Pages

Thursday, 19 September 2013

سید زبیر علی جعفری


محمد ندیم یوسف 
 ینئرصحافی
سید زبیر علی جعفری
اک عہد رخصت ہوگیا

22 ستمبر کی ایک سوگوار سی شام تھی جب یہ دل خراش خبر سماعت سے ٹکرائی کہ زبیر جعفری انتقال کر گئے۔ذہن و دل نے بمشکل اس حقیقت کو تسلیم کیا۔گویا زبیر جعفری بھی اب گذشتگان میں شامل ہوگئے۔
یہ ایک دل سوز حقیقت ہے کہ گلستان قلم و قرطاس ایک سرعت کے ساتھ خوش رنگ گلوں سے محروم ہورہاہے۔زبیر جعفری باغ صحافت کا ایک ایسا پھول تھے جنہوں نے اپنی مہک سے ان ہاتھوں کو بھی معطر کیا جو انہیں مسلنے کے لیے بڑھے۔وادی سندھ کا شہر حیدرآبادہمیشہ سے ہی قلمکاروںکے لیے بہت زرخیزخطہ رہا ہے۔یہاں سے نمو پانے والے ستاروں نے ایک عرصہ تک صحافت کے افق پر اپنی درخشندگی کے باب رقم کئے۔زبیر جعفری کی موت سے ایک و سیع حلقہ احباب دل گرفتہ ہے ،وہ نہایت ملنساراور کثیر الجہت شحضیت کے مالک تھے اور ان کی کمی تا دیر محسوس کی جائے گی۔
سید زبیر علی جعفری 1952 میں حیدرآباد سندھ کے ایک دینی و علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔حصول تعلیم کے دوران ہی صحافت میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ ابتدائی طور پرکچھ نگار شات مختلف اخبارات و رسائل کو ارسال کیں اشاعت نے ان کے ارادوں کو مزید پختہ کر دیا۔اوائل عمری میںہی تحریر کو وہ پختگی حاصل ہوئی جو بہت سوں کوعمرطویل گذارنے کے بعد بھی نہیں ملتی۔ صحافت کا باقاعدہ آغاز 1970 میں اس وقت کے انتہائی معروف فلمی رسالے " نگار" سے کیا۔70 کی دہائی میں فلمسٹار محمد علی اور زیبا کی جوڑی پردئہ سیمیں کی جان تصور کی جاتی تھی اور کسی فلم میں ہونا اس فلم کی کامیابی کی ضمانت تصور کیا جاتا تھا ۔شہرت کی بلندی اور مصروفیت کار دونوں ہی اس فلمی جوڑی اور لاکھوں مداحوں کے درمیان حد فاصل تھے ۔ زبیر جعفری نے اس مشکل چیلنج کو قبول کرتے ہوئے" نگار" کے لیے پہلا انٹرویو ہی ان دونوں کا کر ڈالا۔انٹرویو کی مقبولیت نے زبیر جعفری کو یکلخت مقامی سے قومی سطح پر پہنچادیا۔اس دوران مضامین اور انٹرویو ہفت روزہ " نور جہاں " اور دیگر معروف اخبارات و رسائل میں بھی شائع ہوتے رہے۔مزاج تحریر پر اختیار تھا لہذا ہر قسم کی تحریر اس شعبہ سے دیرینہ وابستگی کو ظاہر کر تی تھی۔ انہوں نے اس دوران بچوں کے ادب پر بھی کام کیا۔اور 1975 میں بچوں کے مقبول رسالے " ہو نہار" میں حیدرآباد سے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔انہوں نے اپنی کہانیوں اور مضامین میں تفریح کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت اور حب الوطنی پر بھی خصوصی توجہ دی۔
  فلمی صحافت سے وابستگی کے باعث اس وقت کے تقریبا تمام ہی ادا کاروں اور فلمسازوں سے گہرے مراسم ر ہے۔انہی راہ و رسم کے نتیجہ میں نوجوان زبیر جعفری کے دل میں بھی اداکاری کا شوق پیدا ہوا۔شکل و صورت اور قد کاٹھ کے حوالہ سے بھی اللہ نے بڑی فیاضی سے کام لیا تھا ۔لہذا ایک فلم " ندی کنارا" کے لیے بطور ہیرو منتخب ہو گئے۔فلم میں اس وقت کے تمام بڑے نام شامل تھے۔لیکن والد محترم کی نا پسندیدگی کو محسوس کرتے ہوئے نا صرف اس فلم سے کنارہ کشی اختیار کی بلکہ فلمی صحافت کو بھی خیر باد کہہ دیا ۔
سابق صدر جنرل ضیاءالحق کی حکومت میں ایک مذہبی رسالہ کی پیشکش ہوئی جس کو قبول کرتے ہوئے انہوں نے 14 اگست 1984 کوماہنامہ " عقیدت " حیدرآباد کا اجراءکیا جو 28 سال گذرنے کے باوجود تا دم مرگ تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔(اور بعداز مرگ ان کے زیر سایہ تر بیت پانے والے فرزند منور جعفری اسے جاری رکھے ہوئے ہیں )۔یہ رسالہ سیرت طیبہ اور بزرگان دین کے افکار و کردار کے علاوہ دینی اقدار و اخلاقیات کی ترویج اور معاشر ے میں پھیلی بے راہ روی کے خلاف جہاد میں ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہاہے۔ملت اسلامیہ کی راہنمائی کے لیے اکابر ین اسلامیہ کے ایام پیدائش و وصال ،اسلامی تہواروں اور قومی ایام کے مواقع پر خصوصی ایڈیشن کا اجراءاس رسالہ کی امتیازی شناخت ہے۔
ما ہنامہ عقیدت کی کامیابی کے بعد یکم جنوری 1989کو ہفت روزہ "کاروان وطن" کا اجراءکیا جو کامیابی کے ساتھ تا حال اپنی اشاعت جاری رکھے ہوئے ہے۔ بعدازں 22 نومبر 1990 کو ایک اور ہفت روزہ " ارض پاک " کا اجراءکیا اور یہ بھی بغیر کسی تعطل کے تا حال شائع ہو رہا ہے۔زبیر جعفری نے ایک ماہنامہ اور 2 ہفت روزہ رسائل کے اجراءکے دوران اپنے بڑے فرزندمنور جعفری کو مسلسل ساتھ رکھ کر ان کی صحافتی تربیت کی اور صحافت کی بار یکیوں سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ رکھا ۔وہ اب ایک روزنامہ اخبار " ہلال وطن " کے اجراءکی تیاریوں میں مصروف تھے،لیکن زندگی نے اس کا موقع نہیں دیا۔
زبیر جعفری امن کے پیامبر اور اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے۔وہ فرقہ واریت اور لسانی تعصبات کے خلاف نا صرف قلمی بلکہ عملی جدوجہد بھی کرتے رہے۔وہ حیدرآباد میں جمعیت علمائے پاکستان کے پہلے رکن بنے اور نظام مصطفٰی ﷺکے لیے دن رات کو ششیں کیں ۔1972 ءمیں " انجمن غلامان مصطفٰیﷺ" کی بنیاد ڈالی اور اس کے پہلے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے ۔ اس انجمن کے تحت محرم الحرام کے دوران ذکر شہدائے کر بلا کی سالانہ مجالس ،خلفائے راشدین کے ایام پر جلسے اور عید میلادالنبی ﷺکے حوالہ سے جلسے اور جلوسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ اوراق مقدسہ کو شرعی طریقے سے سمندر یا دریا میں ٹھنڈا کرنے کا اہتمام بھی اسی انجمن کے تحت کیا جاتا ہے۔
زبیر جعفری 1972 میں ضلعی امن کمیٹی کے بنیادی رکن بھی منتخب ہوئے اور شہر میں محرم الحرام ،ربیع الاول اور دیگر اہم مواقع پر امن و امان کے قیام کے لیے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی معاونت کرتے رہے۔وہ بنیادی طور پر ایک سماجی خدمت گار تھے۔ ان کی یہ سوچ تھی کہ 
میں مسافر ہوں،مرا کام سفر کرنا ہے ضرورت مندوں کے کام آنا فطرت تھی،وہ ذاتی حیثیت میں بھی فلاح انسانی کے لیے سرگرداں رہتے جبکہ ان امور کو زیادہ منظم انداز میں انجام دینے کے لیے مختلف فلاحی تنظیموں کو بھی فعال کیا۔وہ 1985 میں برادری رنگریزان (مارواڑی)پاکستان کی پنچائیت کے سر براہ منتخب ہوئے اور برادری کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیشہ سر گرداں رہے۔انہوں نے 1995 میں برادری کے غریب اور نادار لوگوں کی مدد کے لیے ایک فلاحی ادارہ" فلاح و بہبود " کی بنیاد رکھی ۔اس ادارہ کے تحت سینکڑوں غریب لڑکیوں کی شادی ،جہیز کی فراہمی ،علاج ،معالجہ اور مالی امداد کی جاچکی ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔وہ ایک بلڈبینک کے قیام کی تیاریوں میں بھی سر گرداں تھے لیکن زندگی نے انہیں مہلت نہ دی۔
سید زبیر علی جعفری22 ستمبر2012 کو شام 7 بجے خالق حقیقی سے جا ملے۔انہوں نے پسماندگان میں ایک بیوہ ،3 بیٹوں ،2 بیٹیوں اور بے شمار دوست احباب کو سوگوار چھوڑا۔
بچھڑا وہ اس طرح کہ رت ہی بدل گئی
 اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

2 comments:

  1. اُٹھیں اب ظلمِ ظالم کے لئے سینہ سپر ہو کر
    دھاڑیں بیشہءِ روباہِِ دوں میں شیرِ نر ہو کر
    مٹا دیں ھستی اس دنیا سے ہر نمرود و فرعوں کی
    سنان و خنجر و شمشیر و پیکان و تبر ہو کر
    گلستانِ جہاں میں مثلِ شبنم اشک ٹپکائیں
    گلِ انسانیت پر شامِ غم میں چشمِ تر ہو کر
    اگر راہوں میں دامِ مکر و تذویرِ جدید آئیں
    گذر جائیں ضمیر حلقہءِ تارِ نظر ہو کر
    طلسمِ دورِ حاضر کی شب یلدائے ظلمت کو
    مٹا دیں نورِ ایمانی میں انوارِ سَحر ہو کر
    الم نشرح کو حرزِ جاں کئے دل میں اُتر جائیں
    گدازِ سینہء بے تابِ انساں میں اثر ہو کر
    گدازِ سوزِ باطن سے دلِِ خورشید کو چیریں
    شعاعِ شعلہء دردِ فلک تابِ جگر ہو کر
    فقلنا الضرب کی بانگِ قہر گوں گونجی زمانے میں
    ہلا دیں کاخِ باطل لرزہء شق الحجر ہو کر
    بھڑک اُ ٹھے ہیں شعلے نائرہء نمرود کے ہر سو
    لپک جائیں خدا کا نام لے کے بے خطر ہو کر
    فسونِ لاالہ سے فتنہء دوراں کو بٹھلا دیں
    اگر دنیا میں اُٹھا ہے یہودی فتنہ گر ہو کر
    فلک کی وسعتوں میں ضوئے ایماں بن کے ہم چمکیں
    ہلالی پرچم و انجم میں تنویرِ نظر ہو کر
    یکادُ البرقُ یخطفُ کی مثل ابصارِ لادینی
    اُچک لیں سینہء کافر سے مازاغ البصر ہو کر
    چمکنا ہے تمھیں اے ملتِ بیضا کے دردانو
    جبینِ آدمیت پر شعاعِ آبِ زر ہو کر
    قیاس و ظن و اوہام و گمانِ دورِ باطل کو
    مٹا دیں اُٹھ کے لوحِ عرش پر شق القمر ہو کر
    محمد ابن قاسم کی قسم اقصائے عالم میں
    بٹھا دیں دھاک اسلامی تہور کی ببر ہو کر
    خدا کے دیں کو پھیلا دیں زمیں کے گوشے گوشے میں
    بکھر جائیں جہاں میں مصطفے ﷺ کے نامہ بر ہو کر
    چلیں جبریلؔ ہو جائیں غبارِ جادہء مدینہ
    لپٹ جائیں قدومِ مصطفے ﷺسے سنگِ در ہو کر
    Back to Conversion Tool

    ReplyDelete
  2. اُٹھیں اب ظلمِ ظالم کے لئے سینہ سپر ہو کر
    دھاڑیں بیشہءِ روباہِِ دوں میں شیرِ نر ہو کر
    مٹا دیں ھستی اس دنیا سے ہر نمرود و فرعوں کی
    سنان و خنجر و شمشیر و پیکان و تبر ہو کر
    گلستانِ جہاں میں مثلِ شبنم اشک ٹپکائیں
    گلِ انسانیت پر شامِ غم میں چشمِ تر ہو کر
    اگر راہوں میں دامِ مکر و تذویرِ جدید آئیں
    گذر جائیں ضمیر حلقہءِ تارِ نظر ہو کر
    طلسمِ دورِ حاضر کی شب یلدائے ظلمت کو
    مٹا دیں نورِ ایمانی میں انوارِ سَحر ہو کر
    الم نشرح کو حرزِ جاں کئے دل میں اُتر جائیں
    گدازِ سینہء بے تابِ انساں میں اثر ہو کر
    گدازِ سوزِ باطن سے دلِِ خورشید کو چیریں
    شعاعِ شعلہء دردِ فلک تابِ جگر ہو کر
    فقلنا الضرب کی بانگِ قہر گوں گونجی زمانے میں
    ہلا دیں کاخِ باطل لرزہء شق الحجر ہو کر
    بھڑک اُ ٹھے ہیں شعلے نائرہء نمرود کے ہر سو
    لپک جائیں خدا کا نام لے کے بے خطر ہو کر
    فسونِ لاالہ سے فتنہء دوراں کو بٹھلا دیں
    اگر دنیا میں اُٹھا ہے یہودی فتنہ گر ہو کر
    فلک کی وسعتوں میں ضوئے ایماں بن کے ہم چمکیں
    ہلالی پرچم و انجم میں تنویرِ نظر ہو کر
    یکادُ البرقُ یخطفُ کی مثل ابصارِ لادینی
    اُچک لیں سینہء کافر سے مازاغ البصر ہو کر
    چمکنا ہے تمھیں اے ملتِ بیضا کے دردانو
    جبینِ آدمیت پر شعاعِ آبِ زر ہو کر
    قیاس و ظن و اوہام و گمانِ دورِ باطل کو
    مٹا دیں اُٹھ کے لوحِ عرش پر شق القمر ہو کر
    محمد ابن قاسم کی قسم اقصائے عالم میں
    بٹھا دیں دھاک اسلامی تہور کی ببر ہو کر
    خدا کے دیں کو پھیلا دیں زمیں کے گوشے گوشے میں
    بکھر جائیں جہاں میں مصطفے ﷺ کے نامہ بر ہو کر
    چلیں جبریلؔ ہو جائیں غبارِ جادہء مدینہ
    لپٹ جائیں قدومِ مصطفے ﷺسے سنگِ در ہو کر
    Back to Conversion Tool

    ReplyDelete