سیوریج ، حیدرآباد کا سب سے بڑا مسئلہ ؟
وطن عزیز پاکستان کا ایک اہم اور وادی سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد جو اپنی مسحورکن ہواﺅں اور سرمئی شاموں کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک امتیازی مقام رکھتا ہے ۔ماضی کے بہت سے حکمرانوںکی عدم توجہی اور اداروں کی مجرمانہ چشم پوشی کی وجہ سے یہ عظیم تاریخی شہر دن بہ دن اپنی عظمت رفتہ سے محروم ہو رہا ہے۔آنے والی ہر حکومت نے دعوے تو اسے پیرس بنانے کے کئے لیکن افسوس کہ ان میں سے کوئی بھی حکمران اسے پیرس تو کیا حیدرآباد تک نہ بنا سکا،وہ حیدرآباد جو اپنے تاریخی و ثقافتی حوالوں کے علاوہ اپنے سرسبز راستوں، پر بہار باغوں اور سحر انگیز ہواﺅں سے عبارت تھا۔حکمرانوں کے دعوے محض انتخابی دعوے ثابت ہوتے ر ہے،اور حیدرآباد بتدریج گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوتا رہا۔
شہر کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور تلاش معاش کے لیے شہر کا رخ کرنے والے نو وار دوں کی وجہ سے حیدرآباد ایک گنجان شہر تو بن گیا لیکن حکمرانوں اور ذمہ دار اداروں نے اسے آبادی کے مطابق شہری سہولیات سے ہم آہنگ نہیں کیا ۔موجودہ حیدرآباد ایک دیہی اور تین شہری تعلقوںلطیف آباد ،سٹی اور قاسم آباد پر مشتمل ہے، تعلقہ سٹی کے بیشتر علاقے قدیم حیدرآباد پر مشتمل ہیں ۔ جن میں ہیرا آباد ،پھلیلی ،پریٹ آباد ،لیاقت کالونی ،کچا قلعہ اور پکا قلعہ و غیرہ خاصے گنجان اور قدرے بلندی پر واقع ہیںجبکہ تعلقہ لطیف آباد اور قاسم آباد کسی حد تک کشادہ لیکن لیکن نسبتََا نشیبی علاقے کہے جا سکتے ہیں ۔
شہری سہولیات فراہم کر نے والے دو اہم اداروں یعنی بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد (HMC )اور ادارہ ترقیات حیدرآباد(HDA)کا کردار ہمیشہ سے قابل تنقید رہا ہے ۔چند دیگر ذمہ داریوں کے علاوہ صفائی ستھرائی اور فراہمی و نکاسی آب سمیت نئی تعمیرات کی منصوبہ بندی انہی اداروں کے فرائض میں شامل ہے ۔حیدرآباد کے عوام ہمیشہ سے ہی ان اداروں کی نا قص منصوبہ بندی غیرتسلی بخش کارکردگی اور شہری مسائل سے چشم پوشی کے باعث پریشان رہے ہیں۔گلی کوچوں حتی کہ اہم گذر گاہوں پر کچرے کے ڈھیر، نا جائز تجاوزات،منصوبہ بندی سے عاری تعمیرات کبھی قلت آب کی شکایت تو کبھی آلودہ پانی کا شکوہ۔لیکن ان سب مسائل سے زیادہ اہم اور بنیادی مسئلہ جو شہر حیدرآباد کو در پیش رہاہے ،وہ ہے سیوریج یعنی نکاسی آب کا مسئلہ۔ابلتے گٹروں اور بہتی نالیوں نے حیدرآباد کی رہی سہی خوبصورتی کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔شہر کے بعض علاقے تو سال کے 6 مہینے جو ہڑ کا منظر پیش کرتے ہیں ۔خصوصا لطیف آباد یونٹ نمبر 2 کا علاقہ سیوریج کے مسائل کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ یونٹ نمبر 9,10,11,12 کے علاقے بھی اکثر اوقات اسی مسئلہ سے دوچار رہتے ہیں ۔
دوسری جانب تعلقہ قاسم آباد سیوریج کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ تسلیم کیا جاتا ہے۔روزمرہ سیوریج کے مسائل تو مسلمہ ہیں ہی لیکن جب موسم برسات شروع ہوتا ہے تو گو یا شہریان حیدرآباد ایک کڑے امتحان کے لیے خود کو تیار کر لیتے ہیں ۔موسم برسات شروع ہونے سے قبل متعلقہ اداروں کی جانب سے بھر پور تیاریوں کے بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں، لیکن یہ تمام دعوے برساتی پانی پر لکھی تحریر ثابت ہوتے ہیں۔برساتی پانی سڑکوں ،گلیوں اور میدانوں کے ساتھ ساتھ گھروں میں داخل ہوکر نا صرف معمولات زندگی معطل کرکے رکھ دیتا ہے بلکہ قیمتی گھریلو سامان کی بر بادی کا باعث بھی بنتا ہے۔
اسکی تازہ مثالیں 2005 اور 2007 اور اسکے بعد کی برساتیں ہیں ۔ناقص سیوریج سسٹم کی وجہ سے کئے ہفتوں اور نشیبی علاقوں میں تو کئی ماہ تک برساتی پانی کا انخلاءممکن نہیں ہو سکا ۔کچھ متاثرہ لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ برساتی پانی محض دھوپ سے ہی خشک ہوکرختم ہوا متعلقہ اداروں کی کارکردگی صفررہی۔سیوریج کی شکایات کے حوالہ سے واسا حکام کا موقف ہے کہ واسا اپنے تمام تر و سائل کو بروئے کار لاکر شہرکوسیوریج کے مسائل سے نجات دلانے کے لیے ہمہ وقت سرگرادں ہے لیکن بعض علاقوں میں سیوریج کے معمولی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں،جنہیں بہت جلد دور کردیا جاتا ہے ۔ اور ان مسائل کے پیدا ہونے کی وجہ بھی لوگوں کا غیر ذمہ دارانہ طرز عمل اور تیزی سے بڑھتے ہوئے کثیر المنزلہ پلازاﺅںکی تعمیرہے ۔واسا اپنے موقف کی وضاحت اس طرح کرتا ہے کہ بعض غیر ذمہ دار لوگ کوڑا کرکٹ کچرا دانوں میں ڈالنے کی بجائے سیوریج لائنوں میں بہا دیتے ہیں جو زیادہ مقدار میں ہونے کی وجہ سے لائینوں میں رکاوٹ کا سبب بنتاہے۔خاص طور پر پولی تھن کے شاپنگ بیگ سیوریج لائینوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں ۔
سیوریج کے مسائل کی ایک اور اہم وجہ شہر کا عمودی پھیلاﺅ ہے۔یعنی بڑھتی ہوئی آبادی کی رہائشی ضروریات کے لیے نئی آبادیاں بنانے کی بجائے موجودہ گنجان آبادیوں میں ہی 150 سے 300 گز کے مکانات پر کثیر المنزلہ پلازہ بنادئیے جاتے ہیں۔یعنی جتنا رقبہ اوسطا 6 سے7 افراد کے لئے
استعمال میں تھا وہاں اب50 سے 100 افراد رہائش پذیر ہیں ۔لیکن پلازہ کی سیوریج لائن اسی قطر کی ہے جو6,7 ،افراد کے لیے ڈالی گئی تھی ۔نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ سیوریج کا پانی اوور فلو ہوکر سڑکوں پر جمع ہوگا۔
سیوریج کے مسائل کے حوالہ سے قاسم آباد سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ نظر آتا ہے متمول آبادی ہونے کے باوجود یہاں بیشتر علاقے سیوریج کے گندے پانی میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہاں بڑے پیمانے پرتعمیر ہونے والے رہائشی پلازہ ہیں،جن کی تعمیر میں دولت پر ست بلڈر مافیا نے سیوریج کے مناسب انتظام کو کوئی اہمیت نہیں دی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سیوریج سسٹم کے خرابیوں کو دور کرنے کے لیے تکنیکی ماہرین کی مد سے جامع سروے کا اہتمام کیا جائے تاکہ سیوریج کی حقیقی خرابیوں کی نشاندہی ہوسکے۔بعدازاں مناسب حکمت عملی کے ذریعہ ان خرابیوںکا سد باب کیا جائے۔اس کام کے لیے واساکو یقینی طور پر ایک خطیر رقم درکار ہوگی جوکہ موجود ملکی حالات کے باعث سرکاری طور پر ملنا کچھ مشکل ہی نظر آتا ہے۔یہاں شہریوں کو اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے فراہمی و نکاسی آب کے بلوں کی ادائیگی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اگر حیدرآباد کے شہری واسا بلوں کی بروقت ادائیگی کو اپنا شعاد بنالیں تو حیدرآباد کے سیوریج سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کرنا نا ممکن نہیں۔ اگر ہمیں حیدرآباد کی عظمت رفتہ کی بحالی درکار ہے تو ہمیں بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔
No comments:
Post a Comment