فیچر: حیدر آباد کا پکا قلعہ
ہر چیز کی اپنی کوئی نہ کوئی خاصیت ہوتی ہے چاہے وہ بڑا شہر ہو یا چھوٹا یہ خاصیت شہر کی نمائندگی کرتی ہے یا یہ کہ سکتے ہیں کہ شہر کی خاصیت اس کی پہچان ہوتی ہے۔ جیسا کہ کراچی میں قائد اعظم کا مزار،لاہور میں مینار پاکستان اور اسلام آباد میں باد شاہی مسجد ان شہروں کی خاصیت ہیں اسی طرح حیدر آباد کی پہچان بھی چند چیزوں سے ہوتی ہے۔جن میں سے ایک مشہور جگہ پکا قلعہ ہے۔اس کا شمار حیدر آباد کی قدیم اور تاریخی عمارتوں میں ہو تا ہے۔
شاہی قلعہ جو کہ اب پکا قلعہ کے نام سے جانا جاتا ہے یہ ایک چٹان گنجے پر کلہوڑو حکمران میاں غلام شاہ کلہوڑو نے سن1768میں اسکو تشکیل دیا۔یہ قلعہ تقریبا تیس ایکڑ زمین پر تعمیر کیا گیا ہے۔میاںغلام شاہ نے حیدر آباد بنایا اور اس کو دارلخلافہ قرار دیا اور یہاں کچھ عمارتیں ایسی کھڑی کی گئی تھیں جو کہ عام شہریوں کے استعمال کے لیے تھیں۔لیکن جب سندھ پر ٹالپور کی حکومت آئی تو ٹالپور حکمران میر فتح علی خان خدآباد چھوڑ کر حیدر آباد کی طرف آنکلے تھے۔ٹالپوروں کے اس دور حکومت میں قلعہ کافی خستہ اور بری حالت میں ہو گیا تھا۔جب سن1843کی جنگ میں میروں کو شکست ہوئی تو انگریزوں نے اس قلعہ پر قبضہ کر لیاتھا کچھ ہی عرصے میں وہاں ہونے والے حملوں سے قلعے اور ارد گرد کی عمارتوں کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی اور انگریزوں نے باقی خستہ عمارتوں کو گرا کر وہاں اپنی فوج کے قیام اور اسلح وغیرہ کے لیے کمرے تعمیر کر دیئے تھے۔پکا قلعہ میں داخل ہونے کا صرف ایک ہی راستہ ہے جو کہ شاہی بازار کی طرف سے نکلتا ہے۔جہاں میروں کے خزانے کی عمارتیں موجود ہیں اور وہاں کی گلیاں بھی کافی تنگ ہیں۔اس کے شمال مشرق میں کمروںکے مکمل کواٹرز موجود ہیں۔آج بھی قلعہ کا یہ منظر دیکھ کر تاریخ کی جھلک نظر آتی ہے۔یہ قلعہ آج سیاحوں اور پاکستانی شہریوں کے لیے دلچسپی کا باعث بن چکا ہے۔اب اسکی موجودہ حالت بہت خراب ہوگئی ہے کیونکہ بارشوں کا پانی اس کی دیواروں میں جمع ہو گیا ہے۔نکاسی آب ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے اس کی حالت اور بری سے بری ہوتی جا رہی ہے۔اس قلعہ کی بری حالت کے زمہ دار ہم لوگ خود ہیں۔اس کے ارد گرد لوگوں نے کئی ہوٹلز اور دکانیں وغیرہ قائم کی ہوئی ہیں جو کہ سرا سر غلط اور غیر قانونی ہیں۔قلعہ کا شمالی مشرقی حصہ بہت ہی خستہ حالت میں ہے اور اسے فوری طور پر مرمت کی ضرورت ہے۔حکومت اور یہاں کے شہریوں کو ایک ایسا قدم اٹھانا چائیے جس سے اس کے تاریخی پہلو کو قائم رکھتے ہوئے اس کی حالت بہتر کی جائے اور قانونی طور پر بھی اسے حکومت کے حوالے کیا جائے تاکہ حیدر آباد کے اس قیمتی اثاثے کوتباہ و برباد ہونے سے بچایا جا سکے۔اس کام میں حیدر آباد کے لو گوں کو بھی حکومت کا ساتھ دینا چائیے،حکومت کے بنے ہوئے قانون کی پاسداری کر نی چائیے اور اپنے حیدر آباد کی اس خوبصورت اور تاریخی جگہ کو بچا کر اور خوبصورت بنانا چائیے۔
No comments:
Post a Comment