Pages

Thursday, 19 September 2013

شیشہ سموکنگ کا بڑھتا ہوا رجحان

فیچر: شیشہ سموکنگ کا بڑھتا ہوا رجحان
ثاقبہ رحیم ایم اے پریویس
یوں تو سگریٹ نوشی کا پرپابندی کاپرچارتسلسل سے جاری ہے اب تو سگریٹ کے پیکٹوں پر بھی سگریٹ پینا مضر صحت ہے لکھا ہو تا ہے جیسے اقوال ذریں درج ہیں۔اس کے با وجود نہ تو سگریٹ نوشی میں کمی واقع ہوئی ہے اور نہ ہی لوگ اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔حقہ سگریٹ کی آمد سے پہلے سے عام تھا دیہی علاقوں میں تو اس کو تہذیب کا حصہ خیال کیا جاتا تھاجہاں با قاعدہ حقہ نوشی کی نشتیں ہو تی تھیں۔شہروں میں سگریٹ،پائپ اور سگار نے حقے کی جگہ حاصل کر لی مگر حقہ آج بھی شہری علاقوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔اب تو یہ حال ہے کہ حقہ کی جگہ ایک جدید قسم کے شیشہ نے حاصل کر لی ہے۔شیشہ حقہ کی طرز پر بنا ہوا ایک آلہ ہے جو کہ سموکنگ کی ایک جدید شکل ہے یہ نشہ ابھی تک پوش ایر یاز تک محدود ہے اس لیے کہ اس کے استعمال میں ہونے والی اشیاءخاصی مہنگی ہیں جنہیں بیرونی ممالک سے منگوایا جاتا ہے۔شیشہ کا آمیزہ لاہور،اسلام آباد اور کراچی کے بڑے اسٹورز پر دستیاب ہے دیکھنے میں آیا ہے کہ شیشہ پبلک پارکوں اور بڑے ہو ٹلوں میں پیش کیا جاتا ہے جہاں اس کا سر عام استعمال دیکھنے میں آیا ہے۔پوش ایر یاز اوربڑے ہو ٹلوں میں جہاں سگریٹ نوشی اور دیگر منشیات کے استعمال کو زندگی کا حصہ سمجھا جاتا ہے وہاں شیشہ ان کے فیشن میں ایک اضافہ ہی نہیں بلکہ ان کی روز مرہ زندگی کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔سموکنگ پر ہمارے یہاں کوئی پا بندی بھی نہیں بلکہابھی تک اسے نشہ ڈکلیر ہی نہیں کیا گیا۔البتہ چند ہوٹلوں میں صرف یہ نوٹ آویزاں دیکھا گیا ہے کہ یہاں پر اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کو شیشہ مہیا نہیں کیا جائے گاجب کہ ان جگہوں پر کم عمر بچوں کو بڑی تعداد میں شیشہ اور سموکنگ کر تے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ بڑے ہوٹلوں میں تو شیشہ اور سموکنگ کے لیے نہایت دلفریب ماحول مہیا کیا جاتا ہے جس سے نو جوانوں میں اس کی کشش بڑھتی جا رہی ہے۔شیشے کا حقہ بذات خور ایک دلفریب صورت میں بنا ہوتا ہے جو مختلف ڈیزائنوں میں دستیاب ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں مختلف اقسام کے فلیورز بھی مل جاتے ہیں۔جس قسم کا تمباکو چائیے اس فلیور میں مل جا تا ہے اسکی ڈبیا پر ان پھلوں کی تصاویر بنی ہوتی ہیں ۔فلیور کے ساتھ ساتھ انکے نرخ بھی مختلف ہو تے ہیں ۔لڑکیاں اور لڑکے ان شیشہ باروں میںدیکھے جاتے ہیں جو نیم تاریک ماحول میں ہاکی موسیقی کی آواز میں شیشہ نونشی کرتے ہیں۔شیشہ باروں کے لیے الگ ہی ماحول بنا ہو تا ہے جہاں ہر طرف دھواں ہی دھواں ہوتا ہے سگریٹ کے مقابلے میں شیشے کا استعمال چار سو کناہ زیادہ خطرناک ہے۔ایک شیشہ تقریباسوسگریٹ پینے کے برابر ہے ۔شیشے کے ایک کش کے دھویں میں پانچ ہزار سے زائد کیمیکل ہوتے ہیں جن میں سو سے زائد کیمیکل سرطان کا باعث بن سکتے ہیں۔شیشہ پینے والے افراد کے پھیپھڑوں کے مختلف امراض میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔سگریٹ اور شیشہ نوشی سے وقتی سکون تو مل سکتا ہے لیکن پھر پورے زندگی انسان اسی طرح منشیات کی گہری دلدل میں اترتا چلا جاتا ہے۔ شیشہ انسان سے اسکی طاقت اور اچھے برے کی تمیز چھین لیتا ہے ۔اس لیے ضروری ہے کہ شیشہ کی لعنت ترک کر کے صاف ستھری زندگی بسر کی جائے۔ 
2012

No comments:

Post a Comment