Pages

Thursday, 19 September 2013

کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں

فیچر پہلی اشاعت کے لیئے 
سحرش سیّد ’۰۶‘
’کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں‘
کتاب ایک لفظی معلومات کامجموعہ ہے جس میں مختلف سوچ اور مختلف زاویوںسے کسی بھی موضوعات پر بحث کی جائے کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خدا وند کریم نے بھی مختلف ادوار میں انسانوںکوکتابوں کا تحفہ دیااور اس کی قدروقیمت کو چار چاند لگا دئیے اور اس نے ہر دور میں انسان کی رہنمائی کی گو کہ اس سے یہ اخذ نہ کیا جائے کہ کتا ب صرف وصرف مثبت پہلوﺅں پرہی ہوتی ہے بلکہ اس سوچ پر مبنی ہے کہ جوکہ اس کلام کو سوچتا اور اس کتاب یا معلومات کے ذخیرے کو انسان تک پہچانے کے لئیے کتابت کا سہارا لیتا ہے۔
آجسے صدیوں پہلے جب یہ خطہ عروج کی حدوںکو چھورہا تھا پھر آہستہ آہستہ اپنے علم وعقل کو بالائے طاق رکھ کر عیش وعشرت کے نشے میں کھونے لگا اس دور میں مغربی دنےا اپنے علم و فنون و ترقی کی حدوںکوچھورہی تھی۔انسانیت سے اخلاقیات تک جدید علم و فنون میں مہارت حا صل کی اور تجارت میں بھی اپنی شاخیں بحر ہند تک پہنچادیںجو کہ بعد میں ایسٹ انڈیاکمپنی کے نام سے مشہور ہوئی جس نے نہ صرف تجارت جھنڈے گاڑھے بلکہ آ ہستہ آہستہ سرحدی علاقوں سے ہوتے ہوئے اس پورے علاقے کو اپنے قبضے میں لے لیاان کی تعلیمی اصلا حات بھی اس وقت کے مسلمانوں کے لیئے نا قا بل بر داشت تھی۔
اور یوں یہ قوم کتاب یعنی علم وفنون سے محروم ہو کررہ گئے انگریزوں نے اس دور میںبڑی تعداد میں کتب خانے اور جامعات تعمیر کیںگو کہ اس میان ان کی مذہب کی تعمیر بھی دی جاتی تھی اس وجہ سے مسلم قومان جامعات کا رخ کرنے سے قاصر ہی رہیں دور حاضر میں ساٹھ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی یہ قوم کتاب سے دورہے۔آزاد قوم ہو کر بھی اپنی تعلیمی اصلاحات کے نا م پردو سے تین فیصد سے زیادہ بجٹ مختص نہیں کرتے اور نہ ہی اقبال،سرسیداور مولانا محمد علی جوہر جیسے تعلیم دوست شخصیات اس علا قے کی سر پرستی کررہے ہیں۔
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تےرے بحر کے موجوں میںاضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کے تو
کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں ۔
گو کہ ہم نے کتاب کو اپنا دوست اور ساتھی بنایا نہیں پر پھر بھی اس نے اپنے تمام ارتقائی مراحل طے کیے اور کاغذ کے پیراہن سے نکل کے شیشے کے عکس کے پیچھے آگئی جو کہ ای بوکس ©یعنی برقی کتاب کے طور پر جانی جاتی ہے۔
اس موضوع کو اجاگر کرنے کا بنیادی مقصد یہی رہا ہے کہ شاگردوں میں کتاب میں کتاب سے آگاہی پیدا کی جائے جو کہ کتاب کو ایک نصابی فضلے سے زےادہ اہمیت نہیں دیتے اور درس گاہوں میں بھی صرف اتنا ہی وقت ہاتھ آتا ہے کہ جس میںنصابی کتابیں ہی پوری نہیں ہوپاتی تو یہاں پر میری طالبِ علموں سے عرض ہے کہاپنی مصروفیات میں سے چند لمحے کتاب کے ساتھ بھی صرف کریں اور استاد بھی انہیں اچھی کتابوں کی ترغیب دیں معاشرے میں نہ صرف ایک مشینی حیثیت اختیار کریںبلکہ ایک مفید اور اعلٰی سوچ رکھنے والے معاشرے کو جنم دے سکیں۔
اس موضوع پہ لی گئی چند آراءکے مطابق:
فارمسی کی ایک طالبہ رابیہ کے مطابق انہیں خیالی اور حقیقی دونوں طرح کے رائیٹرز کو پڑھنا پسند ہے،جن میں پاﺅل کولیو،عمیرہ احمد،ابنِ صافی اور نسیم حجازی کی تاریخی کتابیں شامل ہیں۔اور ماس کام کی ہماری ساتھی طالبہ آمنہ کے مطابق انھوں نے تاریخ،جیوگرافی،انگلش لیٹریچر اور سندھی لٹریچر پڑھی ہے جن میں سے ا نھیں سندھی لوک کہانیاں بے حد پسند ہے۔
اگر ہم ماضی کے شاندار جھروکوں کی طرف نظر ڈالیں اور غور کریں تواس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ملکوں اور قوموں کی ترقی کا کافی حد تک دارومدارعلم وفنون پر ہے اور یہ کتب کا محتا ج ہے پر آج کل کی نوجوان نسل اسے صرف ایک نصاب سمجھتی ہے۔ہمارے ذہن میں کتب کے نام پربس کورس سے مبین کتابیں ہی آتی ہیں ہم بذاتِ خود جب اپنے ذہن کو کھنگالتے ہیں تو اسلامی کتب کے علاوہ صرف کہانیاں اور رسائل ہی ہماری نظر سے گزرے ہیں اس طرح سوچا جائے کہ کون سی کتاب پڑھی جائے تو ایک عام انسان کے پاس کوئی جواب نہ ہوگابلکہ ہم جےسے کو تو کسی اچھی کتاب کا نام تک ےاد نہیں۔۔۔
اگر کچھ برسوں پہلے کی جانب دیکھا جائے تونہ ٹیلی وژن،نہ ریڈیو،نہ انٹر نیٹ اور نہ ہی موبائیل تھاجنھیں اپنی ذندگی کا محور بنا لیا ہے تو جب کتاب ایک اچھی تعداد کی دوست ہوا کرتی تھی جب انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ کتاب کو سمجھ سکے یہ کتاب بذاتِ خود انسان سے ہم کلام ہوتی ہے اور پھر اس کی بہترین ساتھی بن جاتی ہے۔
پچھلے دور میں اکثر لوگوں سے سُنے میں آ تا تھامجھے بنا کچھ پڑھے نیند نہیں آتی مطلب کتاب صرف وہ بوجھ نہیں تھی جسے ہم صرف اس لیئے پڑھتے ہیں کہ اس میں سے ہمارا امتحان لیاجائے گابلکہ وہ ہماری بہترین ساتھی تھی جس طرہم نے انٹرنیٹ اور موبائیل کو اپنا ساتھی بنا لیا ہے رات کے آخری پہر سے دن کا پہلا عمل ہمارا سعل فون ہی ہوتا ہے اس ننھی سی مشین کے ساتھ ہم گھنٹوں بتا سکتے ہیں آتی ہوئی نیند بھی یہ جاوہ جا۔
پر اس کے برعکس اگر کوئی کتاب پڑھنے لگے تو نیند کی دیوی ہم مہربان ہونے لگتی ہے اس لیئے ہم کتاب کو ایک غیر ضروری اور بورنگ شے اس کا شوق رکھنے والے کو پڑھاکو کا نام دیتے ہیں دراصل ہر چے کو سمجھنے کے لیئے کچھ وقت درکار ہوتا ہے جب ہم کوئی نئی کتاب پڑھتے ہیں توابتداءمیںوہ ہمارے سر پے سے گزرتی ہے کیونکہ ہر اس کی زبان اس کے علم سے ناواقف ہوتے ہیں۔ 
ایک دفعہ پروفیسرسلیم چشتی نے علامہ اقبال سے عرض کیا:©©©’اسرار‘ اور ’پیام‘ دونوں کتابیں سمجھ نہیں آتی لیکن ان سے قطع نظر بھی نہیں کیا جاسکتادماغ قاصر سہی پر دل ان کی طرف مائل ہے۔
علامہ نے درےافت فرمایا :کہ ’اسرارِ خودی ‘کتنی مرتبہ پڑھی۔
جواب میں کہا:ساری کتاب تو نہیں پڑھی صرف پہلا باب پڑھا ہے لیکن وہ سمجھ میں نہیں آیااسی لیئے آگے پڑھنے کی ہمت ہی نہ ہوئی،اب رہی سہی دوسری کتاب تو اس کی غزلیں تو پڑھی ہیںنہ لالہ طور تک رسائی ہوئی نہ نقشِ فرنگ تک۔
یہ ُسن کرعلامہ نے فرماےا:خوش نویسی یا موسیقی ایک دن میں نہیں آسکتی فلسفیانہ نظمیں ایک دفعہ پڑھنے سے کےسے اور کیونکر سمجھ میں آسکتی ہے۔الفارابی نے ارسطو کے مابعد الطبیعات کو کئی سال تک مسلسل پڑھاتھا تم بھی اسکی تقلید کرواور ان کتابوں کو بار بار پڑھو۔
مثال کے طور پر جب ہم کوئی نوٹس یانصاب کی کتاب پڑھ رہے ہوتے ہیں اور وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتے تو ہم اسے دوبارہ پڑھتے ہیں ورنہ کسی دوسرے سے مدد طلب کرتے ہیںکیونکہ ہر انسان کاسوچنے اور سمجھنے کا طریقہ کار الگ ہوتا ہے تواکثر اوقات دوسرا ہمیں وہ بات باآسانی سمجھا دیتا ہے۔پر اگر کوئی نصاب سے ہٹ کر کتاب ہواور وہ سمجھ میں نہ آئے تو ہم اُسے چھوڑدےتے ہیں کہ یہ مشکل ہے، ہمارے مطلب کی نہیں، ےاسمجھ میں نہیں آرہی۔جب ہم اس سے بات ہی نہیں کرینگے توہمیں اس کی زبان کیا سمجھ میں آئے گی اسی وجہ سے بہت سے کتب خانوں میں مختلف قیمتی کتب ہونے کے باوجودلائبریریاں خالی پڑھی ہے کوئی پڑھنے والا نہیں اور یہ قیمتی سرمایہ دن بدن اپنی قدروقیمت کھورہاہے۔
ہم اس سرماےے کو کام میں لے سکتے ہیں جب گھنٹوںہم دوسری مصروفیات میں صرف کر سکتے ہیںتوایک گھنٹہ خود کی بھلائی کے لیئے کیوں نہیں نکال سکتے پھرایک اور مسئلہ درپیش آتا ہے پڑھیں توپڑھیں کیا؟
جب کسی نے کوئی کتاب پڑھی ہی نہیں تو اس کے علم میں کتابوں کی پہچان اور معلومات بھی نہ ہونے کے برابر ہی ہوگی۔اس ضبوحالی میں نا صرف شاگرد بلکہ استاد بھی برابر کا قصور وار ہے نہ ہی استاد شاگرد کے کتب خانے تک لانے میں کامیاب ہوااور نہ ہی جدید میڈیا نے شاگرد کو ایک پل کی بھی فراغت دی کے وہ کتاب میں چپُھے ہوئے دوست کو تلاش کرنے میں کامےاب ہوسکے۔
میڈیا جو کہ معلومات اور تعلیم کامرکزقرار پایاتھا گو کہ تفریح کے بے ہودہ محور میں ہی گُم ہوکر رہ گیاہے اسلام میں موسیقی کو شاید اسی لیئے حرام قرار دیا ہے کہ یہ انسان کو اپنی طرف مائل کرکے اس کے قیمتی وقت کوصرف کردیتی ہے جس سے انسان بہتر طور پر مستفید ہوسکتا تھا۔  
تحریر: سحرش سید ایم اے پریوئس سال 2012
Practical work carried under supervision of Mr Sir Sohail Sangi

No comments:

Post a Comment