Pages

Thursday, 19 September 2013

سندھ میں تسلسل سے ظاہر ہوتے پولیو کیسز

سندھ میں تسلسل سے ظاہر ہوتے پولیو کیسز،،،،، ذمہ دار کون؟

یہ خبر انتہائی تشویش ناک ہے کہ سال رواں کے پہلے 9 ماہ کے دوران ہی سندھ کے مختلف علاقوں میں 7 پولیو کیسز ظاہر ہوچکے ہیں اعداد و شمار بتاتے ہیںکہ گذشتہ سال ملک بھر میں ظاہرہونے والے پولیو کیسز کی تعدادکل 197 تھی۔اگر ہم اس تعداد کا موازنہ اپنے پڑوسی ملک بھارت سے کریں تو ہمیں بجا طور پر شرمندگی کا احساس ہوگا۔پاکستان سے کئی گنا زائد آبادی رکھنے والے اس ملک میں یہ تعداد محض ایک کیس تک محدود رہی۔بادی النظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فرائض سے غفلت کا جوکلچر ہمارے بیشتر اداروں میں جڑ پکڑ چکا ہے اس سے اب صحت شعبہ بھی محفوظ نہیں رہ سکاہے،اور اگر واقع ©ی ایسا ہی ہے تو ہمیں کسی بہت بڑے ارضی سماوی امتحان کے لیے خود کو تیار کرلینا چائیے۔
پولیو جیسے موذی مرض کے خاتمہ کے لیے عالمی ادارہ صحت کی انتہائی سنجیدہ کوششوں اور خطیر مالی معاو نت کے باوجود مقصد میں ناکامی بلاشبہ ایک لمحہ فکر یہ ہے ۔یہ غور طلب بات ہے کہ دیگر غریب اور پسماندہ ممالک کے بر خلاف پاکستان میں پولیو ویکسی نیشن کے سینکڑوں راﺅ نڈز ہونے کے بعد بھی تسلسل کے ساتھ پولیو کیسزکا ظاہر ہونا ہمیں یہ د عوت فکر د یتا ہے کہایک نیک مقصد کے لیے چلائے جانے والی مہم کی ناکامی کے اسباب معلوم کئے جائیں اور جانبداری کی بجائے اصل حقائق کو سامنے لائیں ۔ حقائق سے پہلو تہی یا سچائیوں سے چشم پوشی بھی ہماری غیر جانبدارانہ تحقیق کو متاثر کر سکتی ہے۔عالمی ادارہ صحت کی تحقیق کے مطابق انسداد پولیو مہم کے گذشتہ راﺅ نڈ کے دوران صرف سندھ میں 33780 والدین نے اپنے بچوں کو پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پلوانے سے انکار کیا اور اپنے اس موقف پر سختی سے قائم رہے ،یہی نہیں بلکہ گڈاپ کے علاقے میںتو عالمی ادارہ صحت اور یونسیف کے اسٹاف پر حملے کرکے ان کے دفاتر تک بند کرا دیئے گئے۔والدین کے انکار اور گڈاپ حملہ کے نتیجہ میں 4 لاکھ 43 ہزار 231 بچے پولیو ویکسن سے محروم رہے۔انکاری والدین دراصل وہ لوگ ہیں جن کے ذہنوں میںیہ خیال جگہ بنا چکا ہے کہ پولیو ویکسین کے نام پر جو دو ابچوں کو پلائی جارہی ہے وہ دراصل بندش نسل کی دوا ہے جو اسلام کے پھیلاﺅ اور مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد سے خوف زدہ مغرب کی سازش ہے۔مذکورہ طبقہ فکر کے خیال میں یہودو نصارہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور پولیو ویکسین انکی ایک انتہائی گہری سازش ہے ۔پولیو کیسز ظاہر ہونے کی دیگر بہت سی وجوہات میں اہم وجہ پولیو عملہ کی فرائض سے غفلت کی وہ روایتی بیماری بھی ہے جس میں ہر دوسرا پاکستانی مبتلا ہے۔
ملک میں پولیو مہم کے دوران ورکرز کا سب سے بڑا حصہ لیڈی ہیلتھ ورکرز (L.H.W) پر مشتمل ہوتا ہے ۔یہ خواتین ورکرز گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو ویکسین پلاتی ہیں۔لیکن گذشتہ کئی سالوں سے مذکورہ خواتین ورکزکے احتجاجی مظاہرے میڈیا کی زینت بن رہے ہیں کا نٹریکٹ پرکام کرنے والی ان ہزاروں ورکز کا موقف ہے کہ یہ نا صرف کئی کئی ماہ کی تنخواہوں اور دیگر مروجہ مراعات سے محروم ہیں بلکہ انہیں نامساعد حالات کار کا بھی سامنا ہے ۔اگر انسداد پولیومہم میں مرکزی کردار اداکرنے والی ان خواتین ورکز کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جائے گا تو مثبت نتائج کا خواب شایدکبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ 
جبکہ دوسری جانب حکومت سندھ کے دعوے یہ ہیں کہ وہ اس موذی مرض کے خاتمہ کے لیے اپنی بھر پور کوشش کر رہے ہیں ۔اس ضمن میں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد نے چند روز قبل ضلعی سطح پر پولیو مہم کا افتتاح بھی کیا۔اس مہم کے دوران صوبہ سندھ کے 15 ضلعوں میں 5 سال تک کے42 لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے۔اس مہم کے لیے 3581 ٹیمیں تشکیل دی گئی جبکہ ان ٹیموں کی نگرانی کے لیے 660 ایریا انچارج مقرر کئے گئے تھے۔محکمہ صحت نے مہم کو مﺅ ثر بنانے اور دور افتادہ علاقوں میں رہائش پذیر بچوں تک ر سائی کو ممکن بنانے کے لیے پولیو ورکرز کو 1261 موٹر سائیکلیں اور 203 کاریں بھی فراہم کیں ۔سندھ سے پولیو کے خاتمہ کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے 200 ملین روپے کی گرانٹ کا اعلان کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کے دیئے گئے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہیں ۔
عالمی ادارہ صحت ،وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کی کو شش اپنی جگہ لیکن اس موذی مرض سے آئندہ آنے والی نسلوں اور پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ من حیثیت القوم یہ ہما ری اخلاقی و قومی ذمہ داری ہے کہ ہر شحض اپنی حیثیت میں خلوص دل کے ساتھ اپنا حق ادا کرے۔اگر کوئی والدین اپنی کم علمی یا غلط راہنمائی کی وجہ سے انسداد پولیو مہم کی نا کامی کا سبب بن رہے ہیں تو ان کے عزیز و اقارب اور علاقے میں موجود با شعور افراد اکا فرض بنتا ہے کہ وہ انہیں سمجھائیں کہ آج انکی معمولی سی ہٹ دھرمی کے نتیجہ میں ان کا بچہ زندگی بھر کے لیے معذوری سے دوچار ہوسکتا ہے ۔اسلامی معاشرہ ہونے کی وجہ سے ہمارے یہاں علمائے دین کی باتوں کو نا صرف زیادہ توجہ کے ساتھ سنا جاتا ہے بلکہ ان پر بہت حد تک عمل بھی کیا جاتاہے ۔لہذا علمائے کرام کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے ذہنوں سے ابہام کا خاتمہ کریں ۔اگر کسی بھی علاقہ میں پولیو ٹیم کے ساتھ چند گھنٹوںکے لیے علاقہ کے معززین،بزرگ اور امام مسجدپولیو ٹیموں کی معاونت کرلیں اور تعاون نہ کرنے والے والدین کے پاس چلے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ والدین انکی بات نہ مانیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرہ کا ہر شحض اس عظیم کام میں اپنا کردار ادا کرے اور اگر ایسا ہوگیا تو وہ دن دور نہیں جب اس صوبے اور اس ملک کو پولیو جیسے موذی مرض سے چھٹکارہ مل جائے۔ورنہ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی ایسے بہت سے راﺅ نڈز بے معنی و مصرف ثابت ہونگے۔اور خاکم بہ دہن ملک میں بیٹ بال کی ٹک ٹک سے زیادہ بیساکھیوں کی ٹھک ٹھک کی آواز سنائی دے گی ۔یہ آواز ہمیں بہت قریب سے بھی سنائی دے سکتی ہے۔

No comments:

Post a Comment