بطور امی کی جگہ محمدی ہسپتال میں ملازم کا کام کرنے لگا ۔ کا م یہ تھا کہ بیڈ کی صفائی کرنا،چادر تبدیل کرنا وغیرہ وغیرہ ۔اورنگذیب کی تین بہنیں ہیں جو کہ شادی شدہ ہیں اور ابو جو کہ شوگر کے مریض ہیں۔اورنگذیب کے چھوٹے بھائی کو کسی نے گولی مار دی تھی تب اورنگذیب نے ملازم کی نوکری چھوڑ دی تھی اور امی کا خیال رکھنے لگا پر یہ صدمہ اورنگذیب کی امی برداشت نہیں کر پائی اور اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔
امی کے انتقال کے بعد اورنگذیب کو اسکے بھائی بھابھی نے گھر سے نکال دیا۔ بھائی بھابھی کا اورنگذیب کے ساتھ اچھا سلوک نہیں تھا وہ اورنگذیب کو اچھا نہیں سمجھتے تھے ،کیونکہ اورنگذیب کا حصہ تھا گھرمیںاور وہ اورنگذیب کو حصہ نہیں دینا چاہتے تھے۔اورنگذیب کے بھائی اپنے ابو امی کی ساری پینشن فوراً ہڑپ کر جاتے اور اورنگذیب کو کچھ بھی نہ دیتے اورنگذیب کا بھائی انتہائی لالچی ہے ۔
اب اورنگذیب کے پاس رہنے کو کوئی ٹھکانہ نہیں تھاگلیوں میں مارا مارا پھرتااور بھیگ مانگتا ۔پھر اسے ایک جگہ ہیجڑوں کے ساتھ رہنے کا ٹھکانہ مل گیا اورنگذیب بھی کیا کرتا اسکی مجبوری تھی اسکورہنے کی جگہ جو چاہیے تھی ۔اورنگذیب ہیجڑوں کے ساتھ رہ رہ کر خود ہیجڑا بن گیا ہیجڑوںجیسے کپڑے پہننے لگا اور خوب تیار شیار ہونے لگا جیسے کہ وہ کو ئی لڑکی ہو۔
پھر ایک دن اپنے بھائی کے گھر گیا اپناحصہ مانگنے تو اسکے بھائی نے اسے بہت مارا اور کہا کہ تم تو نہ عورت ہو نہ مرد ہم تمھارا حصہ کہا سے دیں۔ پھر دوبارہ اسکو اسکے بھائی نے گھر سے نکال دیا پھر روزانہ آتا پیسے مانگنے کے لئیے،اسکے پاس تو کھانے تک کے پیسے نہ تھے ۔ پھر اسکی بھابھی نے کہا کہ ہم تمہیں ایک شرط پر گھر میں رہنے دیں گے جو ہم کہیں گے ویسا تمہیں کرنا ہوگا۔پھروہ سوچنے لگا کہ باہر تو لوگ چین سے جینے نہیںدیتے لوگ مزاق اڑاتے ہیںمیرے کپڑوں اور ہیجڑے پن کی وجہ سے ،لوگ کہتے ہیںکہ یہ تو ہیجڑا ہے۔لوگوںکی ان باتوں سے تنگ آکر اس نے بھابھی کی بات مان لی اسکی بھابھی کہتی تم روز گھر کی صفائی کرو تب تمہیںکھانا اور میسے دونوں ملے گے ۔اب اورنگذیب گھر میں نوکر کی حیثیت سے رہنے لگا۔وہ گھر کے سب کام کرتا پر اسکو اسکے کام کے پیسے نہیںدیتے تھے اور کہتے کہ تمہیں رہنے کی جگہ جو دی ہوئی ہے۔
اورنگذیب کی بھابھی اس سے سب کام کرواتی جیسے کھانا پکوانا ،کپڑے دھونا ،استری کرنا،بچوںکو اسکول سے لے کر اور چھوڑ کر آنا ،بچوں کی پوٹی صاف کرنا،گھر کی صفائی کرنا برتن دھونا وغیرہ وغیرہ۔اور اتنے کام کرنے کے باوجود اورنگذیب اپنے بھائی سے پیسے مانگتا تو وہ اس کو کہتے کہ گھر سے نکال دوں گا۔
یہی وجہ ہے کہ اورنگذیب ہیجڑا بننے پر مجبور ہوا گلی گلی گھوم کر ڈھول بجا کر اور تالیاں بجا کر پیسے مانگتا،ڈانس کرتا اور شادی بیاہوں میں جا کر فنکشن میں ڈانس کرتا ہے اور اس کام میںجو پیسے ملتے وہ اپنے ابو کی بیماری پر خرچ کرتا اور ان پیسوں سے اپنا خرچہ بھی چلاتا اور عید وغیرہ پر اپنی بہنوں کو عیدی وغیرہ بھی دیتا ہے۔
آج کل تو رشتے نام کے رہ گئے ہیں اور انسان حالت سے مجبور آکر ہی ایسا قدم اٹھاتاجیسا کہ اورنگذیب نے کیا اگر اورنگذیب پڑھا لکھا ہوتا تو کبھی ایسا راستہ اختیار نہ کرتا
شرمین ناز ۔۔۔ بی ایس پارٹ۳
Practical work carried at Department of Mass Comm University of Sindh, in 2013
ؒ¿
No comments:
Post a Comment